ماہ رمضان کی قدرہراس شخص کے دل میں بہ
درجہ اتم موجودہوتی ہے، جس کے دل میں اسلام اورایمان کی قدرہوتی ہے۔کیونکہ
یہ ماہ خوش نصیب لوگوں کومیسرہوتی ہے اوراس ماہ کی حقیقی قدرومنزلت باعث
سعات مندی ہے۔ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے، جس کامفہوم ہے کہ ماہ رمضان کی آمدسے
پہلے ساراسال جنت سجائی جاتی ہے اوررمضان آتے ہی جنت کہتی ہے کہ اے اﷲ ، اس
مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے۔اﷲ کے خاص بندے کون ہیں۔ظاہرہیں
، وہی اﷲ کے خاص بندے ہیں ، جن کے دل میں اسلام اورایمان کی قدر موجود
ہواوررمضان کے آتے ہی ان پر خوشی اورمسرت کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ
رمضان المبارک کے تمام اعمال پورے اداب کے ساتھ اداکرتے ہیں ۔لیکن بدقسمتی
سے ہم اکثر رمضان المبارک کی فضیلتوں سے محروم رہ جاتے ہیں، کیونکہ اس ماہ
کے حقیقی تقاضے ہم سے نبھائے نہیں جاتے۔رمضان المبارک کاپہلامرحلہ روزہ
رکھناہے، جوبظاہرمشکل نظرآتاہے کیونکہ ایک طرف گرمی زیادہ ہوتی ہے دوسری
طرف دن کافی لمبے ہوتے ہیں ، لیکن جولوگ اﷲ اوررسول ﷺ پرایمان رکھتے ہیں ،
وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی خاطرمیں لائے بغیر رمضان کے پورے روزے رکھ لیتے
ہیں اورانہیں جسم اورروح کے لئے باعث صحت اورتندرستی سمجھ لیتے ہیں۔ہرلمحہ،
جوبھوک اورپیاس کی شدت گزرتاہے، سے لطف اندوزہوتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ کے رحم
وکرم اوراپنے بندے سے محبت کاعالم قابل دید ہے، کہ روزے کی حالت میں انسان
کو ایساصبراوربرداشت نصیب ہوتاہے، کہ بھوک اورپیاس کی شدت کا احساس تک نہیں
ہوتااورپھراﷲ تعالیٰ نے انسان کی اس کیفیت کو کس قدربلند مقام عطاکیاہے کہ
روزہ دارکے منہ کی بدبواﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے اچھی ہے۔رمضان کے
اس مرحلے کافائدہ یہ ہے کہ ہمارے اندرصبروبرداشت کامادہ پیداہوتاہے
اورجسمانی اورروحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔اسکے بعددوسرامرحلہ شروع ہوتاہے،
جوزہد اورتقویٰ کامتقاضی ہے۔اس مرحلے میں انسان ہرقسم کے چھوٹے اوربڑے
گناہوں سے اجتناب کرتاہے۔ روزے کے اس درجے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس میں
بڑے برے سرکش شیطان قیدکردئے جاتے ہیں۔حضورﷺ کاارشادمبارک ہے ۔ــ’’جوشخص
رمضان کے مہینے میں حالت ایمان ثواب اوراخلاص سے عبادت کرتاہے ، وہ اپنے
گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتاہے ، جیسے اس روزتھاجب اسے ماں نے جنا‘‘۔رمضان
المبارک کایہ مرحلہ ، پہلے کی نسبت مشکل ہے اوراس وجہ سے اس کادرجہ بھی بہت
بلند ہے، کیونکہ اس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کاقرب نصیب ہوتاہے اورانسان کو
تزکیہ نصیب ہوتاہے۔اسکے بعدتیسرامرحلہ ہے ، جس میں ہراس چیز سے اجنتاب
اورپرہیز ہے، جو انسان کے دل ودماغ کو ذکرالٰہی سے غافل کردے۔یہ رمضان
کابلند ترین مرحلہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے انسان کو بلند مقام حاصل ہوتاہے
،اسکے دل میں ذکرالٰہی کی شمع روشن ہوجاتی ہے اوردل مغرفت الٰہی سے
منورہوجاتاہے۔روزہ کی اس منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دل ودماغ
میں صرف اﷲ کی یادہواورہماری زبان پر ہمہ وقت اﷲ کاذکرہواورہم اپنے دل
ودماغ کو اس قسم کے تصورات سے پاک رکھیں ، جوذکرالٰہی میں غفلت کاسبب بنتے
ہوں۔قدررمضان کاحقیقی تقاضا،روزے کو ان تین مراحل اور اداب ، تقویٰ ، عبادت
، ذکر اورتلاوت قرآن پاک کے ساتھ رکھناہے۔ایسے ہی لوگوں کے لئے حضورﷺ نے
بشار ت دی ہے ۔’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اورجس نے اسکے تقاضوں
کوپوراکیااوران تمام باتوں سے محفوظ رہا، جس سے محفوظ رہناچاہئے اورجس نے
ہرقسم کے گناہ سے خودکوبچائے رکھا، توایسے روزہ دارکے لئے روزے انکے پہلے
گناہوں کاکفارہ بن جاتے ہیں‘‘۔
رمضان المبارک کے اس مقام تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں
اس کی قدرکریں۔ محض ہماری تحریریں اورتقریریں ہمیں رمضان المبارک کی برکتوں
سے مستفید نہیں کرسکتی ۔کیونکہ یہ ماہ عملی ریاضت کامتقاضی ہے۔رمضان
المبارک ہمارے اندرصبروبرداشت کے ساتھ ساتھ ایثاراورہمدردی کاجذبہ
کرتاہے۔ہمارے اردگردکتنے ایسے لوگ موجودہیں ، جن کے گھروں میں اِفطارکے لئے
کچھ موجودنہیں ہوتا۔وہ سخت گرمی میں اورشدید پیاس کی حالت میں روزہ رکھنے
کے باوجودٹھنڈاپانی کے حصول کے قابل نہیں ہوتے اورجن کے گھروں میں افطاری
اورسحری کے وقت بمشکل پیٹ بھر کرکھانادستیاب ہوتاہے۔جبکہ دوسری طرف وسائل
سے مالاما ل لوگ رمضان المبارک کے ہرافطارمیں عید کاساسماں بناتے ہیں ۔
اپنے دسترخوان کو انواع واقسام کے کھانوں سے سجاتے ہیں اوربہت زیادہ پیسہ
اپنے اوراپنے اہل وعیال پر خرچ کردیتے ہیں لیکن انکے پاس غریب کو دینے کے
لئے ایک وقت کاکھانانہیں ہوتا۔ہمارایہی طرزعمل ہمیں رمضان المبارک کی اس
منزل پر فائزنہیں کرسکتا، جس کاہمیں اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیاہے اور نبی کریم
ﷺ نے بشار ت دی ہے ۔اﷲ تعالیٰ کے وعدے اورنبی کریم ﷺ کی بشارتیں صرف ان
لوگوں کے لئے ہیں ، جوحقیقی معنوں میں رمضان المبارک کی قدرکریں ، روزو ں
کو اسکے تقاضوں اوراداب کے ساتھ رکھے اوراپنی تقریر اورتحریرکے ساتھ ساتھ
عملی طورپر رمضان المبارک کی قدرکرے ۔ |