تقدیر اہم
(Muhammad Rizwan Khan, Islamabad)
میں جب بھی پروفیسرصاحب سے ملا ،یوں سمجھٔے
کہ اپنے سقراط سے ملا ۔اس کی ذات کو جانچنے کے لیے ایک نشست کافی نہہں تھی
سو میں نے ان سے دوستی کرلی یوں ملاقاتوں کا سلسلہ چل کھلا۔ہر ملاقات کے
بعد میں اپنے آپ کو علم دشمن سمجھتا ،کیونکہ پروفیسر صاحب مجھے جن علمی اور
لا محدود معلومات کے جزیرو ں کی سیر پر لے نکلتے زندگی کے شور اور بھیر میں
کبھی مجھے ان باتوں کے بارے میں سوچنے کا وقت تک نہ ملا تھا جو پروفیسر
صاحب نے ہزاروں کتابوں کی چاک جھان کر ترتیب یاد کی ہوئی تھیں۔ہر نشست میں
میرا کام انکو موضوع دینا ہوتا تھا اس کے بعد انکے الفاظ اور میری خاموشی
کے سوا کمرے کی ہر شے چپ کی چادر اوڑھ لیتی تھی۔ تاریخ کا سفر اس وقت رکتا
جب میں دوبارہ ملنے کا نعرہ لگا کر اجازت کا طلب گار ہوتا پروفیسر اے بی
خان بھی بوجھل دل سے مجھے گلے لگا کر جہالت اور افراتفری ہنگاموں کی دنیا
کی طرف کوچ کی اجازت دے دیتے ۔میں ان سے رخصت ہو کر پھر سے بے مقصد پکڑو
پکڑو میں کھو جاتا۔پچھلی ملاقات میں بھی حسب معمول میں نے چنگیز خان کا ذکر
چھیڑ دیا ۔اس کے بعد پروفیسے صاحب کے علمی بیراج کے گیٹ کھل گئے ۔انہوں نے
چنگیز خان کی زندگی کے پوشیدہ گوشوں پر بھی روشنی ڈالی جو آج تک میں نے کسی
کتاب میں نہیں پڑھے ان کی معلومات کا لب لباب علامہ اقبال کا شعر تھا کہ
آ میں تجھے بتاؤں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
گویا انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ علامہ
اقبال کا ہر شعر صدیوں کی تاریخ کا نچوڑ ہے۔بقول ان کے آپ جب بھی قوموں کے
عروج و زوال کا جائزہ لینا شروع کریں اقبال کے درج بالا شعر کو مدنظر رکھ
کر لیں ۔قوموں کی تقدیر کا بناؤ اور بگاڑ ایک ترتیب کا محتاج ہے۔قومیں
مردانگی اور عسکری طاقت کی بنیاد ابھرتی ہیں فتوحات کی فراوانی ان کا دور
عروج ہوتا ہے۔اس کے بعد ناچ گانا عسکری مہارت کا خاتمہ ان کے زوال کا نقارہ
ثابت ہوتا ہے۔لفظ ذرا سے بدل جاتے ہیں ترتیب وہی رہتی ہے۔نہ بدلی ہے نہ
بدلے گی۔نہ بدل سکتی ہے۔آپ دور نہ جائیں عربوں کا حال دیکھ لیں وہ جن کی
تلواروں کی جھنکار یورپ تک ادھر سندھ تک آن پہنچی تھی ۔آج وہی عرب مردہ
امریکی کتوں تک کے اخراجات بھی تیل کے بدلے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔کوئی ذرا
سا للکارے تو ادھر ادھر گھبرا کر سہارا ڈھونڈننا شروع کر دیتے ہیں ۔ہمارے
مقامات مقدسہ کی تعمیر سے لے کر حفاظت تک پر امریکی اور غیر مسلم مامور ہیں
۔قصور کسی کا نہیں خود مسلمانوں کا اپنا ہے۔رہے ہم پاکستانی تو ہم ان سے
بھی زیادہ درد ناک صورتحال کا شکار ہیں ۔ہمارے پاس کہنے کو سب کچھ ہے مگر
عملی طور پر کچھ بھی نہیں ۔ہم ایٹم بم تو بنا لیتے ہیں مگر بنانے والوں
کوغیروں کے اشاروں پر ذلت کا نشان بنا دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ہمارے پاس
سب کچھ ہے نہیں ہے تو عزت نہیں ہے۔ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی ہماری عزت
