بنت حوا ہوں میں یہ میرا جرم ہے

ویسے تو ہم بحیثیت مجموعی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ روز اپنی آنکھوں کے سامنے کئی المناک سانحات دیکھتے ہیں اور بہت جلد بھول جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی کوئی دل دوز سانحہ انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے اور دماغ میں پیوست ہوکر رہ جاتا ہے، انسان لاکھ کوششوں کے باوجود بھی خود کو اس غمناکی سے بچا نہیں پاتا۔ کچھ ہی عرصے میں ملک میں تین لڑکیوں کو زندہ جلائے جانے کے واقعات کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جی رہے ہیں، بلکہ شاید اس سے بھی بدتر کسی زمانے میں ہیں۔ زمانہ جہالیت میں تو لوگ غربت و افلاس کے خوف سے نومولود بچیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا کرتے تھے، لیکن آج کے ”مہذب“ دور میں نام نہاد غیرت کے نام پر جوان بچیوں کو آگ میں تڑپا تڑپا کر جلادیا جاتا ہے۔ کچھ روز قبل لاہور میں پسند کی شادی کرنے پر سترہ سالہ لڑکی کو زندہ جلایا گیا۔ اس سے پہلے ایبٹ آباد میں ایک سولہ سالہ لڑکی کو جرگے کے حکم پر زندہ جلادیا گیا تھا اور مری میں بھی ایک انیس سالہ لڑکی کو شادی سے انکار کے ”جرم“ میں علاقے کے کچھ غنڈوں نے تشدد کے بعد زندہ جلا دیا۔ درندگی و سفاکیت کے ان واقعات کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ ہمارا سماج اگرچہ کتنا ہی پڑھ لکھ گیا اور ترقی کر گیا ہے، لیکن انتہا پسندی اور جہالت آج بھی اس کی رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہی ہے۔ کسی ذی روح کو زندہ جلانے کے لیے سینے میں انسانی دل کی جگہ خونخوار بھیڑیے کا دل یا ضرور کوئی پتھر ہونا ضروری ہے، ورنہ سفاکیت کے یہ واقعات سوچ کر ہی وحشت طاری ہوئی جاتی ہے۔ صرف ایک انگلی پر انگارہ لگ جائے تو کئی دن درد کی ٹیسیں پورے بدن کو بے چین کیے رکھتی ہیں، لیکن یہاں پورے جسموں کو آگ میں جھونک دیا گیا اور پھر تڑپ تڑپ کر نکلتی روح کا تماشا بھی دیکھا۔

یہ تو وہ چند واقعات ہیں جو میڈیا میں زیر گردش ہیں، ورنہ اگر روز کے اخبارات ہی پڑھ لیے جائیں تو بنت حوا کے قتل، جنسی و جسمانی تشدد اور دیگر مظالم کی سیکڑوں المناک داستانیں آپ کی آنکھوں کو نم کرنے کو مل جائیں گی۔ حقیقت میں بنت حوا کا جرم معاشرے کا کمزور طبقہ ہونا ہے۔ عورت کو جرم ضعیفی کی سزا صدیوں سے دی جارہی ہے اور بنت حوا اسی طرح زیر عتاب ہے۔ بنت حوا کو کبھی جنگوں میں استعمال کیا گیا تو کبھی سربازار اس کی عزت کو نیلام کیا گیا۔ کبھی اس کو بازار کی جنس بنا دیا گیا تو کبھی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔ کبھی اسے اس کے حقوق سے محروم کیا گیا تو کبھی اپنا حق مانگنے پر اس کی زندگی چھین لی گئی۔ کبھی جرگوں کے فیصلوں پر اسے زندہ جلایا گیا اور کبھی غیرت کے نام پر اس کے ٹکرے کردیے گئے۔ دو مردوں کے بیچ لڑائی ہو تو بھی گالی بنت حوا کو ملتی ہے۔ سماج نے ہر گالی کو عورت کے ساتھ منسوب کر کے اپنی بیمار سوچ کا ثبوت دیا ہے۔

