رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان بھر
میں رمضان بازار کا افتتاح کردیاجاتاہے۔ رمضان بازار ویسے تو حکومت کی طرف
سے ایک اچھا اقدام ہوتا ہے اور یہ ہرسال لگایا جاتا ہے مگر افسوس اس بات کا
ہے اس رمضان بازار کو بھی سیاست کی نظر کیا جاتا ہے۔ٹاؤن کمیٹی کے کرتا
دھرتاؤں کو عوام کو لوٹنے کا ایک اور موقع دے دیا جاتا ہے۔ ٹاؤن کمیٹیوں
میں ویسے بھی زیادہ ترسیاسی بنیادوں پر بھرتی کی گئی ہوتی ہے اس لیے ان کو
پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتااور اگر کوئی پوچھ لے تو پھر پیچھے ایم این
اے یا ایم پی اے کا ہاتھ ہوتا جس کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔
اس سال رمضان بازار لگائے ابھی ایک دن نہیں گزارا تھا کہ ہرطرف سے رمضان
بازار میں لوٹ مار ، دو نمبر اشیاء کی فروخت کا شور برپا ہونے لگا۔ شاباش
حکومت پاکستان کے جس نے ان آوازوں پر کان تک نہ دھرے بلکہ یہ ثابت کردیا کہ
حکومت کو عوام سے نے اپنی بلے بلے کرانے سے مطلب ہے۔ خواہ عوام اس بابرکت
ماہ میں ان گالیاں دیکر اپنا روزہ خراب کرے مگر ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ذراخو دجا کر دیکھئے رمضان بازاروں میں کیسے اندھیر نگری اور چوپٹ راج قائم
ہے۔کسی بھی اشیا ء کی کوالٹی بہتر نہیں۔مقامی انتظامیہ اور حکومت ارکان صرف
رمضان بازاروں کے چکرلگانے اور پٹرول ذائع کرکے اپنا ٹی اے ڈی اے بنانے کے
سوا کچھ نہیں کرتے۔ ان تمام چیزوں پر بے جا حکومتی اخراجات کا عوام کوکوئی
فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے اگر فائدہ ہوتا ہے تو پھر انتظامیہ کو ہوتا ہے جو
معیاری چیزیں ان دکانداروں سے اپنے گھر پہلے ہی شفٹ کرادیتے ہیں ۔
اگر ہم حکومتی اقدامات کو دیکھیں تو اس میں عوام کا سرمایہ ضائع کرنے اور
اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ عوام کو کوئی سہولت میسر نہیں۔ رمضان بازار کے
نام پر میڈیا کے ساتھ ساتھ شہرمیں لاکھوں کی ایڈورٹائز کرادی جاتی ہے۔ جس
کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔رمضان بازار کے لیے جو ایک مہینے کیلئے ٹینٹ وغیرہ
کرائے پر لئے جاتے ہیں اگر ان کا کرایہ ایک ماہ کا دیکھا جائے توایسے ٹینٹ
آدھی قیمت میں کتنے نئے آسکتے ہیں۔میرا مشورہ تو حکومت کو یہ ہی ہے کہ ٹینٹ
کرایہ پرلینے کی بجائے ٹینٹ خرید لیں تاکہ مشکل وقت میں سیلاب، زلزلہ زدگاہ
اور قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال میں آسکیں مگر
بات پھر وہی آکر ختم جاتی ہے کہ اگر حکومت عوام کی ترقی کیلئے سوچے گی تو
محکمے کہاں سے کھائیں گے؟
رمضان بازار کے بارے میں میڈیا پر سب اچھا کی خبر پیش کردی جاتی ہے مگر یہ
نہیں دیکھتے کہ کیا ایسی اشیاء پورا ہفتہ ایسی فروخت ہوتی ہیں یا جب اس
بازار کاکوئی بڑا بندہ دورہ کرتا ہے اس دن اچھی فروخت ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ
ہے کہ جس دن ڈی سی او، ڈی پی او ، ایم این اے، ایم پی اے یا وزراء رمضان
بازار کا دورہ کرتے ہیں تو اسی دن معیاری اشیاء بازار میں لائی جاتی ہیں
ورنہ باقی دنوں میں تو یہ گھٹیا اور دو نمبر اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ان اشیا
ء کی فروخت میں مقامی انتظامیہ کا مکمل ہاتھ ہوتا ہے۔ویسے بھی جب بازار کا
کوئی سرکاری بندہ دورہ کرتا ہے تو مقامی انتظامیہ کو ایڈوانس میں خبر کی
جاتی ہے تاکہ پروٹوکول مل سکے۔یہی وجہ ہے کہ پھر مقامی انتظامیہ سب اچھا
دکھا یعنی آنے والے کو ماموں بنانے کا پورا بندوبست کر لیا جاتا ہے۔ وہی
پولیس والے جو رمضان بازار میں عوام کو دھکے دے رہے ہوتے ہیں اس دن بڑے ادب
سے عوام سے پیش آرہے ہوتے ہیں۔ وہ دکاندار جو گاہک کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے
ہیں وہ اس دن بڑے ادب سے گاہک کو سامان پیش کررہے ہوتے ہیں۔
بہت سے بازاروں میں تو مقامی انتظامیہ نے اپنے رشتے داروں کو دکاندار بنا
پیش کیا ہوتاہے تاکہ ان کے ساتھاساتھ ان کے رشتے دار بھی عوام کو لوٹ
سکیں۔لوٹ مار ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ لوٹ مار کاایک طریقہ یہ بھی ہے ۔
اکثر رمضان بازاروں میں دیکھا گیا ہے کہ جرنیٹر پورے مہینہ کیلئے کرایہ پر
لیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس میں پٹرول ڈالنے کی کاغذی کارروائی
کی جاتی ہے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جرنیٹر رمضان بازاروں میں لایا جاتا
ہے لیکن ایک گھنٹہ بھی نہیں چلایا جاتا اور جرنیٹر کا پٹرول یا توسرکاری
آفسران کی ذاتی گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے یا پھر کاغذ کا پیٹ بھر کر
قائداعظم کو اپنی جیبوں میں رکھ لیا جاتا ہے۔
اگر کوئی میری ان باتوں سے متفق نہیں تو آئے کسی دن بغیر اطلاع دیے میرے
ساتھ رمضان بازار کو دورہ کریں سب کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
حکومت سے ہم امید ہی رکھ سکتے ہیں کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے ۔رمضان
بازار کو عوامی بازار بنانے کے لیے سنجیدہ انتظامات کرے ناکہ عوام کو لوٹا
جائے۔ ہماراملک واحد ملک ہے جہاں رمضان کے ماہ میں ہرطرف لوٹ مارکی جاتی ہے
جبکہ غیر مسلم بھی مسلمانوں کو ان دنوں میں ہرطرح کا ریلیف دیتے ہیں۔ سوچئے
اور دیکھئے کہ ہماری ایسی حرکتوں سے ہم مسلمان کتنے بدنام ہورہے ہیں؟ |