ایک کالم دکھی دل کے ساتھ !!

آپ لکھنے کے بعد اپنا لکھا دوبارہ پڑھتے ہیں؟یہ جملہ مجھے دوسری مرتبہ کسی نے کہا ۔ اس سے قبل ایک معروف سیاسی شخصیت نے مجھ سے شکایتی لہجے میں کہا تھااوراب سے کچھ دن قبل میڈیا سے وابستہ قابل احترام فرد نے جھلاہٹ سے یہی جملہ دوبارہ دوہرایا ۔میرے لئے دونوں محترم تھے اور ہیں اس لئے انھیں ایک ہی جواب دیا کہ مجھے میری غلطی بتا دیجئے تاکہ اپنی اصلاح کرسکوں ۔اکثر ایسے افراد بھی ہیں کہ جو میرے لکھے کو عامیانہ تحریر کہتے ہیں ، میں ان کا بھی بُرا نہیں مانتا کیونکہ کسی کی تنقید ہی اصلاح کا سبب بنتی ہے ۔یہ ضرور ہے کہ وقتی طور دل پر ناگواری کا احساس ضرور گذرتا ہے لیکن برداشت کے ساتھ کوشش کرتا ہوں کہ کسی سخت لفظ کو دوہرانے کے بجائے ازخود کہہ دوں کہ جی آئندہ کوشش کروں گا کہ ایسا نہ ہو ۔میں نے خود کو آزمانے کیلئے ایک ترکیب نکالی تھی ، ایک قلمی نام کو منتخب کیا اور قلمی نام کسی خاتون کا استعمال کیا ، پھر اس کے بعد اس قلمی نام میں ڈاکٹر کے لفظ کے ساتھ ہی اپنے قیام گاہ ترقی یافتہ ملک کو ظاہر کیا ، اور حسب توقع فوری طور پر معروف اخبار میں میرا لکھا پہلا ہی کالم شائع ہوگیا ۔اب جن جن اخبارات میں میرے کالم دوسرے ادارتی صفحے پر شائع ہوتے تھے وہ بدستور میرے اصل نام کے ساتھ شائع ہو رہے تھے لیکن میرے قلمی نام کے ساتھ لکھے کالم کو درجہ اول کا قرار دیکر پہلے صفحے پر شائع کردیا جاتا ۔یہ سلسلہ کوئی دو سال تک چلتا رہا ۔ معروف اخبارات کے معروف ایڈیٹر انچارج کو قادر خان کے ایک کالم کو انتخاب کرنے کیلئے چار کالم ارسال کرنے پڑتے تھے کیونکہ ان کے مطابق آپ کے کالم سخت ہوتے ہیں ۔ لیکن جب قلمی نام کی خاتون صنف سے لکھے اس سے زیادہ سخت جملوں کے ساتھ اپنے ایک کالم کو مقالہ کی شکل میں دس دس اقساط میں بھیجتا تو فوری طور من و عن چھپ جاتے ، دانستہ یا مصروفیت کے سبب اگر بروقت کالم ارسال نہیں کرپاتا تو ای میل آجاتی کہ "ڈاکٹر صاحبہ ، آپ کا کالم نہیں آیا ، خیریت تو ہے "۔عموماََ دیکھا گیا کہ ایڈیٹرز اپنا فون نمبر دینے میں تامل برتتے ہیں ، لیکن مجھے (یعنی ڈاکٹر صاحبہ) کو ازخود فون نمبر ای میل کردیئے جاتے کہ یہ میرا فون نمبر ہے ۔ چونکہ کالم میں تصویر نہیں دیتا تھا اس لئے مجھ سے تصویر کی فرمائش ہوتی کہ آپ چاہیں تو آپ کی تصویر بھی شائع کردی جائے گی ۔میں نے فیصلہ کرلیا کہ سچائی کا آئینہ نام نہاد سینئرز کو دیکھا دوں ۔ مجھے علم تھا کہ ان کے دلوں پر بجلی گرے گی لیکن یہ میری تسکین کے لئے ضروری تھا۔میں نے اسی خاتون والی آئی ڈی سے گذارشات عرض کرڈالی کہ لکھنے والا ایک ہی ہے صرف نام کا فرق ہے لیکن نام کے اس فرق کے ساتھ آپ کی سوچ میں کتنا فرق ہے؟۔پھر اس کے بعد میں نے خاتون کے قلمی نام سے لکھنا چھوڑ دیا اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد اُس ایڈیٹر انچارج کا رویہ قادر خان افغان کے ساتھ کیا ہونا تھا ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میڈیا میں خاتون کو فوقیت دی جاتی ہے ، ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو کافی الگ پلاتے ہیں اور بڑے پیار سے بیٹھ کر ان کی غلطیوں کو درست کرکے ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں ۔ لیکن مجھ جیسا اردو نہ بولنے والا، نہ ٹھیک سے لکھنے والا کسی کی ناراضگی کا شکار ہوتا ہے تو پھر ایسے الف سے لیکر ی تک صرف غلطی نظر آتی ہے ۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ شاباشی کی تھپکی ملی ہو کہ اچھا لکھا یا جو لکھ رہے ہو اس سے تمھاری جان کو خطرہ ہے اس کا رسک کوئی نہیں لیتا لیکن تم لے رہے ہو۔