تحریر: ربیعہ امجد
کسی بھی معاشرے کی حقیقی معمار عورت ہوتی ہے معاشرے کو نکھارنے اور سنوارنے
کا فن اﷲ تعالی نے عورت کو عطا کیا ہے پڑھی لکھی عورت ان پڑھ عورت کی
بانسبت اپنے فرائض بہتر طور پر سر انجام دے سکتی ہے۔ اسی لیے مردوں کے ساتھ
ساتھ عورتوں کی تعلیم بہت ضروی ہے ۔ایک مرد کی تعلیم صرف ایک مرد کی تعلیم
ہوتی ہے جبکہ ایک تعلیم یافتہ عورت پورے پورے معاشرے کو سنوار نے میں اہم
کردار ادا کرتی ہے۔
عورت جس رشتے میں بھی ہو اس کے کچھ حقوق ہوتے ہیں،جن میں سب سے پہلا اور
بنیادی حق یہ ہے کہ اسے عزت واحترام دیا جائے۔ مگر ہمارے معاشرے میں آج بھی
کچھ ایسے افراد موجود ہیں جن میں زمانہ جاہلیت کی جھلک دیکھائی دیتی ہے۔
اگر یہ سوچ لیا جائے کہ مرد عورت پر حاکم ہے تو اس میں حاکمیت کی تمام
صلاحیتوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صرف یہ سمجھ لینا کہ ایک عورت اس کی غلام
ہے اور وہ جو چاہیے کرتا چلا جائے یہ شرعی اور سماجی دونوں طرح سے ناجائز
ہی ہوگا۔
صحیح بخاری مسلم شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ عورتوں کے معاملہ میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا
ہوئی ہیں اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔ اگر تو
اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو
وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں کے معاملہ میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو‘‘۔
اگر مفہوم سے کچھ ماخوذ کرنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ عورت کو سر سے
نہیں بنایا کہ سر پر بٹھالیں اور ناہی پاؤں سے بنایا کہ اس کو پاؤں کی جوتی
سمجھ لیں۔ پسلی سے بنایا کہ گویا یہ تمہارے دل کے قریب رہے اور تم اس کے
ساتھ محبت بھری زندگی گزارو۔ دوسری بات یہ کہ وہ کمزور ہے اور اس سے کمی
کوتاہی ممکن ہے۔ اس لیے لازم نہیں کہ اسے ٹھیک کرنے پر تل جاؤ اور مار مار
کے جان ہی لو لے۔ ظاہر سی بات ہے جب حدیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ وہ ٹیڑھی ہے اور ٹیڑھی ہی رہے گی تو بات ختم ہوگئی۔ اب اسے
سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔
موجودہ دور میں کچھ افراد دونوں جگہوں پر غلطی کی جاتی ہے۔ یا تو عورت حاکم
بن بیٹھتی ہے یا پھر محکومیت کی پستیوں میں گرتی چلی جاتی ہے اور شاید
معاشرے میں یہ رجحان بہت دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسری بات یہ ان کے حقوق کو
غصب کرلیا جاتا ہے۔ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر عورت کو محبت و وفا
کا پیکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا متعدد بار وہ مار کھا کر بھی مارنے والے
کے ساتھ پھر بھی حسن سلوک سے پیش آتی ے اور اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مارنے
والا بھی اس سے ہمیشہ اچھے کی ہی توقع رکھتا ہے۔
اﷲ نے عورت کو صبرواستقلال سے نوازا ہے وہ خود میں انا اور استقام کے جذبات
کی آگ کو جلنے سے پہلے ہی بجھا دیتی ہے مگر عورت کی اس خوبی کو مرد اس کی
بزدلی قرار دیتے ہیں بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہر سال 25 نومبر کو خواتین پر
تشدد کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر اس دن کی اہمیت اور مقصد
کو بلا دیا جاتا ہے۔ عورت کی عزت اور احترام کا فقدان نہ صرف نچلے طبقے کے
افراد میں پایا جاتا ہے کہ بلکہ جس قدر یہ اوپر کی سطح پر جاتا ہے اتنا ہی