کرنے پر تیار نہیں ۔آپ مشہور زمانہ ہارٹ سرجری کے معاملے کو ہی دیکھ
لیجیئے۔کسی میں ہمت نہیں کہ دو فقروں کا سچ ہی بول دے کہ ملک کا کوئی
ہسپتال ہمارے ہر دلعزیز سربراہ مملکت کے لئے محفوظ نہیں ہے۔خطرات کے وجود
نے ٹاپ کی لیڈرشپ کو وہمی خبطی اور بزدل بنا دیا ہے۔جو اپنے عوام سے خطاب
کرتے وقت بلٹ پروف شیشے کی آڑ لینا نہ بھولتے ہوں وہ بھلا کسی ملکی ہسپتال
میں چند روز لوکل ڈاکٹروں اور عوام کے بیچ گذارنے کا رسک بھلا کیسے مول لے
سکتے تھے۔ذرا سا سچ بولنے کی بجائے کوئی کچھ راگ الاپ رہا ہے تو کوئی کچھ ۔ایک
محترمہ فرما رہی تھیں کہ یہ اقدام عوام کی سہولت کے لئے کیا گیا کہ لندن کو
منتخب کیا گیا کیونکہ وزیراعظم جس بھی ہسپتال جاتے تو پروٹوکول جو کہ ان کا
جائز حق ہے اس حق کے حصول کی وجہ سے ہسپتال کے نظام میں خلل پڑتا عوام کو
پریشانی کا سامنا کر نا پڑ سکتا تھا ۔جس کے پاس جتنی عقل تھی اس نے اس کے
مطابق وجہ گھڑنے کی کوشش کی۔سب باتوں کی ایک بات پہلے سنا کرتے تھے کہ کسی
کو سب سے خطرناک بد دعا دینی ہوتی تو کہا جاتا تھا کہ جا تینوں عشق ہو جاوے
۔موجودہ حالات میں بد دعا ذرا سی تبدیل ہو گئی ہے کہ جا تینوں کرسی نال عشق
ہو جاوے۔یہ عشق جس کو ہو گیا اس کی دنیا بھی پروٹوکول کے چکر میں کراب اور
آخرت بھی۔بظاہر موج مستی نظر آتی ہے مگر حقیقت دل اندر سے ڈرا ہوا گھبرایا
ہوا بڑے محلوں میں نرم گدوں پرنیند کوسوں دور ۔جب دل میں اقتدار کی ہوس ہو
تو انجام بھی برا اور آغاز بھی۔دور کیوں جانا کرنل قذافی کا حال سب آنکھوں
سے دیکھ چکے ہیں ۔عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے کبھی کرسی کے عشق میں کبھی
مبتلا نہیں ہوتے۔عوام بھی درد مند دل رکھنے والوں کو کبھی دل سے نہیں
بھلاتے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔دو وقت کی روٹی اور ایک کپڑوں کا جوڑا اس کے
علاوہ باقی سب ہوس کا بوجھ ہے۔جن کی سمجھ میں آجائے تو وہ عمر فاروق اور
عمر بن عبدالعزیز بن جاتے ہیں ۔باقی واجبی عقل رکھنے والوں کی سمجھ میں یہی
آتا ہے کہ آؤ لوٹو تے فیر پھوٹو۔چلے وہ بھی گئے چلے سب نے جانا ہے۔فرق اس
سے نہیں پڑتا کہ کون کتنا عرصہ بڑھکیں مار کر حکمرانی کرتا رہا البتی اس سے
ضرور پڑتا ہے کہ کس نے عوام نما رعایا کو کتنا ریلیف دیاکس نے ان کے درد کو
اپنا جانا۔ایدھی صاحب غربت ختم نہ کر سکنے پر دکھی اور افسردہ ہیں ۔ایدھی
صاحب آپ غربت ختم کرنے میں یقیناکامیاب ہو جاتے اگر غربت کی کاشت کرنے والے
ظالم کچھ حیا اور شرم سے کام لیتے۔آپ نے جو کیا وہ بہت سے بھی زیادہ ہے ۔ہم
سب آپ کو سیلوٹ کرتے ہیں ۔آپ کی گریٹ نس کا اور اس سے زیادہ کیا ثبوت ہو گا
کہ آپ نے اتنا کچھ کیا پھر بھی جو رہ گیا وہ نہ کر سکنے پر دکھی اور افسردہ
ہیں ۔آپ فکر نہ کریں نیکی کا سفر کبھی نہ رکتا ہے نہ کوئی اسے روک سکتا ہے
آپ کے بعد یہ عوام آپ کے ادارے کو مزید تندرست و توانا کر کر آپ کے خواب کو
ضرور پورا کرے گی ۔ |
|