آزادی

زندگی کتنی حسین ہے ،لائف اِز ویری ہارڈ،انجوائے دی لائف وغیرہ جیسے الفاظ اکثر سننے میں آتے ہیں لیکن انحصار اس بات پر کرتا ہے کہ انسان زندگی کیسے ،کہاں اور کس ماحول میں بسر کرتا ہے ، کیا زندگی گزارنے کیلئے مراعات اور بنیادی سہولیتں حاصل ہیں زندگی کیوں حسین ہے یا کیوں ہارڈ ہے ، کون، کب اور کیوں زندگی کو مشکل بنا تا ہے، آزادی سے زندگی گزارنے کا حق ہر انسان کو ہے لیکن کیا ہر انسان کو آزادی حاصل بھی ہے یا نہیں ۔ برسوں کے مطالعے اور مختلف تجربات سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ انسان آزاد تو ہے لیکن زندگی میں پیش آنے والے حالات و معاملات اسے کہیں نہ کہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے ہیں ایسا کیوں ہے اور دنیا کے کن خطوں میں انسان آزادی سے نہ کسی شے کا انتخاب کر سکتا ہے نہ فیصلہ کیونکہ کبھی معاشرہ اجازت نہیں دیتا تو کبھی کلچر اور مذاہب آڑے آتے ہیں یا مالی حالات ۔دنیا کا ہر انسان زندگی کو اپنی نظر،شعور ،اور تجربات کی بنا پر پرکھتا ہے اور فیصلے کرتا ہے لیکن انتخاب جتنا آسان ہے آزادی سے فیصلہ کرنا اتنا ہی مشکل، کئی انسان زندگی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جو دل و دماغ میں آتا ہے بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرتے ہیں اور منفی نتائج کی صورت میں یہ ہی کہتے ہیں کہ جو ہونا تھا ہو گیا اﷲ کو یہی منظور تھا یا قسمت ہی خراب ہے وغیرہ ،کیا انسانوں کا یہ فلسفہ یا منطق درست ہے ؟کئی بار انسان کسی شے کا انتخاب کرتا ہے لیکن آزادی سے فیصلہ نہیں کر پاتا کیونکہ آزادی حاصل نہیں تو انسان صرف سپنوں میں ہی انتخاب اور فیصلے کر سکتا ہے اور سپنے کبھی سچ نہیں ہوتے ایسے حالات میں انسان شدید الجھن ،کشمکش اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے کہ اب کیا کروں انتخاب بھی میرا، فیصلہ بھی کر لیا لیکن آزادی حاصل نہ ہونے پر اپنی خواہش کو پایہ تکمیل نہیں پہنچا سکتااور دل و دماغ میں بوجھ اٹھائے پھرتا ہے کہ کس مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔ دوسری طرف اگر انسان کو مکمل آزادی حاصل ہو اور مالی حالات اجازت دیں تو کسی بھی عمر میں اپنا من پسند بزنس شروع کر سکتا ہے، دنیا بھر کی سیر و تفریح کیلئے نکل سکتا ہے یعنی جو چاہے کر سکتا ہے، کیونکہ آزادی ایک ایسا سچ ہے جس سے انسان اپنی مرضی سے سب کچھ کر سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں عام حالات میں کسی بھی انسان کو مکمل آزادی حاصل نہیں ہے حتیٰ کہ امیر کبیر افراد بھی کسی نہ کسی شے کے غلام ہیں کوئی لیگل ایڈوائزر کا ،کوئی ادویہ کا، کوئی جورو کا، کوئی چیف کا تو کوئی خوف کا،آج کل انسان کے ذاتی معاملات تقریباً لامحدود ہیں اور اسی بنا پر ہر کوئی کسی نہ کسی کا غلام ہے مثلاً صبح سویرے الارم کی گھنٹی سے انسان کی غلامی کا آغاز ہوتاہے گھنٹی بجنے کے کچھ دیر بعد سوچ بھی بیدا ر ہوتی ہے کہ سوتا رہوں یا اٹھ جاؤں اور اسی لمحے ایک انجانا خیال آتے ہی فوراً بستر سے باہر چھلانگ لگانی پڑتی ہے اور یہ ہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کی طرف رواں ہونے کی تیاری کرتے ہیں ،واش روم ،ناشتہ اور اپنے اپنے کام دھندے کی سمت روانہ ہوجاتے ہیں اور اسی دوران دماغ کے بیک گراؤنڈ میں ایک فلم بھی سٹارٹ ہو جاتی ہے آج کیا کرنا ہے کس سے ملنا ہے کون آئے گا کون جائے گا کیا کھانا ہے کون سا ڈریس زیب تن کرنا ہے گاڑی استعمال کرنی ہے ،بس ٹرین یا ٹیکسی وغیرہ اور اگر دماغ میں چلتی اس فلم کو طویل کیا جائے تو اس میں کئی بار انتخاب،فیصلہ اور آزادی جیسے الفاظ بھی گڈ مڈ ہوتے نظر آتے ہیں مثلاً جائداد کی خرید وفروخت،کیرئیر، جاب کی تبدیلی ،پروموشن،ٹرانسفر،رشتہ داری ،شادی بیاہ،لائف پارٹنر سے علیحدگی ، بچوں کے سکول کالج کا انتخاب اور ایسے ہزاروں جھمیلے دماغ کی نسوں میں کیڑوں کی مانند کلبلاتے اور آتے جاتے رہتے ہیں ایسے حالات میں انسان یہ بھی سوچتا ہے کہ سب کچھ ہو جائے گا لیکن اگر فلاں فلاں جگہ آزادی میسر ہو تو اور اگر نہیں تو سب کچھ ٹھپ اور کتاب بند۔دیکھا جائے تو انتخاب ،فیصلہ اور آزادی کا دوسرا نام سٹریس، الجھن،کشمکش ہے،کئی مطالعوں میں بتایا گیا ہے کہ انسان بااختیار ہوتے ہوئے بھی غیر مطمعن اور بے اختیار ہو تا ہے حالانکہ اس کے پاس انتخاب اور فیصلہ کرنے کے کئی آپشن ہوتے ہیں جبکہ اگر کسی فیصلے تک نہ پہنچ پانے کی صورت میں شدید الجھن اور فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر بالفرض لاتعداد آپشن موجود ہوں تب بھی انسان شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ اب کیا کروں اور کیا نہ کروں،مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا کہ زیادہ تر انسان فیصلے آٹو پائلٹ کے تحت کرتے ہیں ان کے پاس کئی آپشن ہوتے ہیں لیکن پہلی نظر میں ہی پلک جھپکتے فیصلہ کر لیا جاتا ہے تاکہ دماغ کی انرجی کا ضیاع نہ ہواور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ آزادی اور غلامی راستے میں حائل ہوتی ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے ممکنہ طور پر اپنے ذہن کو آزاد اور روشن خیال رکھا جائے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر ثانی کے بعد نارمل طریقے سے فیصلہ کرنا سٹریس سے بچاؤ ہے اگر کبھی انتخاب کے بعد فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آئے تو اپنے قریبی دوست اقارب سے رابطہ کے بعد مشورہ طلب کیا جا سکتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ وہی ہے کہ انسان کہاں اور کس ماحول یا کلچر میں زندگی بسر کرتا ہے کہ کیا اسے آزادی سے سب کچھ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں،مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ترقی پذیر ممالک میں بوجہ غربت،بیماری ،سیاسی معاملات اور غیر تعلیم یافتہ ہونے سے اکثریت انتخاب کرنے کے بعد فیصلہ کسی دوسرے شخص پر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ سماجی اور معاشی مسائل کی چکی میں پِس کر اس قدر دل برادشتہ ہو جاتے ہیں کہ آزادی سے کچھ نہیں کر سکتے، لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے اگر انسان چاہے تو تمام معاملات کو ہم آہنگی ،صبر و برداشت اور تمام پہلوؤں پر گہرائی سے مطالعہ اور سوچ بچار کے پایہ تکمیل پہنچا سکتا ہے۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.