دعا،اک جرم؟

کبھی کبھی میراقلم بڑی اجنبی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگتا ہے۔میں اسے رنگارنگ موضوعات کے بہارآفریں جزیروں کی طرف لیجاتاہوں لیکن دل میں ایک خلش سی موجودرہتی ہے جیسے میں اس سے بیگارلے رہا ہوں،جیسے جبری مشقت لینے کیلئےگناہِ کبیرہ کا ارتکاب کر رہا ہوں اور ابھی کوئی ضمیر کی وردی پہنے میرے وارنٹ گرفتاری لیکر میرے پاس آن دھمکے گا۔

سچ تویہ ہے کہ بھارتی ہندوظالم درندوں کے نرغے میں قید کشمیری مجاہدین ہوں یارمضان المبارک کے مہینے میں غزہ کے باسیوں کیلئے پانی کی مکمل بندش کے جواب میں ان کاعزمِ صمیم،امریکا کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے اور اس کی رعونت پرخاک ڈالنے والے مردِ جری افغان طالبان کی جنوں خیز کہانیاں کہنے،ان کے پہاڑوں جیسے یقین کی داستانیں لکھنے اوران کے فولاد جیسے غیرمتزلزل ایمان کی حکایات بیان کرنے کے بعدحرف وبیان کاکوئی اسلوب، شوخٔی تحریر کاکوئی ساانداز اورموضوع کاکوئی سااچھوتاپن دل کوبھاتا ہی نہیں۔جری لوگوں کی کہانیوں کااپناجادوہوتاہے۔ان کی پیشانیوں پر مصنوعی خداؤں کے حضورسجدہ ریزی کاکوئی داغ نہیں ہوتا۔ان کے لازوال ایمان ویقین کی اجلی چادرپر کسی مصلحت کی ادنیٰ سی آلائش بھی نہیں ہوتی۔ان کی سوچ مستقیم راستوں کی طرح ہرپیچ وخم سے پاک ہوتی ہے اوران کے منہ سے نکلنے ہوئے الفاظ نئے زمانے کی بشارتیں بن جاتے ہیں۔

جس طرح خوشی کے ہرموقعے پربچھڑجانے والے پیاروں اوردوردیس بیٹھے عزیزوں کی یادبڑی شدت سے ستاتی ہے آج میرا دل بھی دردسے بھرگیاہے۔ میرے قلم نے بغاوت سی کردی ہے کہ وہ کم از کم آج عہدوں،کرسیوں اور منصبوں کیلئے ہلکان ہوتی مخلوق اورضمیرجیسی گراں بہادولت کے عوض مٹھی بھرمراعات کا سوداکرنے والے کیڑوں مکوڑوں کا تذکرہ نہیں کرے گا۔میں ایک مدت سے شعوری کوشش کررہاہوں کہ بھرجانے والے زخموں کونہ چھیڑوں لیکن زخم بھرے ہی کب ہیں؟

برکتوں،سعادتوں،نعمتوں اوررحمتوں والے رمضان المبارک کے مہکتے شب وروزدلوں میں عجیب سرورسابھر دیتے ہیں۔اذانوں کی مشکبوگونج سے معطر فضائیں،آبادمسجدیں،قرانِ کریم کی تلاوت،حمدونعت کے زمزمے،آخر شب کی بیداریاں،سحر خیزی کی لذتیں،یہ سب کچھ روح کوشاداب کردیتاہے۔پھرعید کی چاپ سنائی دیتی ہے اوربانجھ آنکھیں بھی خوابوں سے لبالب بھرجاتی ہیں ۔دور دیس کے قافلے اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں،بوڑھوں کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی سی چمک اٹھتی ہے اور مائیں ڈیوڑھی کی چوکھٹ کاحصہ ہوجاتی ہیں کہ آنے والے پرپہلی نظر انہی کی پڑے۔یہ سب کچھ انسانی جذبوں،لافانی محبتوں اور دائمی رشتوں کے سدابہار رنگ ہیں۔لیکن میں سار ارمضان المبارک لندن میں موجود رہتے ہوئے کبھی کشمیر جنتِ نظیر کے حسین مرغزاروں، کبھی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اوراب توبیت المکرّم ڈھاکامیں ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے ساتھ گھومتارہتاہوں ۔ شوپیاں کے کوہساروں میں شہیدہو جانے والی مبارک اور کامیاب روحوں۲۲سالہ نیلوفراور۱۷سالہ اسکول کی ہونہار طالبہ آسیہ کودریائے رمبی کے گہرے پانیوں میں پکارتاہوں،کبھی سرینگر کی سڑکوں پرآزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے معصوم طفیل متواوردیگر نوجوان شہیدوں کے خون سے تر بتر سڑکوں پرگھومتارہتاہوں۔ کبھی کوہِ سفید پر کھڑے ہوکرآوازدیتاہوں،تورابورا کے ہرغارکے دہانے پرجاکرپکارتاہوں،دشتِ لیلیٰ کے بیچوں بیچ کھڑے ہوکر صدالگاتاہوں،قلعہ جنگی کے تہہ خانوں میں تلاش کرتاہوں، قندھار میں دریائے ارغنداب کے پانیوں سے پوچھتاہوں،کبھی قصرسفیدکے فرعون کے حکم سے ڈرون حملوں میں پرخچے اڑائے جانے والے راہِ حق کے مسافروں کے سفرِ آخرت کے بارے میں سوچتاہوں اورکبھی متحدہ پاکستان سے وفاکے جرم میں پھانسی کے پھندے پرجھول جانے والے البدروالشمس کے مجاہدین کوآوازدیتا ہوں لیکن بچھڑ جانے والوں کاکچھ پتہ نہیں چلتا۔

