تین لڑکیوں کی کہانی
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صرف تین لڑ کیوں
کی کہانی نہیں نجانے کتنی لڑکیاں روز ہمارے معاشرے کے فرسودہ نظام اور
جہالت کی وجہ سے اپنی خوبصورت زندگی ارمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے
اپنے ساتھ دفن کرجاتی ہے۔ ایسے واقعات کے بارے میں سن کر میرے تو رونگٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں اور خود کو ان مظلوم ،معصوم اور بے گناہوں کہ ارمانوں
کاقتل سمجھنے لگتا ہوں کہ اے اﷲ ہم آپ کے پاس کیا منہ لے کر آئیں گے کہ ہم
ایک بے گناہ ، معصوم کے ارمانوں کا تحفظ نہ کرسکے اور ان معصوموں کو ظالم
سماج کے سامنے چھوڑ دیا۔دل کی بات تویہ ہے کہ ایسے واقعات کی وجہ سے اپنے
آپ کومسلمان اور انسان کہنابھی توہین ہے۔ آج ظلم کی انتہا تویہ ہے کہ ایسے
واقعات پر نہ صرف ہمارے نام نہاد مذہبی رہنما خاموش ہے بلکہ ماڈرن اور اپنے
آپ کوروشن خیال سمجھنے والوں نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہے۔حکو مت اور
قانون نافذ کرنے والوں سے کیا شگواہ کرے وہ توپہلے سے اس ظلم میں برابر کے
شریک ہیں۔مری کی ماریہ،ایبٹ آباد کی عنبرین اور لاہور کی زینت میں تم تین
سے معافی مانگتا ہوں کہ میں تم لوگوں کیلئے کچھ بھی نہ کر سکا ۔میں تم
تینوں کو اس ظالم معاشر ے سے نہ بچا سکا جس کا میں خود حصہ ہوں۔میں تم
تینوں سے التجا کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اﷲ کے حضور جب تم اپنا درد اور غم
بیان کروں گی اور ہماری سماج کی شکایت کروں گی اور اپنا قصور پوچھوں کی تو
مجھے ان ظالموں میں شمار مت کرنا جن کی وجہ سے تم لوگوں کی آرزوئیں اورمحبت
مٹھی میں دفن ہوئی تھی۔کاش کہ ہم نے ایبٹ آباد کے عنبرین کو انصاف دیا ہوتا
اور ان لوگوں کو سزا دی ہوتی جن کی وجہ سے عنبرین کوجلایا گیا۔ تو شاید یہ
ظلم روک جاتا۔ عنبرین تمہارا قصور یہ تھا کہ تم نے منافقت نہیں کی ، گناہ
نہیں کیا ، جھوٹ نہیں بولا، والدین کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ اپنی محبت کو
پانے کیلئے قدم اٹھایا ۔کاش تم ان وڈیروں ،خانوں اور پنچایت کے سرداروں کی
بیٹیوں کی طرح سب کچھ چھپ کر کرتی تو آج تم زندہ ہوتی ، آج تم کو کھلے
آسمان کے نیچے اس طرح بے درددی سے نہ جلایا ہوتا، تم تو چلی گئی ہو لیکن
تمہاری آہ وسسکیاں ہمیں ہر وقت تڑپاتی ہے اور ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم نے
تم کوبچانے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ہم آج بھی ان ظالموں کے خلاف کچھ نہ کر
سکے جن کے حکم پر تمہاری خوبصورت زندگی چھین لی گئی ۔عنبرین تم نے چلتے
چلتے بھی محبت کا درس چھوڑ دیا کہ جان تو چلی گئی لیکن محبت زندہ ہوگئی ۔
میں مری کی خوبصور ت پہاڑوں کی مالکہ ماریہ تم سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں تم
کو سماج کے ظالم رسم ورواج سے نہ بچا سکاجن کی وجہ سے تم نے اپنی معصوم
اورپاک محبت کی وجہ سے قربانی دی اور ظالموں نے تم کو مار ڈالا۔ماریہ تم نے
ثابت کردیا کہ اﷲ تعالیٰ نے جس محبت کی وجہ سے یہ دنیا بنائی ہے اس محبت کو
قائم ودائم رکھنے کیلئے تم نے اپنی جان کی قربانی دی اور ہمیں یاد دلایا کہ
محبت کرنے والے اور محبت پر جان قربان کرنے والے آج بھی زندہ ہے اور اپنے
خون سے اس شمع کو جلائے ہوئے ہیں۔
لاہور کی زینت تم نے تو محبت کو بچانے کے لئے خود اپنی ماں کے سامنے جانی
