پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور بچوں کا مستقبل

 بِلا شک و شبہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار تعلیم پر ہو تا ہے اور معیاری تعلیم کے حصول کے لئے معیاری تعلیمی درسگا ہوں کی ضرورت ہو تی ہے۔ وطنِ عزیز کو معرضِ وجود میں آئے ہو ئے 67سال ہو گئے ہیں مگر ترقی کے دوڑ میں اب بھی بہت سے ممالک سے پیچھے ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔سر کاری تعلیمی ادارے عدم تو جہی کا شکار رہے ہیں ، جس کی وجہ سے ملک میں بے شمار نجی تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں اور اب تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔گلی محلوں میں ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی قائم ہو چکے جن کی حیثیت کسی بھی کاروباری ادارے سے کم نہیں ۔مجھے پو را یقین ہے ، اگر ان نجی تعلیمی اداروں پر کوئی روک ٹوک اور نگرانی کا عمل شروع نہ کیا گیا تو تعلیمی شعبہ مزید گراوٹ کا شکار ہو گا اور ملکی ترقی کا خواب شر مندہ تعبیر نہ ہو سکے گا ۔

کچھ ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کا تعلیمی معیا ر نہایت اچھا ہے اور وہ تعلیمی شعبہ میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دے ہیں مگر ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد نہ صرف یہ کہ کم ہے بلکہ ان کی فیسوں کی شرح اتنی زیادہ ہے جس میں غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔پشاور کی مثال لیجئے جہاں گنتی کے چند معیاری تعلیمی ادارے مو جود ہیں مگر انکی فیسیں نرسری کلاس سے ڈھائی ہزار سے کم نہیں ۔مگراکثریت ایسے نجی اسکولوں کی ہے جو صرف پیسے بٹورنے کی خاطر قائم ہیں ۔آپ پشار سے کسی بھی سمت سفر کیجئے ایسے تعلیمی اداروں کے نام جلی حروف میں آپ کو نظر آئینگے بلکہ پشاور ہی میں جہاں کہیں خالی دیوار ہے وہاں آپ کو کسی پرا ئیویٹ تعلیمی ادارے کا نام لکھا ہو ا نظر آئے گا، داخلوں کے موسم میں اخبارات بھی ان اداروں کے اشتہارات سے بھرے نظر آتے ہیں-

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تعلیم کی منڈی لگی ہو ئی ہے اور ہر کوئی اپنا مال فروخت کرنے کے لئے ’’ داخلے جاری ہیں ‘‘ کی آوازیں لگا رہا ہے۔

ایسے تجارتی ماحول میں ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے سے پہلے بعض باتوں کی یقین دہانی کر لے تا کہ ان کے بچوں کا مستقبل محفو ظ رہے۔

مجھے بہت سارے پرا ئیویٹ تعلیمی اداروں کو قریب سے دیکھنے کا مو قعہ مِلا ہے اور یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ بیشتر نجی تعلیمی اداروں کے مالکان قوم کے نو نہالوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ان کامقصد محض پیسہ بٹورنا ہو تا ہے ۔ان کے ہاں جب کو ئی داخلہ لینے یا معلوموت لینے جاتا ہے تو ایک اچھے سیلز مین کی طرح گاہک کہ اپنا مال فروخت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ، ایسے اداروں کی شرحِ فیس بھی ایک جیسی نہیں ہو ی بلکہ بچے کی والدین کی مالی حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر ان سے مک مکا کیا جا تا ہے مگر کو شش یہی ہو تی ہے کہ شکار بھا گنے نہ پا ئے۔والدین بے چارے ان کے فر نیشنڈدفاتر اور چکنی چپڑی باتوں سے متا ئثر ہو کر بچے کو داخل کروا لیتے ہیں ۔

لیکن بہت جلد کفِ افسوس مَلنا شروع کر دیتے ہیں کیو نکہ اس تعلیمی ادارے کی جانب سے انرولمنٹ فیس، ڈائری فیس، سالانہ فیس، لائیبریری فیس،لیبارٹری فیس، امتحانی فیس ،رجسٹریشن فیس ، کمپیو ٹر فیس، غیر حاضری کا جرمانہ، لیٹ آنے کا جر مانہ علیٰ ہذا لقیاس پیسہ بٹورنے کے بہت سارے حربوں کا پتہ چل جاتا ہے ۔مگر اس وقت پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

