ہلاکت یافتہ لوگ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

محفل سجی ہوئی تھی اورحاضرینِ محفل بڑے ہی انہماک کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ان کی توجہ کا مرکز سامنے کھڑی عظیم ہستی تھی کہ جس کی عظمت و شان کے چرچے ہر سو عام تھے۔اچانک اس پاکباز ہستی نے حکم دیا:’’منبرسامنے لاؤ‘‘حاضرین حکم کی تعمیل کے لیے فوراً ہی ایسے اٹھے جیسے ہر ایک اس حکم کی تعمیل اپنے لیے باعث شرف سمجھتا تھا۔مگرکچھ ان میں سبقت لے گئے اورفوراًہی منبر سامنے لایا گیا۔منبر سامنے رکھ دیا گیا اوروہ پاک باز ہستی منبر کی جانب بڑھی۔یہ پاکباز ہستی کائنات کے سردار،خاتم النبیین،امام الانبیاء تھے۔ سب کی نظریں آپ پر پڑ رہی تھیں۔منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی آپ نے فرمایا:’’آمین‘‘پھردوسری سیڑھی پردوسرا قدم رکھا اور کہا:’’آمین‘‘پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا:’’آمین‘‘پھرآپ نے صحابہ کرام کو وعظ ونصیحت شروع کردی۔صحابہ کرام آپ کے اس آمین کہنے پر بہت حیران ہوئے مگر معاملہ ان کی سمجھ سے بالاترتھا اس لیے خاموشی سے بیٹھے رہے یہاں تک کہ آپ منبر سے نیچے اترتے۔ وعظ ونصیحت کی تکمیل کے بعد آپ منبر سے نیچے اترے۔توآپ پر اپنی جان نچھاورکردینے والے ساتھیوں نے فوراً ہی سوال کیا کہ:’’اے اﷲ کے رسول ﷺ !آج ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے اورکہتے سنا ہے پہلے کبھی آپ کو ایسا کہتے نہیں سنا۔یہ کیا معاملہ تھا کہ آپ منبر کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جارہے تھے اورآمین کہتے چلے جارہے تھے۔توآپ ان سے گویا ہوئے:’’کہ آج میں جیسے ہی منبر پرچڑھنے لگا تو جبرائیل علیہ السلام آگئے اورانہوں نے یہ کہا کہ:’’اس شخص کے لیے جنت سے دوری (ہلاکت)ہو کہ جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آیا مگر وہ اپنے گناہوں کو معاف نہ کرواسکا‘‘ تو میں نے کہا :’’آمین‘‘پھرجب میں دوسری سیڑھی پرچڑھا تو جبرائیل امین علیہ السلام نے فرمایا:’’اس شخص کے لیے بھی جنت سے دوری ہو کہ جس کے سامنے آپ ﷺ کاذکر کیا گیا اوراس نے آپ پر درود نہ بھیجا‘‘۔ تومیں نے کہا:’’آمین‘‘پھرجب میں تیسری سیڑھی پرچڑھا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:’’اس شخص کے لیے بھی جنت سے دوری ہو کہ جس نے اپنی زندگی میں بوڑھے والدین میں سے دونوں کو یاایک کو حالت بڑھاپے میں پایا مگر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوسکا‘‘۔تو میں نے کہا :’’آمین‘‘ یہ حدیث محدثین نے کتب ا حادیث میں سے مستدرک الحاکم میں ذکر کی ہے اورامام البانی رحمہ اﷲ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔

قارئین کرام!اس وقت ہم اپنے گردوپیش احباب پر نظردوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پچھلی دفعہ رمضان کے مہینہ میں جو ہمارے ساتھ موجود تھے اس بار وہ قبر کی کالی کوٹھری میں موجود ہیں۔موت اٹل حقیقت ہے اس سے کوئی جائے فرار نہیں۔یہ جب آتی ہے تو پھر بندے کومہلت نہیں دی جاتی اگرچہ اس نے کئی جھنجھٹوں کی گتھیاں سلجھانی ہوں۔اسے ایک لمحہ کی مہلت بھی نہیں ملتی بلکہ وہ اپنے اجل پر اس دنیا کو الوداع کہہ جاتا ہے۔رمضان سے ایک یا دو دن قبل کی بات ہے ہمارے ایک بہت ہی اچھے اورنیک صفت ساتھی کہ جواپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر پاکستان میں علم دین کی طلب میں جامعہ الدراسات میں زیر تعلیم تھے۔جامعہ کی سالانہ چھٹیاں بھی اپنے والدین کے ساتھ گزارنے کی قربانی دے کردورہ تفسیر القرآن کررہے تھے۔مگر موت نے انہیں آدبوچا ،موصوف صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد تلاوت قرآن میں مگن تھے مگراسی دوران رب کریم کی طرف سے بلاواآگیا اورتلاوت قرآن کے دوران ہی انہوں نے چیخ ماری اسی دوران ان کی روح پروازکرگئی۔جب قریبی ساتھی چیخ کی آواز سن کران کے پاس پہنچے تو وہ ٹھنڈے ہوچکے تھے۔اﷲ ان کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)یہ موت ہے کہ جب آتی ہے تو کچھ نہیں دیکھتی کہ یہ طالب علم ہے یااستاذہے،تاجر ہے یا مزدور ہے،امیر ہے یا فقیر ہے،کوٹھی بنگلے میں رہنے والا ہے یا جھونپڑی کاباسی ہے۔پیٹ بھر کرکھانا کھانے والا ہے یابھوکاپیٹ سونے والا ہے۔موت جب آتی ہے تو اسے ساتھ لے جاتی ہے مگر کا میاب وہ لوگ ہیں کہ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو۔

