رمضان کمائی کا مہینہ

مسلمان سیکھنا چاہیں تو غیرمسلم اقوام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اگر نہ سیکھنا چاہیں تو اسلام کی روشن روایات سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ عیسائی مذہب میں کرسمس کا دن مسلمانوں کی عید کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن ہر سال 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔اس دن عیسائی برادری پوری دنیا میں اسی طرح خوش و خرم دکھائی دیتی ہے، جس طرح مسلمان عید کے دن خوش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس مذہبی دن کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔ احترام کی وجہ سے عیسائی مذہب کے پیروکار ممالک امریکا و یورپ میں کرسمس سے دو ہفتے پہلے بچت سیل لگ جاتی ہے اور شہریوں کی مذہبی خوشیوں کے راستے میں آنے والی ہر معاشی دیوار توڑ دی جاتی ہے۔ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہوتا ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شریک کیا جانا چاہیے۔ ان دنوں میں بڑے بڑے اسٹور عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاںنرخوں پر دستیاب کر دی جاتی ہے۔ غریب عوام اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا سال کے مقابلے میں زیادہ خریداری کرتے ہیں۔ بازاروں میں منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خوردونوش مارکیٹوں سے غائب نہیں کی جاتیں، بلکہ نایاب اشیا بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دستیاب کر دی جاتی ہیں۔ یوں امیر اور غریب اپنا یہ مذہبی تہوار بہت خوشی خوشی منالیتے ہیں۔ ہندومت اور بدھ مت مذہب والے ملکوں میںبھی اسی قسم کی مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم کردیے جاتے ہیں۔ یہودی ملک اسرائیل میں بھی تہواروں پر عوام کو سستے داموں اشیا فراہم کر کے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مذہب سے ماورا کیمونسٹ ملکوں میں بھی عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتری مہیا کر دی جاتی ہے۔

یہ غیرمسلم ممالک کی مثالیں ہیں، جہاں اپنے مذہبی تہواروں کا بھرپور احترام کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو بھی ان کے کسی مذہبی تہوار پر بھرپور سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا۔ تین منٹ کا یہ ویڈیو کلپ ایک پاکستانی نے لندن سے پندرہ شعبان کو وٹس اپ پر اپ لوڈ کیا تھا۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ لندن کی سڑکوں پر استقبال رمضان کے لیے بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں ہیں۔ اس کے بعد ویڈیو میں لندن کے ایک بڑے سپر اسٹور کا منظر دکھایا گیا ہے، جہاں جگہ جگہ مختلف کمپنیوں کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد پر استقبالیہ بورڈز لگائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ سپراسٹور کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے استعمال کی اشیا کے لیے مختص کیا گیا ہے، جہاں رمضان المبارک کی آمد سے پندرہ دن پہلے ہی ہر چیز کی قیمت میں تیس سے لے کر پچاس فیصد تک کمی کردی گئی ہے، ویڈیو میں اصل اور کم کی گئی قیمت دیکھی جاسکتی ہے۔ آخر میں ویڈیو بنانے والا پاکستانی کہتا ہے کہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ غیرمسلم اقوام ہماری روایات کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم لوگ خود اپنی روایات کا احترام نہیں کرتے۔

اب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ماہ رمضان خداتعالیٰ کی طرف سے اہم ترین تحفہ ہے۔ یہ ماہ مسلمانوں کے لیے بے شمار رحمتیں لے کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ماہ بابرکت میں مسلمانوں کو خوب برکات سمیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے لیے سہولیات پیدا کرنی چاہیے۔ ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے، لیکن ہماری بدبختی کا عالم یہ ہے کہ ہم لوگ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی خدا تعالیٰ کے ہر قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے تجارت کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آجاتاہے۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اشیائے خوردونوش اسٹور ہونے لگتی ہیں۔ حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ ذخیرہ اندوز رمضان سے قبل ہی اپنے گوداموں کو بھر لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں اشیا کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے ریٹوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ یوں ملک بھر میں سحر اور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چور چور کردیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار اپنے سامنے پڑی خوراک کی گرانی پر کڑھتے ہیں۔ یوں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک نیکیوں کی کمائی کا نہیں، بلکہ دولت کی کمائی کا مہینہ ہے۔ تاجروں کی اکثریت گیارہ مہینے ماہِ رمضان کی آمد کی منتظر اور اس مہینے کے ”فیوض و برکات“ سمیٹنے کے لیے بے چین دکھائی دیتی ہے۔

ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہوش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیرلیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند پروازی دکھانا شروع ہوگئیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئی ہیں۔ ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردی گئی ہیں۔ جبکہ ذخیرہ اندوزوں نے رمضان المبارک کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اشیا کی قیمتوں کو بھی مزید آگے بڑھانے کا منصوبہ تیار کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں حکومت کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ ہمارے لیڈروں کو پرتکلف کھانوں، پروٹوکول، غیرملکی دوروں سے فرصت ہی نہیں ملتی اور یوں ناجائزمنافع خور اور ذخیرہ اندوز موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی جیبوں پر دل کھول کر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ حکومت نہ تو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی عوام کے لیے اتنی سہولیات مہیا کرتی ہے کہ شہری کم از کم اس ماہ بابرکت کو آسانی سے گزار سکیں۔ وفاقی حکومت بڑے فخر سے عوام کے لیے پونے دو ارب روپے رمضان پیکج کی سبسڈی کا اعلان کر کے سمجھتی ہے کہ اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کر دی ہے۔ حالانکہ اٹھارہ بیس کروڑ عوام کے لیے صرف پونے دو ارب روپے کی سبسڈی دینا ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں دوسروں کے لیے سہولیات فراہم کرنا حکومت سے لے کر ایک دکاندار تک ہر فرد کی ذمے داری ہے، لیکن یہاں ہر فرد ہی اپنی جیب بھرنے میں مگن ہے۔ ان حالات میں جب میں غیرمسلم اور مسلمان ملکوں کا تقابل کرتا ہوں تو شرمندگی کے احساس کے ساتھ میرے سامنے مسلمان قوم کی پستی اور غیرمسلم اقوام کی ترقی کا راز بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آج مسلمان خود اپنے اصولوں کو چھوڑ کرذلیل و رسوا ہیں، جبکہ غیرمسلموں نے اسلام کے روشن قوانین پر عمل کیا تو وہ آج ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 734215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.