4کروڑ58لاکھ غلام

دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا کی تنظیم’’ واک فری فاؤنڈیشن ‘‘نے 2016میں غلاموں کے بارے میں اپنے انداز میں نئے سروے جاری کئے ہیں۔ غلامی کا معیار پرکھنے کے لئے جبری طور پر فیکٹریوں، کھیتوں، اینٹ کے بھٹوں، کانوں میں کام کرنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ یا انہیں زبرستی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے یہ رپورٹ دنیا بھر میں 53زبانوں میں 42ہزار انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی۔ موجودہ دور کی اس غلامی کو جدید غلامی کا نام دیا گیا ہے۔ جدید غلامی کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ جو شخص دباؤ، دھمکی، تشدد، طاقت کے غلط استعمال یا دھوکے کی وجہ سے کام نہ چھوڑ سکے۔ وہ قرض دار ہو جائے اور اسے ذاتی غلام بنا دیا جائے۔ یا س سے ایسے کام لئے جائیں جنھیں وہ مرضی سے انجام دینے پر رضا مند نہ ہو۔ تنظیم نے ایسے ممالک کی بھی فہرست جاری کی ہے جن میں دور جدید کے غلامی کی تعداد کم پائی جاتی ہے۔ ان میں لیگزمبرگ، آئر لینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویٹزر لینڈ، آسٹریا، سویڈن، بیلجیئم، امریکہ، کنیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔

تنظیم کے گلوبل سروے (Slavery Index)سلیوری انڈیکس کے مطابق بھارت میں غلامی کی تعداد ایک کروڑ 83لاکھ یعنی سب سے زیادہ ہے۔ چین 34لاکھ کے ساتھ دوسرے اور پاکستان 21لاکھ 34ہزار 9سو غلاموں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 167ممالک میں غلامی کی زندگی گزارنے والوں کی درجہ بندی میں بنگلہ دیش اور ازبکستان کو بھی بلند ترین سطح پر رکھا گیا ہے۔ یہ تنظیم 2014سے دو سال میں 25سروے کرا چکی ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش سمیت تیسری دنیا کے ممالک کے لاکھوں محنت کش امیر ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ غلامی کے خاتمہ کے لئے کام کرنے والی یہ تنظیم مہم چلا رہی ہے کہ جن ممالک میں غلاموں کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ ان کے لیبر پر دیگر ممالک میں کام کرنے پر پابندی لگائی جائے۔

غلامی کی تشریح کرتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ جو لوگ قانونی طور پر غلام بنا دیئے جاتے ہیں، وہ بھی اس کے زمرے میں آ جائیں۔ کیوں کہ کارخانوں، کھیتوں، فیکٹریوں، کانوں سمیت گھروں میں کام کرنے والے لا تعداد افراد سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ انہیں نسل در نسل غلام بنا دیا جاتا ہے۔ انہیں قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جاتا ہے۔ یہ ایک جواز بنایا جاتا ہے کہ قرضہ نہ اتارنے کی صورت میں قرضہ دار کی اولاد یہاں تک کہ خواتین اور بچے بھی غلام بنا کر رکھے جاتے ہیں۔ جاگیردار، زمیندار، کارخانوں کے مالکان انہیں اپنی ذاتی جاگیر بنا دیتے ہیں۔ انسانوں کو اپنی جائیداد سمجھ لیتے ہیں۔

غلامی کی اور تشریح نہیں کی جا رہی ہے۔ جیسے کہ ریاستیں علاقوں پر فوجی قبضہ جما کر وہاں بسنے والی آبادی کو اپنی غلام بنا دیتی ہیں۔ بھارت اس کی زندہ مثال ہے۔ جس نے مقبوضہ کشمیر پر فوجی قبضہ جمانے کے بعد اس کی آبادی کو غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ واک فری فاؤنڈیشن کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں غلاموں کی تعداد میں اضافہ بھی اس جانب اشارہ ہے کہ یہ ملک انسانوں کی آزادی پر یقین نہیں رکھتا۔ بلکہ معاشی طور کمزور طبقات کے حقوق پامال کرنے کو قانونی تحفظ دیتا ہے۔ بھارتی حکومت غلامی کی سر پرستی کرتی ہے۔

پاکستان میں غلامی ریاست کی سر پرستی میں نہیں ہوتی۔ بلکہ سر کش زمیندار، وڈیرے، با اثر لوگ اس دھندے میں ملوث ہیں۔ جنھوں نے مزارعین کو نسل در نسل غلام بنا رکھا ہے۔ یہی لوگ ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف قانونی کارروائی ضروری بن گئی ہے۔

2014کے مقابلے میں 2016کو دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہواہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ نے سخت قانون منظور کئے ہیں۔ وہاں کسی کو غلام بنانے کی سزا عمر قید ہے۔ امید ہے کہ دیگر ممالک بھی اس بارے میں قانون سازی کریں گے تا کہ انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے میں مدد مل سکے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555523 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More