امریکہ اس وقت افغانستان میں بری
طرح پھنس چکا ہے وہ ہر حربہ آزما چکا ہے لیکن اس ملک کو فتح کرنے کا اس کا
خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور اب تو لگتا ہے خود امریکی بھی اس
سے نا امید ہو چکے ہیں۔ اگر چہ جنرل میک کرسٹل ایک بے باک افسر کے طور پر
مشہور تھا لیکن کسی جنرل سے یہ توقع کرنا کہ وہ کوئی بات بغیر سوچے سمجھے
کرے گا کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں اس نے جو کچھ کہا وہ تو سب ہی جانتے ہیں
اس لیے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں تاہم اس نے ایسا کیوں کہا یہ
ضرور سوچنے کی بات ہے کیا اسے اپنے حکمرانوں سے کوئی مخاصمت تھی یا ان سے
کوئی اختلاف تھا۔ ایسا نظر تو نہیں آتا ورنہ اسے اتنے اہم فرائض سونپے نہ
جاتے۔ اگر اس کا رویہ شروع ہی سے اتنا غیر ذمہ دارانہ تھا تو وہ اتنے بڑے
عہدے پر پہنچنے سے پہلے کب کا فوج سے فارغ کر دیا گیا ہوتا اور عراق کے بعد
اسے افغانستان نہ بھیجا جاتا اور نہ ہی ڈائیریکٹر ملٹری آپریشنز کی ذمہ
داری سونپی جاتی پھر اس نے اس رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا۔
کہیں ایسا تو نہ تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی فتح سے مکمل ناامید ہو چکا
تھا یا وہ جان چکا تھا کہ یہ ایک لاحاصل اور غیر ضروری جنگ ہے یا وہ اس
نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ امریکہ بے بنیاد مفروضوں پر لڑ رہا ہے اور یا یہ
کہ جتنے ڈالر وہ تقسیم کر سکتا تھا وہ بھی کر چکا لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ
کسی سچے افغانی کی وفاداری نہیں آئی۔ خدا بہتر جانتا ہے جو ہوا کیوں ہوا
لیکن ایک اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندرونِ خانہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ امریکی
فوج جان چکی ہے کہ امریکی حکومت اسے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا رہی ہے اور
اپنے ظلم و زیادتی کی بھٹّی کو ان کے جسم جھونک کر دہکا رہی ہے۔ بڑے لیول
کا تو یہ پہلا جھٹکا تھا جو امریکہ کو لگا اور پوری دنیا میں محسوس کیا گیا
اور جو After Shocks آئیں گے وہ بھی اپنی جگہ اہم ہونگے۔ لیکن ایسا ہرگز
نہیں ہے کہ یہ امریکی فوج کے ذہنی تناؤ کا پہلا اظہار تھا یہ تو ایک جنرل
تھا جو دباؤ بھی زیادہ برداشت کر سکتا تھا کیونکہ زیادہ بہتر حالات میں رہ
رہا تھا۔ لیکن وہ سپاہی جو ہر وقت گوریلا افغان جنگجوؤں کی گولیوں کی زد
میں ہوتے ہیں اپنے گھر سے ہی نہیں بلکہ اپنے ملک سے گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں
اور ہفتوں کے فاصلے پر ہیں جہاں راہ چلتا ہوا کوئی شخص ان کے لیے کسی محبت
کا اظہار کرتا ہے نہ ان کی زبان سمجھتا ہے وہ جس ذہنی عذاب سے گزرتے ہیں وہ
تب سامنے آتا ہے جب وہ خود زندگی کا قلع قمع کر دیتے ہیں۔ امریکی فوج میں
خاص کر جو عراق میں اور اب افغانستان میں ڈیوٹی پر تعینات ہے میں خود کشی
کا تناسب ان کے نفسیاتی تناؤ کا غماز ہے۔ صرف مئی 2010 میں دس خود کشی کے
واقعات سامنے آئے اس سے پہلے مارچ میں ایسے تیرہ واقعات ہوئے جب کہ نو
واقعات امریکی ریزرو فوج میں ہوئے اپریل میں ریزرو فوج میں پانچ ایسے
واقعات ہوئے اور خود ایک امریکی تجزیے کے مطابق یہ ریزرو فوج دوہرے عذاب سے
گزرتی ہے ایک تو یہ کہ کب انہیں اس محاذ پر بھیج دیا جائے جہاں سے زندہ
واپس آنا آسان نہیں اور دوسرے انہیں معاشی دباؤ سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
افغانستان کی جنگ جدید امریکہ کی طویل ترین جنگ کا اعزاز حاصل کر چکی ہے
سات اکتوبر 2001 کو شروع ہونے والی یہ جنگ 105 ماہ کی عمر کو پہنچنے والی
ہے جبکہ ویتنام کی جنگ 103 ماہ پر محیط تھی افغان جنگ میں اب تک 1053
امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں خواتین فوجی اپنے آپ کو انتہائی غیر محفوظ
تصور کر رہی ہیں 2009 میں اکتالیس خواتین فوجیوں کی غیر طبعی اموات ہوئیں۔
کیسے؟ اسکی وجوہات مختلف تھیں جس میں جنسی زیادتی سے لے کر خودکشی تک شامل
تھیں۔
افغانستان کی جنگ پر امریکہ ستر ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ خرچ کر رہا ہے
یہی وجہ ہے کہ امریکی معاشرے میں ان جنگوں کے لیے موافقت کم ہو رہی ہے کیوں
کہ یہ معاشرہ اپنے دیگر مسائل سے ہی پریشان ہے جن میں معاشی مسائل سرفہرست
