عالمی شہرت یافتہ نو مسلم خاتون صحافی یونی
ریڈلی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کم از کم پاکستان اور افغانستان سے دلچسپی
رکھنے والوں کے لئے یہ نام اجنبی نہیں ہو گا۔ دی سنڈے ٹائمز، دی انڈیپنڈینٹ،
دی آبزرور، دی مرر، نیوز آف دی ورلڈ جیسے معروف اخبارات میں ان کی تحریریں
شائع ہوتی تھیں۔ ویلز آن سنڈے کی ڈپٹی ایڈیٹر اور سنڈے ایکسپریس کی چیف
رپورٹر کے طور ریڈلی کو افغانستان میں جنگی رپورٹنگ کے لئے روانہ کیا
گیا۔جہاں انہیں قید کر لیا گیا۔طالبان کی زیر حراست کیا ہوا۔ کیسے رہائی
ملی۔ یہ ایک تاریخ ہے۔ دی ہینڈز آف طالبان(طالبان کے ہاتھ) اور ٹکٹ ٹو
پیراڈائز(جنت کا ٹکٹ)نامی کتابیں تصنیف کیں۔ آج انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین
کی یورپ چیپٹر کی صدر ہیں۔ میلان اور جنیوا میں قائم مسلم خواتین کی
تنظیموں کے لئے بھی سرگرم ہیں۔ افغانستان میں جب طالبان نے یرغمال بنایا تو
غیر مسلم تھیں۔ مگر طالبان کے حسن سلوک، قرآن و سنت کی تعلیم، اسلام میں
خواتین کا عزت اور وقار دیکھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اسلام طالبان کے
دباؤ پر نہیں بلکہ رہاہونے پر تین سال کی وسیع ریسرچ کے بعد قبول کیا۔
محترمہ ریڈلی نے قرآن کو خواتین کا میگنا کارٹا قرار دیاہے۔
ملک میں یہ بحث طول پکڑ رہی ہے کہ کیا شوہر بیوی کو سزا دے سکتا ہے یا نہیں۔
یہ بحث اسلامی نظریاتی کونسل کی ان سفارشات سے تیز ہوئی جن میں میاں بیوی
کے حقوق کے بارے وضاحت کی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی طرف سے کوئی
نظریہ پیش کرنے کے بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی تجاویز پیش کرتی ہے۔
یہ ملک میں کسی بھی ایسی قانون سازی کو روکنے اور اس کی دین کے مطابق اصلاح
کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب سے اس نے شوہر کی جانب سے اپنی اہلیہ کو سزا دینے
کو جائز قرار دیا ہے تب سے یہ عورت کی بے راہ روی، کیٹ واک، سرکشی اور
بغاوت کے حامیوں کے نشانے پر ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اسلامی
نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ این جی اوز کی چیخ و پکار
ہو رہی ہے۔
کیا شوہر بیوی کو سزا دے سکتا ہے۔ اس بارے میں یہاں قرآن پاک کی سورۃ
النساء کی آیت 34کا ترجمہ پیش ہے۔
’’مرد عورتوں پر اس وجہ سے حاکم ہیں کہ اﷲ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر
فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔
چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار اور خاوند کی غیر موجودگی میں اﷲ کی حفاظت سے
(مال و آبروکی) نگہبانی کرتی ہیں اور تمہیں جن عورتوں کی سرکشی کا خوف ہو ،
انھیں تم نصیحت کرو اور ان کو خواب گاہوں میں الگ کر دو، اور انھیں ہلکی
سزا دو ، پھر اگر وہ فرمانبرداری کریں تو انھیں ستانے کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے
شک اﷲ بہت بلند اور نہایت بڑا ہے‘‘۔
شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اﷲﷺ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں
کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ سب سے زیادہ نرم خو تھے۔ عام آدمیوں کی طرح
بلا تکلف گھر میں رہنے والے۔ آپ نے کبھی تیور نہیں چڑھائے۔ ہمیشہ مسکراتے
