پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں
ٹِڈے شاہ ہوا کرتے تھے۔ پوراگاؤں انہیں ناکارہ، نکمااورنکھٹو جیسے ناموں سے
پکارتا تھا۔ جمعے کا روز تھا ٹِڈے شاہ کی بیوی نے کہاکہ ٹِڈے شاہ آج جمعے
کی نمازضروراداکرنی ہے۔ جس پرٹِڈے شاہ نے کہاکہ کون نہائے؟کپڑے بدلے؟ اورتو
اورمسجدبھی بہت دورہے۔رہنے دومیں اﷲ پاک سے معافی مانگ لوں گا۔بیوی نے سختی
سے کہاکہ نہیں نمازپڑھ کر آؤ،میں تمہارے لئے آج دعوت کا بندوبست کرتی ہوں۔
ٹِڈے شاہ کی نکماگیری کے سبب دووقت کی روٹی ہی مشکل سے میسرہوتی تھی دعوت
کاسن کراسکاجی للچایا،فوراًحامی بھرلی۔نہائے،دھوئے،صاف کپڑے پہن کر گھرسے
جیسے ہی نکلے توتپتی دھوپ اورحبس سے ان کی ہمت جواب دے گئی۔فوراًارادہ بدلا
اور گھر کے پیچھے جاکرچھپ گئے۔کھڑکی سے دیکھاکہ بیوی ایک جگہ سے
چھپاہواگُڑ،دوسری جگہ سے چاول ودیگراشیاء نکال رہی ہے۔یہ ساری صورتحال دیکھ
کرکچھ دیربعد دروازے سے واپس داخل ہوئے۔ بیوی نے پوچھا: نماز پڑھ لی؟کہا:
الحمدﷲ!بیوی نے پھرپوچھا:نماز میں کیاکیا؟ٹِڈے شاہ کو کچھ نہ
سوجھاتوفوراًبولے کہ آج اﷲ پاک نے نمازمیں مجھے اپنے گھرکامنظردکھایا۔میں
نے دیکھاکہ فلاں جگہ سے تم نے چاول نکالے اوردوسری جگہ سے تم نے
چھپاہواگُڑنکالا۔ یہ سن کر ٹِڈے شاہ کی بیوی حیران اور ششدر رَہ گئی۔ اوسان
بحال ہوئے تو ٹِڈے شاہ کے گلے لگی اور کہا سبحان اﷲ۔ میرے شاہ صاحب تو پیر
ہوگئے۔ اﷲ نے کرم کردیا اور غیب کا علم عطاء کردیا۔ یہ بات گاؤں میں جنگل
کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ منتیں اورمرادیں لے کر ٹِڈے شاہ کے حضور پیش
ہونے لگے۔ گزر بسر بھی اچھا ہونے لگا۔ایک دن اچانک گھر کا دروازہ بجا۔ باہر
بادشاہ کے سپاہی کھڑے تھے اور کہاٹِڈے شاہ کوبادشاہ سلامت نے فوراً
بلایاہے۔محل سے ان کے قیمتی زیورات چوری ہوگئے ہیں۔فوراً چلیں۔یہ سن کر
ٹِڈے شاہ کی بولتی بند ہوگئی۔ بہرحال انہیں کپڑے بدلنے کاکہ کرگھر میں داخل
ہوئے اور دوسرے دروازے سے نکل کر سر پٹ دوڑ پڑے۔ قدرت کی کرنی کہ راستے میں
ایک شخص سے ٹکراگئے اور اس سے زیورات کی پوٹلی زمین پر گر گئی۔ پوچھا کیا
ہواہے ؟تو اس نے کہا کہ ٹِڈے شاہ صاحب آپ پرتو اﷲ بہت مہربان ہے، خدا کیلئے
ہمیں بچائیں۔ میری بیوی نے بادشاہ کے محل سے یہ زیورات چوری کئے تھے۔اب
بادشاہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ خدا کیلئے کچھ ایسا کریں کہ ہماری جان بچ
جائے۔ٹِڈے شاہ نے فوراً کہا کہ اپنی بیوی کو کہو کہ بادشاہ کے صحن میں سب
سے بڑے درخت کے نیچے یہ زیورات چھپادے۔ باقی سب میں سنبھال لوں گا۔مگر
دوبارہ ادھر نظر نہیں آنااورٹِڈے شاہ واپس گھر کی طرف چل دئیے۔ بادشاہ کے
سپاہیوں کے ہمراہ محل پہنچے۔ بادشاہ سے ملاقات کے بعد فوراً مصلیٰ مانگا
اور سجدے کرنے لگے۔ اسی دوران اُٹھے اور صحن میں لگے بڑے درخت کے سامنے
کھڑے ہوکر کہا کہ اس کے گرد کھدائی کرائیں۔ نوکروں نے کھدائی کی تو زیورات
برآمد ہوگئے۔ پھر کیا تھا ٹڈے شاہ کی توبلّے بلّے ہوگئی۔ بادشاہ بہت خوش
ہوا اور انہیں اپنا شاہی مہمان بنالیا۔ٹِڈے شاہ کی بیوی نے کہا کہ شاہ جی
چھوڑو ان چکروں کو بس کرو آؤ گھر چلتے ہیں ورنہ کسی مصیبت میں پھنس
