مظلوم پرائیویٹ ملازمین قسط1
(Mohammad Owais Sherazi, Lahore)
کئی بجٹ آئے اور اب پھر بجٹ آ چکا۔ حکومتی
پارٹی کے سیاستدان،اپوزیشن کے سیاستدان،میڈیا کے لوگ سب مختلف انداز میں
اظہار خیال کرچکے اور کرتے رھیں گے۔
باتیں ھوتی رھیں گی،لیکن بجٹ میں اور بجٹ سے متعلقہ بحثوں اور تحریروں میں
پرائیویٹ ملازمین کا نام آپ کو بالکل نظر نہیں آئے گا۔ گورنمنٹ ملازمین کی
تنخواھوں،پنشن میں جتنا اضافہ ھوا ھے وہ انھیں مل بھی جائے گا۔ لیکن
پرائیویٹ ملازمین کے حقوق کا تو کوئی ذکر ھی نہیں۔ اگر پرائیویٹ ملازمین کا
ذکر کریں تو کچھ سوال پیدا ھوتے ھیں۔ گورنمنٹ ملازمین اور پرائیویٹ ملازمین
کی تنخواھوں کا موازنہ کیا جائے تو اکثریت پرائیویٹ ملازمین کی تنخواھیں
بہت زیادہ کم کیوں ھیں؟ ان کی اور گورنمنٹ ملازمین کی ڈیوٹی کے اوقات یکساں
کیوں نہیں ھیں؟ گورنمنٹ ملازمین کو کمی بیشی کے ساتھ میڈیکل کی سہولت اکثر
میسر ھے،لیکن اکا دکا پرائیویٹ اداروں کے پرائیویٹ ملازمین کے علاوہ باقیوں
کو میڈیکل کی مد میں کیا ملتا ھے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ملتا؟ لیبر
حقوق سے متعلقہ ادارے کسی مرض کی دوا ھیں؟ سب پرائیویٹ ملازمین کیلئے پنشن
کے قانون پر عمل کیوں نہیں ھوتا؟ چند پرائیویٹ ملازمین کے علاوہ سوشل
سیکورٹی ، اولڈ ایج بینیفٹ کے محکمے والے، پرائیویٹ ملازمین کی اکثریت کے،
ھر معاملے میں آنکھیں بند کیوں کئے ھوئے ھیں؟ کیا انھیں آنکھیں بند رکھنے
کی تنخواھیں دی جاتی ھیں،اتنے بڑے بڑے دفاتر میں بیٹھ کر یہ آخر کیا کام
کرتےھیں؟ بجٹ میں 14000 روپے کم از کم تنخواہ کا اعلان کر کے عوام کا مزاق
کیوں کیا اڑایا گیا؟ کیا 14000 روپے میں پارلیمنٹ کا کوئی ممبر اپنا گھر
چلا کر دکھا سکتا ھے؟ اور اگر اعلان کر ھی دیا گیا ھے تو کیا آج کے بعد
پاکستانیوں کا کم از کم تنخواہ 14000 روپے ملنا شروع ھو جائے گی؟
کوئی ھے جو اس بات پر روشنی ڈال دے کہ اکثرفیکٹریوں کے اندر گھسنے والے
ورکر صبح آٹھ بجے گھستے ھیں تو رات کو آٹھ بجے ھی کیوں فیکٹری کے گیٹ سے
باھر نکلتے ھیں، اس کے باوجود ان کو کتنی تنخواہ ملتی ھے؟ سب کے سوشل
سیکورٹی کارڈ،اولڈ ایج بینیفٹ کارڈ کیوں نہیں بنتے؟
ھمارے معاشرے میں گنتی کے چند اچھے ادارے ایسے بھی ھیں جہاں ورکر کی عزت
ھے،اگر ورکر خوش نہیں تو دکھی بھی نہیں ھے۔ لیکن ان چند ادروں کے علاوہ
