جامعات بمقابلہ پرائمری سکول!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اس چوک پر بنائی گئی نئی یاد گار بہت دنوں
سے پردے میں تھی، پردہ ہٹے گا تو کیا منظر سامنے ہوگا، آنے جانے والے اس کے
منتظر تھے، گزشتہ دنوں آخر کار پردہ ہٹا دیا گیا۔ پردہ ہٹا تو لوگوں نے
عجیب منظر دیکھا، سٹیل کی بنی ہوئی ایک بہت وزنی بے ترتیب سی کوئی چیز
ایستادہ ہے، مگر جب اس کو ایک خاص زاویے سے دیکھا جائے تو آرٹ کا یہ نمونہ
دل میں اتر جاتا ہے، یہ ایک بڑے سائز کی نِب ہے، جس کے ساتھ کتاب کا تصور
بھی ابھرتا ہے ۔ اس کے افتتاح کی اہم تقریب کے لئے وفاقی وزیرمملکت برائے
تعلیم میاں بلیغ الرحمن، اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر
مشتاق، کمشنر بہاول پورثاقب ظفر ، آرپی او ڈاکٹر احسان صادق اور بہت سے لوگ
موجود تھے۔ اس چوک سے چھوٹی بڑی پانچ سڑکیں نکلتی ہیں، چوک کے اوپر ہی
اسلامیہ یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس ہے، اسی حوالے سے یہ چوک ’’یونیورسٹی چوک‘‘
کہلاتا ہے، اسی چوک پر ڈویژن بھر کا سب سے بڑا کالج ،’ایس ای کالج ‘ ہے۔
تقریباً نصف کلومیٹر پر خواتین یونیورسٹی ہے، تقریباً اتنے ہی فاصلے پر
لڑکیوں کے دو ہائی سکول ہیں، خواتین کا ایک ٹیکنیکل ادارہ اور لڑکوں کے دو
ہائی سکول بھی اس چوک سے تقریباً ایک کلومیٹر کے اندر موجود ہیں۔ گویا اس
چوک کو ہر لحاظ سے تعلیمی اداروں سے منسلک چوک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی
مناسبت سے اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس چوک کو یاد گار بنانے کے
لئے اقدام کا فیصلہ کیا، اس سے قبل چوک پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کبھی
فوارہ لگا دیا جاتا، جو کہ کچھ عرصہ چلنے کے بعد محض ایک رکاوٹ کا کام دیتا
کہ جس کے ارد گرد ٹریفک کو اپنی اپنی سڑک کا راستہ مل سکے۔ یونیورسٹی کے
کالج آف آرٹ نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور نہایت محنت سے ایک یاد گار قائم
کردی، اس کے لئے مشاورت، محنت، تکنیک اور سرمایہ سمیت جو کام یونیورسٹی کے
اساتذہ اور طلبا نے کیا وہ قابلِ تحسین ہے ۔ گویا قلم اور کتاب کی یہ یاد
گار اسی چوک کے لائق تھی ۔
اس موقع پر منعقد کی جانے والی تقریب میں وفاقی وزیر مملکت نے اپنے خطاب
میں بڑی ہی دلجمعی کے ساتھ جامعات کی بات کی ، انہوں نے پہلے تو اس یاد گار
کے تصور کو سراہا، اور اسے عالمی سطح کی یاد گار قرار دیا، اس تصور پر کام
کرنے والوں کو خصوصی شاباش دی۔ پھر یونیورسٹیوں کے ماحول کی یوں منظر کشی
کی کہ ایک خوبصورت تصور آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ’’عالیشان عمارت ہو،
دورویہ سڑکیں ہوں، سڑکوں کے کناروں پر درخت ہوں، درختوں کے نیچے بنچ رکھے
ہوں، اطراف میں جھیل ہو، لائبریریاں ہوں او رقلم کتاب کا رشتہ جڑا رہے․․․‘‘۔
انہوں نے یہ ’خوشخبری‘ بھی سنائی کہ پاکستان کی جامعات عالمی معیار پر بس
پورا اترنے کو ہی ہیں۔ وزیر موصوف کے خطاب کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ
انہوں نے اس موقع پر اپنے سیاسی قائدین کا ذکر نہیں کیا، صرف تعلیمی اور
ادارے کی بات کی، ورنہ یہ لوگ تو کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو میاں
برادران کے ذکر کے بغیر ان کی بات پوری نہیں ہوتی۔
جامعات کی نقشہ کشی کا حسین تصور لے کر جب میں تقریب کے بعد واپس جار ہا
تھا تو میرے ذہن میں پرائمری سکولوں کا منظر گھوم رہا تھا۔ تضاد کی انتہا
ملاحظہ فرمائیں کہ تعلیم کا اہم ترین سفر کتنا عجیب ہے کہ بچہ جب گھر سے
نکل کر سکول جاتا ہے، تو اسے کس قسم کے ماحول اور مناظر کا سامنا کرنا پڑتا
ہے، دیہات میں پرائمری سکولوں کے حالات کس سے پوشیدہ ہیں۔ اب نجی سکولوں نے
ماحول کچھ بدل دیا ہے۔ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس معصوم بچے کا دل
بہلانے کے لئے خوبصورت ماحول دیا جانا ضروری ہے، وہ نہیں دیا جاتا، حکومت
کو اس بات کا پورا ادراک بھی ہے۔ گزشتہ برسوں میں سکولوں میں ’’کِڈز رومز‘‘
بھی بنائے گئے تھے۔ مگر یہ کام ہزاروں میں سے چند سکولوں میں ہوا۔ بعد میں
وہاں بھی توجہ نہ دی گئی۔ مگر جب عام بچے اپنی اچھی قسمت کی بنا پر پڑھ لکھ
کر یونیورسٹی تک پہنچ جائیں تو انہیں بالکل مختلف ماحول دسیتاب ہوتا ہے۔
تعلیم کے وزیر مملکت کو چاہیے کہ وہ اس بات پر بھی غور فرمائیں، اچھا باغ
اگانے کے لئے معیاری نرسری کی ضرورت ہوتی ہے، خود رَو پودوں میں سے چند
پودے چن کر باغ نہیں لگائے جاتے۔ جناب! جو منظر کشی آپ نے جامعات کے لئے کی
ہے، کاش پرائمری تعلیم کے لئے بھی کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سکولوں میں
طلبہ کی حاضری میں واضح بہتری نہ آئے اور جو کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں،
وہ بھی سکولوں میں داخل ہوسکتے ہیں، ضرورت عمل کی ہے۔ |
|