دی جس نے تم کوجنم دیا تھااسی نے تم کوجلا ڈالا، وہ ماں اس سانپ کی طرح
بھول گئی تھی جو خود اپنی بچوں کو کھا جاتی ہے۔اے ظالم سماج اور سفاک
معاشرے میں رہنے والی ماں تم یہ بھول گئی کہ تمہاری بچی نے کوئی گناہ نہیں
کیا تھا انہوں نے تو تمہاری عزت بچائی ،اپنے نبی کی سنت کو قائم رکھااور
شادی کی تھی ۔کیا شادی کرنا جرم ہے ؟کیا نکاح اپنی مرضی اور خوشی سے کرنا
جرم تھا؟۔ ان کے بھائیوں اور جنم دینی والی ماں کو زینت کی نکاح پسند کیوں
نہ آیا؟۔یہ بدبخت ماں اور ان کے بھائیوں تم کو معلوم نہیں کہ تم نے وہ ظلم
وجبر کیا جو اسلام سے پہلے ہوتا تھا ۔
یہ ظالموں تم لوگوں نے بے گنا ہ اور معصوم زندگیوں کا خاتمہ کرکے خود اپنی
زندگی تباہ کردی ۔ اے ظالموں تم کو معلوم نہیں کہ جس شخصیت اور ہستی کی وجہ
سے اﷲ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائی انہوں نے تو پیار اور محبت کادرس دیا ۔
انہوں نے تو ایسے اصول چھوڑے ہیں جس پر آج انسانیت کو فخر ہے۔ یہ بد بختوں
تم نے تو اپنے آقاکے تعلیمات کا جنازہ نکال دیا جس ہستی کی وجہ جہالت کی
تاریکی ختم ہوئی تھی تم لوگوں نے اس ظلم کو پھر سے زندہ کیا کہ جہالت کی
وجہ سے لوگ اپنے بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے تم لوگوں نے اپنے بہن بیٹیوں
کو زندہ جلایا ۔ اﷲ کے پیغمبر مصطفی نے تو اپنی بیٹی حضرت فاطمہ جو جنت کی
سردار ہے ان کا نکاح کراتے ہوئے پوچھا کہ اے فاطمہ تمہارا نکاح حضرت علی سے
کر وں۔وہ شخصیت اور پیغمبر اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے جس کو سب کام کرنے کی
اجازت میر ے اﷲ سے پہلی ملتی تھی لیکن ہمیں سمجھانے اور بتانے کیلئے کہ
اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے شادی کے معاملے میں پوچھا کرو اور ان کی مرضی کے
مطابق ان کی شادی کردیا کرو۔ نکاح تو اس وقت تک ہوتا ہی نہیں جب تک لڑکی
راضی نہ ہویا لڑکی کی مرضی شامل نہ ہو۔ اے جاہلوں اور ظالموں تم لوگ اس پر
شکر ادا کرو کہ تمہاری بیٹیوں نے نکاح کیا تھا، کیوں تم لوگ ان کے نکاح کے
خلاف ہو۔ جس دین اور نبی پر ہم اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہوتے
ہیں اس پیغمبر اسلام کے تعلیمات تو یہ ہے کہ لڑکی کی نکاح ان کی مرضی سے
کیا کرو ں ۔ رشتہ داروں میں نکاح ضروری نہیں ہے۔ میرے اﷲ نے جو اس کے نصیب
میں آسمان پر رشتہ لکھاہے اس پر اے نادانوں تم لوگ کیوں ناراض ہو۔کیوں اپنی
مرضی اپنے بچیوں پر لاگوکرتے ہو اور ان کی زندگی کے دشمن بنتے ہیں۔ سماج ،
رسم ورواج اور معاشرے کو چھوڑ وکہ لوگ کیا کہہ گے ، اﷲ کے فیصلے اور اپنی
بیٹی کی قسمت پر راضی ہوجاؤں اور ان کی خوشیوں کی قاتل نہ بناؤ بلکہ ان کو
دعائیں دوں۔میرا اﷲ تم لوگوں سے خوش ہوگاجس نے کہا ہے کہ ایک انسان کی جان
بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔
اے اسلام کے نام لینے والوں ، اے اسلام کے ٹھکیداروں تم قیامت کے دن عنبرین
،ماریہ اور زینت کو کیا جواب دوں گے جن کی خوبصورت زندگی کے خاتمے میں تم
لوگ بھی برابر کے شریک ہو۔اے مسلمانوں آوں عہد کریں کہ آئندہ ہم ایسے ظلم
وبربریت کو روکنے کیلئے ہر قدم اٹھائیں گے لیکن کسی عنبرین ، ماریہ اور
زینت کو قتل کرنے اور جلنے نہیں دینگے ۔خود ایسے ظلم کا نہ حصہ بننے گے اور
نہ ہی ایسے ظلم و بربریت پر خاموش رہیں گے۔ اپنے معاشرے سے جہالت کے خاتمے
کیلئے کردار ادا کریں گے۔ |
|