تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

امریکا میں ہم جنس پرستوں کے کلب میں فائرنگ کے واقعے سے یورپ سکتے میں ہے ، امریکہ ابھی تک غم سے باہر نہیں نکل سکا۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کی تباہی کیلئے حضرت لوط علیہ السلام کی مثال سے دنیا عالم کو بتا دیا تھا کہ ترقی کا وہ معیار ،جنسی آزادی کی وہ زنجیریں ، جو اخلاقیات کے قیود میں فلاح انسانیت کے لئے ہوتی ہیں ، اگر توڑ دی جائیں، تو اس کا حشر قومِ لوط کی طرح ہوتا ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اور ان کی اہلیہ کو اسی لئے اﷲ تعالی نے نابود کردیا تھا ، کیونکہ انھوں نے ہم جنس پرستی میں تمام حکام اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ دیا تھا ، اﷲ تعالی کی جانب سے بھیجے جانے فرشتوں نے حضرت لوط علیہ اسلام کو واضح حکم الہی دے دیا تھا کہ اب انھیں اپنی قوم کو چھوڑنا ہوگا، یہاں تک کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ہم جنس پرستی کی حمایت کی وجہ سے عتاب خداوندی کا شکار ہوئی اور اسے ، اس بنا ء پر کوئی استثنا حاصل نہیں ہوسکا کہ ، وہ نبی کی زوجہ ہیں ۔ جب اﷲ تعالی کا قانون گرفت میں لیتا ہے، تو سب کچھ آناََ فاناََ تباہ و برباد کردیتا ہے ، مہلت کا وقفہ ختم ہوتے ہی تباہی مقدر بن جاتی ہے ۔ قدرت کے مجرم ہیں وہ حلقے جوہم جنسی پرستی کے اس راستے پر گامزن ہیں ، جس پر بد بخت حضرت لوط علیہ السلام کی قوم رواں تھی ،اس میں اس بات کی کوئی تخصیص نہیں ہے کہ کسی کا کیا مذہب ہے ، لیکن اﷲ تعالی نے خوائش نفسانی کے فطرت کے حلال ذرائع مہیا کئے ہوئے ہیں ، لیکن بد بخت انسان ، اپنی خدائی میں رب کائنات کے متعین کردہ اصولوں و قوانین کو نظر انداز کرتا جا رہا ہے بلاشبہ یہ انسانوں کا قتل تھا ، بلا شبہ کسی انسان کا قتل ، پوری انسانیت کو قتل کردینے کے مترادف ہے ، لیکن یہ حق بھی کسی انسان کوحاصل نہیں کہ بے راہ روی کے ناہموار راستے میں شتر بے مہار چلتا ہی چلا جائے اور یہ سمجھے کہ اس کا کوئی مکافات عمل نہیں ہوگا ، یا اس کے لئے کوئی میزان نہیں کھڑی کی جائے گی۔ہم جنسوں نے یورپ میں ایک سالانہ پریڈ کی اور اس سالانہ پریڈ کے موقع پر وسطی یورپ کے متعدد ممالک کے دارالحکومتوں میں ہزاروں ہم جنس پرست مرد او خواتین نے جلوس نکالے اور امتیازی برتاؤ اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ بلغراد کے دارلحکومت صوفیا اور ہنگری کے صدر مقام بوداپست میں سینکڑوں ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں نے سالانہ پریڈ میں حصہ لیا، جن کی حفاظت کیلئے پولیس کے سینکڑوں اہلکار ان کے ساتھ چل رہے تھے ۔ہم جنس پرست اپنے مخالفین کو قدامت پرست کہتے ہیں کہ انھیں قدامت پسندوں سے خطرہ ہے۔ہم جنس پرستوں کا سب سے بڑا جلوس آسٹریا کے دارلحکومت ویانا میں نکالا گیا تھا ، اس موقع پر ہزاروں افراد نے سٹی ہال میں منعقد ہونے والے ایک تقریب میں شرکت کی ، تقریب میں ہم جنس پرستوں نے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی شناخت تسلیم کئے جانے پر خوشی کا ظہار کیا تھا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یونان میں ہم جنس پرستی کو ’ سول یونین ‘ حقوق دیئے جانے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا تھا ،یونان کی پارلیمنٹ میں ‘ سول یونین ‘ کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کیا گیا ، جس میں ہم جنس پرست جوڑوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔اس قانون کے تحت جنسی طور پر مختلف رجحانات و میلانات رکھنے والے افراد کو متعدد شہری حقوق میسر حاصل ہیں۔گو کہ اس قانون پر تنقید کا سخت سلسلہ بھی شروع ہوا لیکن اس قانون کے تحت ہم جنس پرست جوڑوں کو جائیدار اور ورثے کے حقوق بھی دیئے گئے ہیں۔لیکن اس قانون میں مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد LGBTکیلئے بچے گود لینے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔اس وقت یونانی وزیر اعظم "الیکسپراس "نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہـ" یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے یونان میں انسانی حقوق کے حوالے سے آج کا دن انتہائی اہم ہے ".۔محبت کوئی گناہ نہیں ، کہ تصور نے انسانیت کو پاتال کی گہرائیوں میں پھینک دیا ہے ۔ محبت کے نام پر مرد و عورت کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنے، اور باعزت خاندانوں کی پگڑی اچھالنے کی حوصلہ افزائی سے لیکر ہم جنس پرستی کے پست معیار تک کی حوصلہ نے پوری دنیا کو حضرت لوط علیہ السلام کے دور میں جا پھینکا ہے۔19ویں صدی تک ہم جنس پرستی کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا تھا ، قانون کی نظر میں یہ بد فعلی نہ صرف قابل سزا موت تھی ، ماہرین نفسیات کو یقین تھا کہ اس کا علاج کیا جاسکتا ہے ، اس وقت یہ نظریہ عام تھا کہ یہ ایک بیماری ہے۔لیکن20ویں صدی میں ان نظریات میں تبدیلی آگئی ۔ہم جنس پرستی کو عالمی مرض Pathologicalکے طور پر نہیں بلکہ مختلف حالت کے اعتبار سے دیکھے جانے لگا۔اسگمنڈ فرائڈ اور ہیولاک کی طرح کچھ ماہرین نے ہم جنس پرستی پر مزید قابل قبول موقف اختیار کیا ہے۔ فرایڈ اور ایلس کا خیال تھا کہ کچھ افراد میں ہم جنس پرستی عمومی نتیجہ کے طور پر ابھرتی ہے ، الفریڈ کینسے کی ریسرچ اور مطبوعہ تحریرات میں سماجی اور ثقافتی نقطہ نظر کے تحت اس سے متعلق ابنارمل حالت سے دوری اختیار کی گئی۔ نفسیاتی مطالعہ میں اس نقطہ نظر کی منتقلی کو پہلی مرتبہ 1952میں Diagnostic Statistical Manual (DSM)کے ورژن میں پیش کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے ، لیکن 1973 میں ایسے حذف کردیا گیا۔اقوام متحدہ تمام اداروں رکن ملکوں کو ہم جنس پسندوں کے حقوق کی تلقین کرتا ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی سختی سے کاروائی کی جائے ، جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ہوتی ہے۔آج مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کے حامی جہاں اسے ایک انسانی حق تسلیم کرتے ہیں ،وہاں اس بد فعلی کی حمایت میں بائیو کیمسٹری کے کچھ تصورات کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ہم جنس پرستوں کا دعوی ہے کہ انسان کے جسم دماغ میں کچھ ایسے کیمیکلز ہیں ، جن کے باعث اس کا فطری میلان صنف مخالف کی طرف ہوجاتا ہے۔یہ میلا ان کے ڈی این اے میں بھی پایا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بد کاری اختیار نہیں ہوتی اس لئے معاشرے کو ہم جنس پرستوں کو قبول کرلینا چاہیے ، لیکن معاشرے کو بُرے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے ہم جنس پرستوں میں پائے جانے والے کیمیکلز کا علاج کیا جانا چاہیے، جینز اور ڈی این اے کا مفروضہ ایک غیر ثابت شدہ پراپیگنڈا ہے۔تحقیقات کے مطابق لوگ کم عمری میں بری صحبتوں کا شکار ہوکر اس گناہ کے عادی ہوجاتے ہیں۔عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے، کسی اچھے ماہر نفسیات بالخصوص ہپناٹسٹ یا پھر سائیکاٹرسٹ کی مدد سے ان عادات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم جنس پرستی نے انسانی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ جنسی بے راہ روی کے دوسرے اقدام میں ، ہم جنس پرستی انتہائی غیر صحت مندانہ رویہ ہے ، جو خطرناک امراض کا سبب بھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہم جنس پرستوں کے عمر عام انسان کے مقابلے انتہائی کم ہوجاتی ہے۔ اوسطاََ20 سال کم عمر پاتے ہیں ، یعنی ایک عام صحت مند کی طبیعی زندگی سے ہم جنس پرست کی عمر 20سال ہو تی ہے۔ہم جنس پرستی کے سبب مختلف امراض کے پھیلاؤ سے کم ازکم 40ملین افراد کے موت کی نقیب بن چکی ہے۔دنیا کے تمام معاشروں میں ہم جنس پرستوں میں HIV ایا ایڈز پھیلانے کے حوالے سے اس عمل کو خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ہم جنس پرستی کی سبب بعض ممالک میں افزائش نسل کا سلسلہ رک گیا ہے ، جس بنا پر بعض ممالک میں بچوں کی پیدائش پر بونس کا اعلان تک کیا گیا ہے۔ مغرب و ،مغرب نوازنے آزادی کے نام پر جو فحاشی ، جسم فروشی اور دیگر غیر فطری افعال کی باقاعدہ قانونی اجازت دے رکھی ہے ، اس کے نقصانات سے وہ کبھی بری الزما نہیں ہوسکیں گے ۔ کسی بھی انسان کا قتل ، چاہیے اس کا فعل کتنا ہی نا پسندیدہ ہو ، مناسب نہیں ہے ۔ لیکن مغرب نے نوجوانوں میں جو جنسی بخار برپا کیا ہوا ہے ، اس سے ان کا ہی نہیں پوری دنیا کی معاشرت کو نقصان ہے۔ جس کے سدباب کے لئے انھیں غور و فکر کرنا ہوگا ۔کیونکہ انہی کی تہذ یب کے ساتھ دنیا کو بھی خطرہ ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 295947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.