دوست اور دشمن کی پہچان

پاکستان میں ایک غریب آدمی کے پاس فریاد کرنے کے لئے مزارات اور آستانے ہی رہ گئے ہیں۔ جہاں دنیا سے ٹھکرائے ہوئے، مشکلات، پریشانیوں سے چور، الم رسیدہ افراد ڈیرہ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ لوگ آزادی سے اپنے دکھ اور غم کی بپتا سناتے ہیں، فریاد کرتے ہیں۔ مرادیں مانگتے ہیں۔خ وشیاں ہوں یا غم ان مزارت اور بزرگوں کے خانقاہیں ہمشہ پر رونق رہتی ہیں۔ یہاں پڑاﺅ کرنے والوں کو کبھی کھانے کی فکر نہیں ہوتی۔ نہ ہی کسی آستانے پر کوئی بھوکا سوتا ہے۔ حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا مزار بھی ان مراکز میں سے ایک ہے جہاں لوگ سکون کی تلاش میں جاتے ہیں۔ لیکن اب مزارات پر سیکورٹی کے نام پر ان غریبوں اور بے مکان لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ داتا گنج بخش کا زمانہ (400ھ تا 465ھ / 1009ء تا 1079ئ) کا ہے۔ ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گاﺅں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمة اللہ علیہ سے پائی۔ مرشد کے حکم سے 1039ء میں لاہور پہنچے۔ اور یہیں کے ہو رہے، کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ لاہور جانے والے داتا دربار پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں ایک ہزار سال سے داتا دربار لاہور، عوام کے لئے کھلا ہوا ہے۔ لیکن داتا دربار پر جو دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس پر ہر آنکھ نم اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پہلے مساجد پر دہشت گردی کے حملے ہوئے اور مساجد کو تالے لگا دیئے گئے۔ اب مساجد نماز کے اوقات پر کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔ اب کوئی مسافر مسجد میں شب نہیں گزار سکتا۔ کیا اب مزارات اور آستانے بھی اس کڑے وقت سے گزرنے والے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو لاکھوں غریب بے موت مر جائیں گے۔ یہ مزار اور خانقاہیں غریبوں کی لائف لائن ہیں۔ سیاست دانوں نے اس انسانی المئے کو بھی اپنی سیاست کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ سیاست ہی کہ شعبدہ بازیاں ہیں۔ جنہوں نے ہمیں اس حال کو پہنچایا ہے۔ ہمیں ایک بار پھر سوچنا چاہئے کہ ہم یہ جنگ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بھوک سے بلکتے، اور خودکشیوں کے سیلاب میں کیا ہم اپنے عوام کو وہ کچھ دے رہے ہیں جس کے وہ متمنی ہیں۔ ہم نے سارے وسائل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیئے ہیں۔ پورا ملک میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے ہاتھ میں اس دہشت گردی کا سرا نہیں آرہا۔ ہماری انٹیلیجنس، ہمارے دعویٰ اور ہماری تحقیقات ایک ڈھونگ، اور پبلیسٹی انسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومتِ نے ایک بار پھر دہشتگردی سے نمٹنے کی کوششوں پر بات چیت کے لیے آئندہ ہفتے قومی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ کانفرنس کی تجویز مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے دی ہے۔ انہوں نے پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ حکومت طالبان سے بات چیت کرے وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت ریت میں سر ڈال کر خطرہ نہیں ٹال سکتی‘ مسلم لیگ نون کے قائد کا کہنا ہے کہ اس قومی کانفرنس میں فوج اور سکیورٹی اداروں کی رائے بھی لی جائے۔ گزشتہ برس سوات اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن سے قبل بھی ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس کاروائی کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا۔ کیا ہم نے اس بات چیت کو آگے بڑھایا۔ ملک کے موجودہ حالات ایک سیاسی عزم چاہتے ہیں۔ جس پر ہمیں تمام سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ چھ سال سے ملک دہشت گردی کی زد میں ہے لیکن اتنا عرصے گزرنے کے باوجود حکومت انتہا پسندی کی روک تھام اور اس کے انسداد میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک طے نہیں کرسکے کہ ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419157 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More