رہتے اور آپﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔
شوہر بیوی کو وعظ ونصیحت کر سکتا ہے۔ پھر بستر کی وقتی اور عارضی علٰحیدگی
ہے۔ اس کے بعد ہلکی سزا ہے جو کسی بھی صورت میں وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو۔
یہ سب اصلاح کے لئے ہے۔ طلاق سب سے آخری اور ناپسندیدہ مرحلہ ہے۔ مرد کی
حاکمیت و قوامیت کیا ہے۔ اس کی وہبی اور کسبی وجوہات ہیں۔ وہبی مردانہ قوت
اور دناغی صلاحیت ہے۔ عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے مرد
کو فضیلت حاصل ہے۔ عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا گیا ہے۔ ریاض
الصالحین میں ہے کہ نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی اپنے ہاتھوں سے کسی عورت یا
ملازم کو نہیں مارا۔ ہاں آپ ﷺ نے اﷲ کے لئے کفار سے جہاد کیا۔ آپﷺ نے اپنی
زات کے لئے کبھی انتقام نہیں لیا۔
خواتین کے حقوق کے ٹھیکداروں نے اب اسلام کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ وہی
اسلام جس نے عورت کی عظمت کا اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ اس کے حقوق کو منوانے
میں بھی کردار ادا کیا۔عورت کو زندہ درگور کرنے کی رسم کو ہی دفن کر دیا۔
عورت کی بلی یا قربانی چڑھانے پر پابندی لگا دی۔ پاکدامن اور پاکیزہ عورت
کی شان میں قصیدے پیش کئے۔ یہ تب کی بات ہے جب عورت زات کے ساتھ اجانوروں
جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے زمانہ جاہلیہ کی ان تمام رسوم
کو مٹا دیا۔
قرآن نے ہی خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا۔ غیر مسلم آج بھی اپنی
بہن بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ آج بھی ان کے
حقوق پامال کر رہے ہیں۔ لیکن اسلام نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے عورت کی وراثت کا
فارمولہ پیش کیا۔ جو مسلمان دین پر چلتے ہیں۔ وہ اس قرآن اور سنت کے
احکامات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ جو قرآن و سنت سے باہر ہو ، اس پر
اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ اس پر آپ چاہیں تو کسی کی تقلید کر لیں ، اگر آپ
باشعور ہیں، دین کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، تو آپ اجتہاد کر سکتے ہیں۔ کیوں
کہ اسلام ایک سائینٹیفک دین ہے۔ جس میں زمانہ کے ساتھ تغیر کی گنجائش ہے ،
اسے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم قرآن یا حدیث میں ایک نکتہ تک کی کمی یا اس
میں ایک نکتہ کا اضافہ نہیں کر سکتے۔
محترمہ ریڈلی جیسی باشعور اور باوقار خاتون آج کے دور میں کم ملیں گی۔
انھوں نے اپنے ہوش و حواس میں ،سوچ سمجھ کر، قرآن اور سنت کو ہی خواتین کے
لئے سب سے زیادہ موزون دین کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے سچ کا اعتراف
کیا ہے۔ آج کی این جی اوز کی پروردہ خواتین سچائی کو قبول کرنے پر تیار
نہیں ۔ کیونکہ کہ جھوٹ کی تشہیرہی سے ان کی کمائی وابستہ ہے۔ ان کا مشن
اسلام کو بدنام کرنا ہے۔ وہ خود بھی گمراہ ہیں، دوسروں کو بھی اندھیرے کے
سفر میں ساتھ چلنے کی تلقین کرتی ہیں۔ جس اسلام میں نو مسلم ریڈلی جیسی
مخلص اور سکالرز، اسلام پر سب کچھ نچھاور کرنے والی خواتین ہوں، اسے بدنام
کرنے کے مشن ناکام ہوں گے۔ |