اس وقت سنیئرز کو خیال نہیں آتا کہ دشمنی کا کوئی معیار نہیں ہوتا ۔سچائی کے نام پر لکھے جانے والے لفظوں کی کاٹ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوتی ہے ۔میں جیسا لکھتا ہوں ویسا ہی لکھ سکتا ہوں ، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ سچائی سے لکھتا ہوں ، مجھے اس بات پر فخر نہیں ہے کہ بڑے اخبارات سے میرا صحافتی سفر شروع ہوا ۔ لیکن اس بات پر اطمینان ضرور ہے کہ سچائی کیلئے کسی انجام کی پرواہ نہیں کی ۔ میں لکھنے کے بعد اپنی تحریر کو کئی مرتبہ پڑھتا ہوں ، سوچتا ہوں کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے ، اس پر کوئی کیا ریمارکس ملے گا ، میں وقت پاس کرنے کیلئے شوقیہ لکھنے والوں میں سے نہیں ہوں ، پاکستان کے ایک بڑے نام والے اردو اخبار میں جب بابائے اردو سے قبل کی طرز میں کچھ کالم لکھے تو وہ ادبی لیکچر لگنے لگے ۔ایک مرتبہ مزاحیہ تحریر لکھی تو حیرت کا اظہاریئے آگئے کہ آپ ایسا بھی لکھ سکتے ہو ، کچھ یہی الفاظ میں نے کراچی کے ایک سینئر ایڈیٹر اور کالم نویس کو ارزہ مذاق کہہ دی کہ واقعی آپ نے لکھا ہے ، وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ بغیر بریک لگائے اپنے بچپن سے لیکر موجودہ عمر تک کے کارنامے و تجارب و تعلیمی اسنادبے تکان سنا دیئے ۔معذرت کے ساتھ حلفیہ گواہی بھی دی کہ میں نے مذاق میں کہا تھا لیکن غرور کا سر ہمیشہ اونچا ہی ہوتا ہے ۔ایک اور معروف کالم نویس کو تبصرے میں لکھ دیا کہ آپ اپنی تحریروں میں صوبائیت اور لسانیت کے فروغ کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کو غلط پیرایئے میں لکھ رہے ہیں تو انھیں اتنا برا لگا کہ کہہ اٹھے کہ تم بنیاد پرست ، شدت پسند ہو ، اور مجھے فیس بک سے ان فرینڈ کردیا ۔ ، صحافت میں ملازمت کا تجربہ یقینی اہمیت کا حامل ہے لیکن صحافت میں سنیئر ، جونیئر کا تصور ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے ، ہم سنیئرز کو ا س لئے عزت و قدر منزلت دیتے ہیں کیونکہ ان کی ملازمت کا عرصہ ہم سے زیادہ ہوتا ہے، تجربہ بھی زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی کی تضیحک کی اجازت مل جائے ، میں عزت کرتا ہوں اور عموماََ حسن ظن سے کام لیتا ہوں ۔قابلیت نہیں جھاڑتا ، سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور سیکھنے کے عمل کو بہتر سمجھتا ہوں لیکن اخلاقیات کی حد پار کرنے والوں کے لئے بھی میرے پاس برداشت کا مادہ بہت کم ہے۔میں اس تحریر کو لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھوں گا ، ۔لفظوں میں بے ترتیبی وبے ربط ہونے پر درستگی کو بھی دیکھوں گا لیکن انسان ہوں غلطی سے مبرا نہیں ہوں ۔ہوسکتا ہے جن جن کو نام لئے بغیر مخاطب ہوا ہوں وہ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں ، یہ کالم میرے لئے بھی ہے اور آپ کیلئے بھی ،ہم سب ایک دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں حدود کا تعین بھی ہم خود کرتے ہیں اس ضروری ہے کہ اس کا خیال بھی خود کریں۔دل دکھی ہے اس لئے ایک کالم دکھی دل کے ساتھ لکھ دیا۔ عموماََ ذاتیات پر لکھنا نہیں چاہیے لیکن معاشرتی رویئے سے ہم سب جڑے ہیں تو مبرا کیسے ہوسکتے ہیں؟؟۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659936 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.