ہیں بظاہر اس خوشحال معاشرے میں بھی نچلے متوسط طبقے کو یہ شکایت ہے کہ
فلاحی ادارے بھی انہیں نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی ضروریات بڑی
مشکل سے پوری کرتے ہیں اس سے اس طبقے میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ تو
خیر ایک نکتہ معترضہ تھا۔ بات ہورہی تھی افغان جنگ کی کہ امریکہ اس میں کس
حد تک کامیاب رہا یا اس کی کامیابی کی کتنی امید ہے جب کہ وہ اس کے لیے
ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے فتح کی کوشش میں اس نے افغانوں پر ڈالروں کی
بارش کی ہوئی ہے لیکن یہاں بھی قسمت اور کامیابی اس کا ساتھ نہیں دے رہی
کیونکہ یا تو ڈالر لینے والے طالبان کے عتاب کا نشانہ بن جاتے ہیں اور
دوسروں کے لیے عبرت یا وہ پیسہ بھی طالبان کے حوالے کردیتے ہیں جبکہ اکثر
پختون اسے لینے سے ہی انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ایک غاصب فوج کے ہاتھ سے
زندگی کی اشد ضروریات کے لیے بھی پیسہ لینا بے غیرتی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ
اس افغانستان کے باشندے ہیں جو دنیا کا پانچواں غریب ترین ملک ہے یوں یہ
امریکی چال بھی ناکام ہو رہی ہے۔ افغانوں کی اس سر زمین پر سکندر اعظم جیسا
فاتح نہ جم سکا بلکہ ماضی بعید میں جانے کی کیا ضرورت ہے ابھی ماضی قریب کی
بات ہے جب سویت یونین اپنا وجود ان ہی کے آگے کھو بیٹھا تھا۔ امریکی بھی اس
ملک کو فتح کرنے کی نو سالہ کوشش کے بعد بھی ناکام ہیں جسکے لیے وہ تمام
جتن کر چکے ہیں۔ وہی امریکہ جو دنیا کو انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی
کا سبق پڑھاتا ہے خود اس کے اپنے فوجی افغان جنگی قیدیوں کو جیلوں میں قتل
کر کے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیںAsian Tribuneکی سات
اپریل کی رپورٹ کے مطابق پھر جعلی مقابلوں میں ہلاکت کی خبر لگا دی جاتی ہے۔
بگرام کے عقوبت خانوں سے لیکر گواتناموبے کے مظالم بھی امریکہ کو یہ جنگ تا
حال نہ جتوا سکے اب دیکھیں نئے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ان تمام مظالم کو کہاں تک
پہنچا کر اپنے من پسند نتائج حاصل کرتے ہیں۔
دراصل امریکہ کے لیے اب بہتر یہی ہے کہ وہ اس جنگ سے جان چھڑا لے یہ اور
بات ہے کہ اب یہ کمبل بھی آسانی سے چھوڑنے والا نہیں کیا اب بے شمار عراقی
اور افغانی اپنی قومی تاریخ کے اس سب سے بڑے مجرم کو معاف کرنے پر تیار ہو
جائیں گے کیونکہ جس طرح ٹوئن ٹاور کے پانچ ہزار امریکیوں کی جانیں قیمتی
تھیں اسی طرح ان عراقی اور افغانی لوگوں کی جانیں بھی قیمتی ہیں۔
اب اگر امریکی واقعی اپنی باعزت واپسی چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس
عمل کو جتنا جلدی ہو سکے شروع کر دیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر جتنی
دہشتگردی وہ کر چکے تاریخ میں بدنامی کے لیے یہی کافی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا
کہ امریکہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا وہ اپنی غلطیاں دوہرائے جارہا ہے ورنہ
ویتنام کے بعد وہ کوئی مہم جوئی نہ کرتا اور افغانستان کو تو وہ خود سویت
یونین کو توڑنے کے لیے استعمال کر چکا تھا اسے تاریخ کی خبر ضرور ہونی
چاہیے تھی اسکی ہزار سیکیورٹی اور حکومت پاکستان کی تمام تر مدد کے باوجود
اس کے ٹینکرز اور ٹرک کیسے جلا دیئے جاتے ہیں کیا طالبان اور افغان اس سے
زیادہ اچھے منصوبہ ساز نہیں؟
جنرل میک کرسٹل کی برطرفی کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئی ہمارے ملک میں
بھی اس پر اوبامہ پر داد تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے کہ ایک جنرل کو برطرف
کر دیا گیا اپنی سیاسی حکومت میں بھی ویسی ہی ہمت پیدا کرنے کی بات کی گئی
بجائے اس کے کہ اس واقعے کو قومی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا اسے اپنے
سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اس طرح کی عاقبت نااندیشی
اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد سے بالا تر سمجھنا دراصل ہمارا المیہ ہے۔
حالانکہ بات دراصل یہ تھی کہ امریکی حکومت دوسرے براعظم پر بیٹھ کر وہ کچھ
محسوس نہیں کر سکتی تھی جو جنرل میک کرسٹل دیکھ اور سمجھ رہا تھا ہتھیار
ڈالنے سے بہتر اس نے یہی سمجھا کہ وہ اس فوج کو چھوڑ دے جس کی خدمت اس نے
اور اس سے پہلے اس کے والد میجر جنرل ہر برٹ جے میک کرسٹل نے کی تھی۔ |