بنت حوا پر ہونے والے مظالم دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ شاید اسے معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ نوے لاکھ لڑکیاں تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ شادی بیاہ کے فیصلوں میں عموماً ان سے نہیں پوچھا جاتا۔ نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال ہزاروں خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔کاروکاری، چھوٹی بچیوں کی بوڑھوں سے شادی، جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے عورتوں کی شادی نہ کرنا، انھیں جائیداد کا حصہ نہ دینا، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، بلاوجہ طلاق، شکوک و شبہات کی پاداش میں عورت کو قتل کردینا، جہیز نہ لانے یاکم جہیز لانے پر اسے ظلم کا نشانہ بنانا، چھوٹی چھوٹی رنجشوں یا غلطیوں پر عورتوں کی پٹائی کرنا اور جہالت پر مبنی بہت کچھ ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔بنت حوا کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ بھیانک رویہ نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہے، بلکہ مذہب اسلام کی تعلیمات سے بھی سراسر متصادم ہے۔ یورپ میں عورت کو برابری کے نعرے کی وجہ سے محنت و مزدوری سمیت دیگر تمام مشکلات کا اسی طرح سامنا کرنا پڑتا ہے، جس طرح ایک مرد کرتا ہے، لیکن اسلام نے عورت کو عزت و احترام سے نواز کر گھر کی ملکہ بنایا ہے، لیکن اگر کوئی عورت کو اس کا یہ مقام نہیں دیتا تو اس میں قصور اسلام کا نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات سے نابلد اس کوڑھ مغرز انسان کا ہے، جو عورت پر تشدد کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

یہ اس معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں قدم قدم پر مساجد ہیں اور علمائے کرام، دینی جماعتوں اور مذہبی رہنماﺅں کی کثرت ہے، اس کے باوجود عورت پر ظلم ہورہا ہے۔ اگرچہ عورت پر ظلم مذہب کے نام پر نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب اس درندگی کی اجازت دیتا ہے، لیکن معاشرے کو عورت کے حقوق سے آگاہ کرنا اور اسلام کی نظر میں عورت پر تشدد کی حرمت کو تو علمائے کرام اور مذہبی رہنما ہی بیان کرسکتے ہیں۔ جمعہ کے خطبات میں حکومت، بھارت، امریکا اور اسرائیل کے خلاف تو تقریریں کی جاتی ہیں، لیکن بنت حوا پر مظالم کی پرزور مذمت اور اس کے خلاف شعور بیدار کرنے کے حوالے سے شاید ہی کوئی بیان کیا جاتا ہو۔ معاشرے میں اس سوچ کو فروغ دینا بھی علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ پسند کی شادی کرنا اگرچہ معاشرتی طور پرنا پسندیدہ عمل ہے، لیکن اس کی پاداش میں قتل کردینا بدترین ظلم ہے، جس کی اسلام ہر گز ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بچیاں کم فہمی کی وجہ سے اپنے بارے میں بہت سے غلط فیصلے کربیٹھتی ہیں، لیکن اگر والدین اولاد کی اچھی تربیت کریں تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچے اور اگر اولاد اپنے لیے نامناسب فیصلہ کرہی لیتی ہے تو قتل کرنا تو حل نہیں، بلکہ ان کو بہتر فیصلے کے لیے قائل کرنا والدین کی ذمہ داری ہے اور پوری دنیا کے سامنے تماشا بنانے کی بجائے نکاح کے ذریعے ان کے فیصلے کو قبول کرلیا جائے، جو بھاگ کر شادی کرنے سے کہیں بہتر ہے، کیونکہ شادی میں پسند ، ناپسند کا اختیار خود اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، اس کی پاداش میں قتل کردینا ”غیرت“ نہیں، بے غیرتی اور پرلے درجے کی درندگی ہے۔

سماجی ، ثقافتی رویوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے موثر کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے بھی عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ عورتوں پر تشدد کے شاید ہی کسی مجرم کو سزا دی جاتی ہو۔ اگر حکومت اور قانون ساز ادارے اسلام کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر قوانین بنائیں اور قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو عورت کو درپیش مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن اس حوالے سے موجودہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے حکومت، علمائے کرام، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو اسلام میں عورت کے حقوق کے حوالے سے معاشرے میں شعود اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ معاشرے کا ہر فرد عورت کی عزت واحترام اور اس پر تشدد کی حرمت سے واقف ہو جائے، بصورت دیگر بنت حوا کو جرم ضعیفی کی سزا ملتی رہے گی:
بنت حوا ہوں میں یہ میرا جرم ہے
میں تماشا نہیں اپنا اظہار ہوں
سوچ سکتی ہوں سو لائق دار ہوں
میر اہر حرف ہر اک صدا جرم ہے
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.