ماہ رمضان کی آمد کا مقصد شجرتقویٰ کی آبیاری ہے مگر ہم نے اسے خرافات کی آماجگاہ بنادیاہے

ماہ رمضان المبارک میں اہلیان مالیگاؤں کے اعمال و معمولات پرایک تلخ سروے کھیل کود،غصہ گرمی،اتی کرمن ،نعمتوں کی بے قدری،شرعی احکام کی پامالی اور حق داروں کی حق تلفی سے پرہیز کریں
 اُمت محمدیہ پر ماہ رمضان میں روزے فرض کئے گئے ہیں۔روزہ کی فرضیت کا مقصد محض بھوک اورپیاس نہیں بلکہ شجر تقویٰ کی آبیاری ہے۔روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندے ایک ماہ کی اختیاری بھوک کے ذریعے غریبوں،مفلسوں اور تنگدستوں کی دائمی اضطراری بھوک کا احساس کر سکیں۔ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ذریعے مستحقین کوخود کفیل لوگوں کے زمرے میں شامل کرسکیں۔بحمدہ تعالیٰ!نورونکہت والامہینہ ہمارے درمیان موجود ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب اس کی آمد اور موجودگی کے باوجود ہم میں خاطر خواہ انقلاب نظر نہیں آتا ۔ روزوں کی فرضیت کا مقصد فوت ہوتا جارہا ہے ۔مستحقین ،یتیموں ،بیواؤں اور غریبوں کی امداد کا جذبہ بھی مردہ ہوچکا ہے۔اسلاف کرام ماہ رمضان کی آمد پر خود کو تیار کرتے بندگی کے لیے اور ہم بازاروں میں سحروافطار میں لذیذپکوان کی تیاریوں اور دیگراشیاؤں کی خریدوفروخت میں مصروف ہوتے ہیں۔نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن کے اہتمام کی بجائے ٹینس اور کرکٹ کھیلنے کا مشغلہ پروان چڑھ رہاہے۔ نوجوانوں کا صبح اور رات میں موٹر سائیکلوں پردھوم مستی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔کسی کو ٹریفک میں کسی گاڑی سے دھکالگ جائے تو وہ غصے میں لال پیلاہوکر ایسے گھورتا ہے جیسے ابھی کچاچباجائے گا۔جبکہ روزہ نام ہے صبرکا۔کیاکبھی سنجیدگی سے ہم نے سوچاکہ موٹر سائیکلس پر نوجوانوں کی دھوم مستی، طرح طرح کے اسٹنٹس اور ایک دوسرے کوتکلیف دینے کے عمل کو دیکھ کر غیروں کی نظر میں اسلامی تہذیب کی چھاپ پڑتی ہوگی؟ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جس قوم کوراستہ چلنے کے آداب نہیں معلوم کیاوہ دنیاکی قیادت کرسکتی ہے؟ماہ رمضان کے پہلے ہفتے میں ہر کوئی خوب جوش وخروش کے ساتھ عبادت میں مشغول نظرآتا ہے مگر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں یہ جذبہ بھی سرد ہوتاجاتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے دوسرے عشرے میں افطار پارٹیوں کا زور ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس کے طلبا،یتامیٰ،مساکین اورناداروں کے لیے روزہ افطاری کا سامان کیاجاتا مگر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ دعوتِ افطار کا اہتمام کرتے ہیں،پھلوں کی بھر مار کے ساتھ بریانی،چکن فرائے اور دیگر خوانِ نعمت کا انتظام ہوتاہے۔اس کا کچھ حصہ تو کھایا جاتاہے مگراکثر محفلوں میں کھانا وافر مقدار میں بچ جاتا ہے اور اسے پھینک دیا جاتا ہے ۔جب کہ حضور ﷺنے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاسے فرمایاکہ ائے عائشہ!روٹی کی عزت کرو، جس قوم سے یہ روٹھ کر گئی ہے دوبارہ واپس نہیں آئی ۔