عورت کی ذات بدنما داغوں سے مزین دیکھائی دیتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ اور
ترقی پزیر ممالک میں بھی عورتوں کے ساتھ غیر مساویانہ اور شرمناک سلوک روا
رکھا جاتا ہے۔
لڑکیوں کی کمی عمر میں جب انہیں شعور تک نہیں ہوتا کہ وہ کر سکتی ہیں اور
کیا نہیں کر سکتی شادی کردی جاتی ہے۔ عورت کو اشتہارات کی زینت بنا کر بھی
خوب چکا چوند معاشرے نے ذلیل کروایا۔ اسلام نے عورت کے رشتے میں احترام ہی
احترام بھر دیا ہے۔ اگر بیٹی بنایا تو اسے رحمت قرار دیا۔ اگر ماں بنایا تو
اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ اگر بہن بنایا تو محبت کا ایسا پیکر بنایا کہ
مر تو سکتی ہے مگر بھائی پر اٹھنے والے الفاظ تک کو برداشت نہیں کرسکتی۔
بیوی کے روپ میں خاوند کی جائداد و مال اور بچوں کا وارث بنایا دیا۔
اس وقت ہمارے معاشرے کی اس بہن بیٹی اور بہو کو در پیش مسائل جن میں تیزاب
پھینکنا، زیادتی کا نشانہ بنایا جانا، تشدد اور پھر قتل کردیا جانا، محبتوں
کا کھیل اور پھر زندہ جلا دیا جانا شامل ہیں ان کے پس پردہ حقائق پر روشنی
ڈالیں تو ہمارے سامنے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی ہے کہ ان میں اس
بیٹی، بہو کا شاید ہی کہیں قصور ہو۔ اسے تیزاب کا شکار صرف اس لیے ہونا پڑا
کہ اس نے کسی درندے کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے انکار کیا تھا۔اسے قتل اس لیے
کردیا گیا کہ اس محبت کے نام پر کامل یقین ہو بیٹھا تھا اور اسے کسی نے
نہیں بتایا تھا کہ یہ رستہ درست سمت نہیں جاتا۔ ماں نے تربیت کی ہوتی اور
باپ نے کچھ توجہ کے پل اور دست شفقت رکھا ہوتا ہے تو یقینا کوئی اس کے رشتے
کی بھیک مانگنے اس کی دہلیز پار نہ کرتا اور نہ ہی کوئی گھر میں گھس کر
گولیوں کا نشانہ بناتا۔ اگر والدین اپنے بیٹوں کی تربیت کرتے تو شاید مری
اور لاہورمیں زینت کو زندہ آگ سے جل کر جان جان آفرین کے نام کرنی پڑتی۔
حکومت نے حقوق نسواں پر بل تو منظور کر لیا ہے مگر اس پر عمل درآمد ہونے کی
زحمت کون کرے۔ یہ بات بھی ہے کیا وہ کریں عمل درآمد کہ جن کے فلوروں سے
شباب و کباب کی بو آتی ہو۔ حقوق نسواں بل کی کاپی پر دستخط کون کرے گا جن
کا اپنا معاشرے مخلوطیت سے بھرا پڑا ہو۔ آئین پاکستان میں اٹھارویں ترمیم
کے بعد صوبائی اسمبلیوں نے صحت، تعلیم روزگار اور دوسرے بنیادی حقوق کے
ساتھ ساتھ گھریلوں تشدد کی روک تھام اور تحفظ نسواں بل کی صورت میں عبور
کیا ہے۔ مگر یہاں تو قانون بنتے ہی کمزوروں کے لیے ہیں۔ ایک منسٹر کا رشتے
دار اگر کسی کی بیٹی کو روند ڈالے تو وہ فیشن کہلاتا ہے اور کوئی کمزور کچھ
نہ بھی کرے تو وہ حکومتی سرپرستی میں پنجایت کے فیصلے مطابق قتل کا حق دار
قرار دے دیا جاتا ہے۔
’’گھر اپنا بچانا ہے تو نے تو بھائی کے گھر کی آگ بجھا‘‘ ہمیں بڑھتے حادثات
و اقعات میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ غلطی کہاں ہورہی ہے اور اس
غلطی کا منبہ کیا یہ اسے دیکھنا ہوگا۔ قانون ہزار بن جائیں مگر عمل درآمد
کے لیے اگر ایک کیس پر بھی پیش رفت کر کے نشان عبرت بنا دیا جائے تو شاید
ہی اس کے بعد کوئی کیس سامنے آسکے۔والدین بھی اپنی تربیت کا مشفقانہ کردار
ادا کریں۔ بچوں کو اپنے سے دور کرنے کے بجائے انہیں اپنا دوست بنائیں۔ کیا
ضرورت ہے انہیں خود کا باغی بنا کر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا
ہے۔ خواتین کی عزت و احترام کریں۔ انہیں تعلیم و تربیت میں اولین ترجیح دیں
یاد رکھیں آج آپ ایک اچھے معاشرے کے متلاشی ہیں تو اچھی تربیت کی حامل
بچیاں اس معاشرے کو فراہم کریں۔ |