باقی اداروں پرائیویٹ ملازمین کے ساتھ مختلف طریقے سے حق تلفی کا رواج ایک
فرض کی طرح ادا کیا جاتا ھے۔ ان اداروں میں ایک دو بڑے عہدوں پر جو کرتا
دھرتا جرنل مینیجر ٹائپ بندے رکھے جاتے ھیں، ان کو بھاری بھرکم
تنخواھوں،منہ مانگی گاڑی اور دوسری سہولتوں سے نوازا جاتا ھے اور ان کا اصل
کام یہ ھوتا ھے کہ چند بندوں کو تھوڑی مناسب تنخواہ دے کر باقی تمام خلقت
کو ھر ممکن طریقے سے، دبائو کی پالیسی کے تحت، انتہائی کم تنخواہ پر قابو
رکھنا، کام کروانا اور اس بات کا خاص اھتمام رکھنا کہ اگر ان میں سے کوئی
قانون کے مطابق پوری تنخواہ کی آواز اٹھائے،سوشل سیکورٹی یا اولڈ ایج
بینیفٹ کارڈ کی آواز اٹھائے،ورکروں کے حقوق کا مطالبہ کرے تو اس آواز کو اس
طرح سے کچل دیا جائے کہ کوئی دوبارہ ایسی جرات کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
متعلقہ محکموں کے رشوت خور آفیسروں کو ان کی فیس یعنی رشوت بڑی ایمانداری
سے بھجوانا ان کی اولین ذمہ داری ھوتی ھے۔ ٹیکس سے متعلقہ لوگ ان کی خود
راھنمائی کرتے ھیں اور یہ لوگ کاغزات کی ھیرا پھیری سے اپنے ادارے کی آمدنی
پر جائزٹیکس صاف بچا کر لے جاتے ھیں۔ آپ ان سے لمبی ڈیوٹی کے اوقات کے بارے
میں پوچھیں گے تو یہ کہیں گے کہ جناب ھم اوور ٹائم دیتے ھیں، آپ کو غلط
بیانی کا شاھکار ریکارڈ بھی دکھا دیں گے ۔ مثلا ھو سکتا ھے کہ آپ کو ریکارڈ
دکھایا جائے 100 بندوں کا اور اگر آپ اس کی تفصیل میں جائیں تو پتہ چلے گا
کہ لکھا کچھ اور دیا کچھ اور جاتا ھے۔ اور یہ بھی کہ آپ کو 100 ورکرز کا
ریکارڈ دکھا کر مطمئن کر دیا جائے گا لیکن اصل ورکروں کی تعداد 1000 یا
1500 ھو سکتی ھے،اور 100 کے علاوہ باقی ورکرز کے ساتھ کمپنی کا سلوک بتانے
کے قابل نہیں ھوتا اسلئے اس کو چھپا لیا جاتا ھے۔ 1500 ورکروں والی فیکٹری
سے متعلقہ سرکاری محکموں کے ریکارڈ میں بھی آپ کو ورکرز کی تعداد بہت تھوڑی
ھی ملے گی۔ کاغزات کو بڑی ایمانداری کے ساتھ بےایمانی کر کےھمیشہ تیار رکھا
جاتا ھے، فیکٹریوں میں بھی، متعلقہ محکموں میں بھی اور اس کا خرچہ یعنی
رشوت فیکٹریوں والوں کے ھی ذمہ ھوتی ھے۔ بعض اداروں نے ٹیکس بچانے کیلئے
سوشل ورک کے نام پر ڈسپنسریاں یا ادارے بنا رکھے ھیں۔ رشوت خور افسروں کی
راھنمائی سے بننے والے کاغزات میں سب بہتر اور اچھا جو گورکھ دھندا دکھا کر
ٹیکس بچا لیا جاتا ھے۔ اس تمام پروسیس کا نتیجہ ورکروں کے حق میں بہت برا
نکلتا ھے۔ |
|