رمضان کریم جیسا عظیم الشان مہینہ ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتا۔بلکہ وہ لوگ خوش نصیب ہیں کہ جنہیں ایمان کی حالت میں اﷲ نے ایک بار پھر سے موقع دے دیا ہے۔کہ وہ اپنے گناہوں کو بخشواکرجنت جیسا عظیم الشان انعام پاجائیں۔حدیث کی کتاب سنن ترمذی میں حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اس شخص کا ناک خاک آلود(ہلاک ) ہوجائے جس کی زندگی میں رمضان کا عظیم الشان مہینہ آیا اوروہ مہینہ گزرگیا مگریہ بدبخت اپنے گناہوں کو معاف نہ کرواسکا۔تواس وقت ہم پر بھی یہ مہینہ سایہ فگن ہے۔ہم اپنی سابقہ طرزِ زندگی کی طرف نظریں دوڑائیں۔پہلے بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا اورجاتا رہامگر ہماراطرزِ حیات جیسا رمضان سے پہلے ہوتا ہے بعد میں بھی ویسا ہوتا ہے اگرچہ رمضان میں کچھ نیک ماحول کی وجہ کچھ نیکیوں کی توفیق مل بھی جائے مگر رمضان کے اختتام پذیرہوتے ہی ہم سابقہ روش پھراپنا لیتے ہیں۔تو یہ طرزِ زندگی ٹھیک نہیں ہے۔کیونکہ جب انسان اﷲ سے گناہوں کی توبہ کرتا ہے تو مقبول توبہ کی کچھ شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان سے جو غلطیاں سابقہ زندگی میں ہوگئیں وہ ان پر اﷲ سے معافی مانگے اورانہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑدے۔اس کے ساتھ ساتھ ان سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہوجائے۔مگرہماراطرزِ زندگی اس سے مختلف ہے۔ہم صبح جس گناہ سے توبہ کرتے ہیں شام میں پھر اس سے اپنے دامن کو ترکرلیتے ہیں۔اس سے اﷲ تعالیٰ کا غیض وغضب ہم پر نازل ہوسکتا ہے۔اﷲ ہمیں اس سے بچائے۔اس لیے اس وقت ہم دیکھیں کہ جو سستیاں اورکمزوریاں ہم میں آچکی ہیں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سچے دل سے توبہ کریں۔سچی توبہ کاطریقہ یہ ہے انسان اپنے رب کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائے۔سب سے پہلے اﷲ کی تعریف بیان کرے یعنی پوری سورہ فاتحہ پڑھے پھر حضرت محمدﷺ پر درود بھیجے یعنی درودشریف پڑھے۔پھراپنے گناہوں کواپنے سامنے حاضر کرے کہ اﷲ مجھ سے فلاں فلاں غلطی انجانے میں ہوگئی۔پھر اپنے رب سے اس یقین کے ساتھ معافی مانگے کے کہ صرف وہی معاف کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اسی کو اپناداتا،حاجت روا،مشکل کشا،مصیبتیں دور کرنے والا،پریشانیوں میں کام آنے والا مانے اوراس کے علاوہ کسی میں یہ اختیارات نہ سمجھنے کا یقین رکھے۔پھراپنی عاجزی اورکمزوری کا اقرار کرے کہ میں کمزور ہوں اورپھراﷲ کی عظمت وشان اوربرتری کا اقرار کرے کہ تیرے علاوہ میراکوئی نہیں جو مجھے معاف کرسکے۔اسی طرح اﷲ سے مکمل بھروسے سے توبہ کرے ۔جو غلطیاں کوتاہیاں اس سے ہوگئیں ان کی معافی مانگے،انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا عزم کرے اوران سے ہمیشہ بچتا رہے۔پھراپنی حاجات اﷲ کے سامنے یہ سوچ کر پیش کرے کہ تیرے سواکوئی انہیں پوراکرنے والا نہیں۔آخر میں پھردرودشریف پڑھے۔اﷲ تعالیٰ ہرانسان کی سنتا ہے اورقبول کرتا ہے۔مگر کسی کی جلدی قبول کرتا ہے کسی کی دیر سے قبول کرتا ہے یا کسی کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنادیتا ہے۔ضائع کسی کی نہیں کرتا البتہ انسان اپنی ناقص عقل کی وجہ سے اﷲ کے بارے میں بری سوچ رکھنا شروع کردیتا ہے کہ اﷲ میری سنتا نہیں اورفلاں کی ٹالتا نہیں۔ یہ غلط سوچ ہے اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اﷲ نے ہمیں پیدا کیا،ہمارے لیے رزق کا بندوبست کیا،ہماری حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کردیے،ہمارے تمام معاملات وہی چلا رہا ہے تو یہ کیونکر ہوگا کہ وہ کچھ کی تو سنے اورکچھ کی نا سنے ۔یہ ہمارے ذہنوں کی خرابی ہے۔ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا ہوگا۔اس لیے ممکن ہے یہ رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو پھر ہمیں موقع نہ ملے اورہم بھی وہاں اندھیری کوٹھری میں چلے جائیں جہاں ہمارے ساتھی جاچکے ہیں۔موت آجائے اورہمیں موقع نہ ملے اس لیے پہلے ہی توبہ کرلیں۔کہیں ہم بھی اس حدیث کے مصداق نا بن جائیں کہ جنہیں جبرائیل علیہ السلام نے بددعا دی اورآپ ﷺ نے آمین کہا۔اس لیے ابھی موقع ہے اسے مت گنوائیے بلکہ اس سے فائدہ اٹھائیے اوراپنے گناہوں سے توبہ کرکے اﷲ کی رحمتوں سے لطف اٹھائیے۔اﷲ ہمیں عمل والی زندگی عطا کرے۔آمین
 
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 21109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.