دوسرے عشرے میں افطار پارٹیوں کی مصروفیات سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے عید کی تیاریوں کا سلسلہ۔ پہلے ہی سے عید کی تیاریاں مکمل کر لینے والابھی دوستوں کے ساتھ بازاروں میں بھیڑکرنااور راہ گیروں کو تکلیف دینااپنا فرض منصبی تصورکرتا ہے۔ بازاروں کی رونق اور خریدوفروخت کی ریل پیل دیکھ کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ شہر مندی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔مارکیٹ میں مردوخواتین کا ایک ایسا جمگھٹاہوتا ہے جو عید کی تیاریاں تومکمل کرلیتاہے مگر اﷲ کے پسندیدہ مذہب کی تعلیمات کی دھجیاں بکھیر کررکھ دیتا ہے ۔اس مہینے میں چوک، چوراہوں اور اہم راستوں پرچھوٹی بڑی دکانوں کی لمبی قطاریں نظرآتی ہیں۔یہاں بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیااسلام اتی کرمن پردوسروں کو تکلیف دے کر کاروبار کرنے کی اجازت دیتا ہے؟اور پھرپچیس روزے سے شروع ہوجاتی ہے عید پر سیروتفریح کی پلاننگ۔ پُرفضامقامات کا انتخاب کرنااورٹراویلس ایجنسیوں میں گاڑیاں بُک کروانا وغیرہ۔ اٹھائیس روزے کے بعد سب کی نگاہیں ٹِک جاتی ہیں آسمان پر۔گویاکہ دو تین دن چاند کے دیدار پرنکل جاتے ہیں۔ہلال عید نظر آنے کے بعد تمام تر آرائش وزیبائش کے ساتھ دورکعت نماز عید اداکیے اور رخصت ہوگئے اپنے بنائے ہوئے سفر کے شیڈول پر۔چارچھ ایکسیڈنٹ ہوئے، مرحوموں کے اوصاف پر اخبارات میں دو چار تعزیتی مضامین شائع ہوئے اور پھر روز مرہ کی روِش پر گامزن ہوگئے۔کیاروزوں کی فرضیت کایہی مقصد ہے ؟؟یہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے انحراف ناممکن ہے۔ہزاروں روپے قوم مسلم عید کے دن سنیما گھروں میں لُٹادیتی ہے۔سو روپے کی قیمت اس بیٹے کے دل سے پوچھیے جس کی نظروں کے سامنے باپ کی لاش ہے اور کفن خریدنے کے لیے سو روپے کی کمی ہے۔اس بیٹے کے دل پراس وقت کیاگزرے گی جب وہ کفن کے لیے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا ؟ آج بھی شہر مالیگاؤں میں ایسے خاندان موجود ہیں جن کے بچے جمعہ کے دن والدین سے بریانی کی خواہش کرتے ہیں اور ماں باپ بچوں کے ہاتھوں میں سوکھی روٹیاں تھماتے ہیں۔ آج بھی ایسے گھر موجود ہیں جہاں بچے کہتے ہیں،امی!سب لوگوں نے تراویح پڑھ لی اور ہم نے ابھی تک روزہ بھی نہیں کھولا۔
وہ بچے جن کو بیوہ ماں سُلا دیتی ہے فاقے سے
کسے معلوم ان بچوں کی کیسی عید ہوتی ہے

سحروافطار کی تیاری،دعوتِ افطار کا اہتمام،عید کی خریدی اور عید پر تفریح طبع کے نام پر ہم ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ ہمیں تواَب یتیم بچوں کی یتیمی،بیواؤں کی مجبوری ،غریبوں کی امداداور مستحقین کی ضرورت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ہم مست ہیں اپنی فیملی میں۔ ہم نے بچپن میں دیکھاتھا کہ نماز عصر کے بعدکھانااور فروٹس پڑوسیوں میں تقسیم کئے جاتے تھے مگر افسوس! آج ہم اتنے مفاد پرست اور خود غرض ہوگئے ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک پکوان بن کر ختم بھی ہو جاتے ہیں اور پڑوسیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔جب کہ مفہوم حدیث ہے کہ نیاپکوان بناؤتو پانی بڑھا لیا کرو تاکہ لقمہ تمھارے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے پڑوسیوں کے گھر تک پہنچ جائے۔ شریعت اسلامیہ تو غریبوں کے حقوق یہاں تک بیان کرتی ہے کہ اگر تم کسی وجہ سے پڑوسیوں میں پھل تقسیم نہیں کر سکتے تو ان پھلوں کے چھلکوں کو ایسی جگہ نہ ڈالو جہاں غریب بچوں کی نظر پڑے اور وہ ان پھلوں کا مطالبہ کریں۔کاش! خرافات میں پیسہ خرچ کرنے کی بجائے یتیموں کی کفالت کی جاتی ؟ بیواؤں،غریبوں اور مسکینوں کی امداد کی جاتی؟جن لوگوں پر قرض باقی ہے وہ بے جا خریداری اور سیروتفریح کرنے کی بجائے اپنا قرض ادا کرتے؟اور ہم سب مل کر اسلامی تعلیمات پر ایسے عمل پیراہوجاتے کہ ہر ایک کی زندگی میں اسلامی انقلاب بپاہوتا اور اسلام کی حسین تصویر غیروں کے سامنے پیش ہوتی اور ان کے دل بھی مذہب حق کی طرف راغب ہوتے۔اﷲ پاک عقل سلیم عطا فرمائے۔
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674398 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More