ہمارے ہاں بہت سارے تعلیمی ادارے رہا ئشی عمارتوں، کرایہ پر لئے ہو ئے گھروں میں قائم ہیں جس میں پرنسپل یا استقبالیہ دفتر سجا کر بنایاجاتا ہے تاکہ داخلہ کے لئے آنے والے والدین پر ادارے کے دبدبہ اور رعب کا اثر ہو، ورنہ کو ئی بھی کلاس روم Typical نہیں ہو تا بلکہ ایسے اداروں کے کلاس رومز ،بیڈ رومز، کیچن، گیراج اور بر آمدوں پر مشتمل ہو تے ہیں ، ایسے اداروں میں پڑھانے والے اسا تذہ کرام نہایت ہی قابلِ رحم ہو تے ہیں۔ان کی ڈگریاں اور پھر ان کی مجبو ریاں دیکھ کر رونے کو دل چاہتا ہے کیو نکہ ایسے نجی تعلیمی اداروں کے ما لکان کو بے روز گاروں کی حالت کا خوب اندازہ ہو تا ہے اور وہ ان کی مجبو ریوں کا فائدہ اٹھاتے ہو ئے نہایت قلیل تنخواہ دیتے ہیں ۔جہاں ان کو کم از کم چھ سات پیریڈ روزانہ پڑھانا ہو تا ہے۔پڑھے لکھے ایسے افراد ان تعلیمی اداروں کی حالتِ زار دیکھ کر کفِ افسوس ضرور مَلتے ہیں۔ مگر زبان سے ایک لفظ بھی ادارے کے خلاف نہیں بول سکتے کیونکہ تنقید کا ایک جملہ ان کی ملازمت ختم کرنے کے لئے کافی ہو تا ہے۔ ایسے تعلیمی ادارے نرسری تا ہشتم کلاس یعنی ہوم ایگزام کے نتائج بہت شاندار بناتے ہیں اور اکثر والدین اپنے بچوں کے ریزلٹ کارڈ ز دیکھ کر بہت خوش ہو تے ہیں۔ ایسے ادارے عمو ما بورڈ امتحان کے لئے من پسند امتحانی عملہ مقرر کر نے کی سعی کرتے ہیں تاکہ بورڈ ریزلٹ کو بھی کسی طرح بہتر بنایا جا سکے، ایسے تعلیمی اداروں کی سائنس لیبا رٹریاں شیشہ لگے چند الماریوں پر مشتمل ہو تی ہیں تاکہ طلباء کے آنکھوں میں بھی دھول جھونکا جا سکے۔

اگر چہ یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ایسے تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کر دے یا ان کو اپنی حا لتِ زار ٹھیک کرنے اور معیاری تعلیم دینے پر مجبور کر دے مگر افسوس کہ ذمہّ دار ار اربابِ حکومت کاغذی ہدایات کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے،وہ دفتروں سے نکل کر ایسے اداروں کے کلاس رومز، لیبا رٹریاں، لائبریری، امتحانی ہال، اساتذہ کرام کی کوالیفیکشن اور تنخواہ وغیرہ بالکل نہیں دیکھتے ورنہ ان کے رولز ریگولیشن میں سب کچھ مو جود ہے ۔بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکندری ایجوکیشن پشاور کے تدوین شدہ رولز ریگولیشن کے کیلنڈر میں بہت خو بصورت قواعد و ضوابظ تعلیمی اداروں کے لئے مو جود ہیں مگر افسوس کہ ان ہدایات کا چوتھائی حصہ بھی عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتا۔لہذا ایسے حالات میں والدین سے گزارش کروں گا کہ وہ جب بھی اپنے بچوں کو کسی سکول یا کالج میں داخلہ لینے جائیں تو وہ
احتیاط کریں اور چند باتوں کو ضرور مدِ نظر رکھیں ۔اول یہ کہ یہ تعلیمی ادارہ کسی رہائشی بلڈنگ میں تو نہیں، اگر ہے تو ان کے کلاس رومز ضرور دیکھ لیں، دوم اس ادارے کے اساتذہ کرام کے تنخواہوں سے متعلق معلومات حاصل کر لیں کیو نکہ سرکاری سکول کے چوکیدار سے کم تنخواہ لینے والا ٹیچر کبھی اچھا ٹیچر ثابت نہیں ہو سکتا اور جہاں ٹیچرز اچھے نہ ہوں وہاں معیارِ تعلیم کبھی اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔تیسری بات یہ کہ اس ادارے کا بورڈ ریزلٹ بھی دیکھ لیں اور چوتھی بات یہ بھہ اس ادارے میں زیرِ تعلیم طلباء سے معلوم کر لیں کہ پچھلے سیشن میں ان کے کتنے اساتذہ تبدیل ہو ئے ؟ الغرض مکمل تسلی کے بعد اپنے بچوں کو کسی پرئیویٹ ادارے میں داخل کرائیں ،یہ آپ کا ھق بھی ہے اور فرض بھی کیو نکہ آپ کے بچوں کے مستقبل کا دار و مدار بہترین تعلیمی درسگاہ، تعلیمی ماحول اور بہترین اسا تذہ کرام کی تربیت ہی میں
پو شیدہ ہے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315693 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More