جاؤگے۔ٹِڈے شاہ نے کہا کہ اﷲ تواب ہم پرمہربان ہواہے۔کہاں گھر کی سوکھی
روٹیاں اور کہاں محل کے کھانے۔ بھاگوان بس تودیکھتی جا تیرا ٹڈے شاہ کیا
کرتا ہے۔ اسی دوران نوکر نے آکر کہا کہ بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ کل کا
خطبہ مسجد میں آپ نے دینا ہے۔ اب توٹِڈے شاہ کی سِٹی ہی گم ہوگئی۔ ٹِڈے شاہ
نے تو زندگی میں کبھی نماز نہیں پڑھی تھی خطبہ تو بہت دور کی بات تھی۔ مرتا
کیا نہ کرتا، صبح تیار ہوکر مسجد جا پہنچا۔ امام صاحب نے دعوت دی کہ آئیے
شاہ صاحب خطبہ دیجئے۔ منبر کی جانب جانے کی بجائے ٹِڈے شاہ مسجد سے باہر کی
طرف دوڑے اور ان کے پیچھے بادشاہ، وزراء اور امام صاحب سمیت تمام نمازی بھی
دوڑ پڑے۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی دھڑام سے مسجد کی چھت گرگئی۔پھرکیاتھاٹِڈے
شاہ کی پھربلّے بلّے ہوگئی۔
’’قسمت مہربان تو گدھا پہلوان‘‘ کے مصداق ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں ٹِڈے
شاہوں کی بھرمارہے یہ خودساختہ اعلیٰ مرتبے کے تن تنہامالکِ کل ہمارے
اردگرداپنی حرکات اور جعلی کرشمات کے جوہردیکھاتے نظرآتے ہیں یہ گاؤں،محلے
اورشہر میں خودساختہ چوہدری، ملک ،خان،سردار،سائیں ودیگر ناموں سے براجمان
ہیں جبکہ اعلیٰ عہدوں ،حکمرانوں کے ڈرائنگ رومز سے اقتدارکے ایوانوں تک میں
بھی پائے جاتے ہیں۔ جو اتفاقیہ واچانک سے ہونے والی حرکات سے ملنے والے
رتنے و مسندپربیٹھنے کے بعد فرعون کے جانشین ثابت ہوئے۔تعلیمی قابلیت
،معاشرتی مسائل اور اخلاقیات سے سِرے سے نابلدان ٹِڈے شاہوں نے طاقت ملنے
کے بعداپنے رتبے اورعہدوں کا بے دریغ وبھرپوراستعمال کرتے ہوئے عوامی دولت
سے اپنے اوراپنے پیاروں کے اکاؤنٹس لبالب بھرے۔ انہی نااہل اورکم ظرف ٹِڈے
شاہوں کے سبب ہی ملک ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے دن بدن پستی کا
شکارہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہورکاایک بڑاحصہ ان کی اصلیت ،خباسیت اورمکروہ
کردارسے مکمل طورپرواقف ہونے باوجودبھی خاموش تمائی بنا ہوا ہے جو اﷲ کے
حضورایک بہت بڑاگناہ اورقومی سطح پرایک سنگین جرم ہے۔پڑھے لکھے اوراخلاقیات
سے واقف باشعورافراد کی اس پراسراراورمجرمانہ خاموشی کی وجہ سے ان ٹِڈے
شاہوں کی فوج کی موج جاری وساری ہے۔
زراسوچئے۔
سرزمین پاکستان 70سالوں سے مسلسل بحرانوں میں مبتلا جس کاسبب یہی ٹِڈے شاہ
ہیں۔اسی لئے ہرذی شعورفردکو ملک وقوم کی بقاء ،سالمیت اور خودمختیارکیلئے
اپنا مذہبی ،قومی اور اخلاقی فریضہ اداکرتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں کی
اہم مسندوں پر براجمان ان ٹِڈے شاہوں کااحتساب کرناہوگااوران کے بھیانک اور
کمیں چہروں کوعیاں کرکے انہیں انکے منتقی انجام تک پہنچانا ہوگا تاکہ مملکت
خدادادسرزمین پاکستان خوشحالی کے ایک نہ ختم ہونے والے سفر کی جانب گامزن
ہوسکے۔ خدانخواستہ اس باربھی جمہورنے اپناکردارنہ کیا توپھریہی ہوتا رہے گا
۔۔۔۔
جھکنے والوں نے مسندیں پالیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
ہم نے اقبالؔ کا کہا مانا
اور فاقوں سے بھوکے مرتے رہے |