سحروافطارکےہرلمحے اس خیال نے میرے دل پرنشتر چلایاکہ وہ کس حال میں ہو ں گے؟نازونعمت میں پلے ہوئے وہ نوجوان جواب فرعونی طاقتوں کو مطلوب ہیں،انہوں نے کس طرح روزہ افطار کیاہوگا، کوہستان کے ان جری مجاہدین کو پانی کے گھونٹ بھی میسر ہوں گے؟مظلوم ومقہور کشمیری بھارتی درندوں کے خوف سے کس حال میں افطاری کاموسم گزاررہے ہوں گے؟اس رمضان المبارک کے اختتام پرجب عید اپنے دامن میں خوشیوں کے سارے رنگ بھرے ہمارے گھروں میں خوشبوئیں بکھیررہی ہوگی،مائیں اپنے بچوں کے ماتھوں کوچوم رہی ہوں گی،مدتوں بعداپنے اپنوں سے گلے مل رہے ہوں گے، بچے نئے کپڑے پہنے عیدی کیلئے مچل رہے ہوں گے اوردسترخوان رنگارنگ کھانوں سے آراستہ ہوں گے تومعصوم سوزین اپنی ماں نیلوفرکوکہاں ڈھونڈے گا؟آسیہ کی سہیلیاں سکھیاں عیدکیسے منائیں گی؟ان پریہ عید کیسے گزرے گی جوخون جما دینے والی ان ٹھنڈی راتوں کی اس رت میں شہادت کی تمنالئے نجانے کن سیاہ پہاڑوں کی اوٹ میں بیٹھے ہوں گے؟گوانتانا موبے کیمپ کے ان باقی ماندہ قیدیوں پر کیابیت رہی ہوگی جواب بھی نارنجی وردیوں میں لپٹے پنجروں میں بند پڑے ہوں گے؟

وطنِ عزیزکی بیٹی عافیہ صدیقی آسمان کی طرف منہ اٹھاکراپنے رب کے حضورکیسی کیسی فریاداورمناجات کر رہی ہوگی؟اسی قصرِ سفیدکے باسی صدر کلنٹن کوریاکی دولڑکیوں کوجو امریکا کی شہری بھی نہیں تھیں، صرف امریکا میں رہنے کاحق حاصل تھا،کواپنی طاقت کے بل بوتے پررہاکرواکے اپنے ملک کاہیروبن گیا تھا،آج اس دہرے کردارپرشرمندہ توہوگا۔ افغانستان کے کسی گمنام گوشے میں ملاعبدالسلام ضعیف اپنے زخموں کوسہلاتے ہوئے اس سوچ میں گم ہوگاکہ اسلام کاقلعہ کہلانے والاپہلااسلامی ایٹمی ملک پاکستان اتناکمزورکیسے ہوگیاتھا کہ جنیواکنونشن کے تحت اس کوسیاسی پناہ تک نہ دے سکا بلکہ خوداس کوبڑے ظالمانہ طریقے سے گھسیٹتے ہوئے قصرِ سفید کے فرعون کے حوالے کردیا۔ گوانتاناموبے کیمپ کے ان قیدیوں کی مائیں بھی ہوں گی ، بھائی بہنیں اور باپ بھی ہوں گے،بیویاں اوربچے بھی ہوں گے،آمنہ مسعودجنجوعہ ہاتھوں میں ہزاروں گمشدہ پیاروں کی تصاویر ہاتھوں میں تھامے اسلام آباد کی سڑکوں پر ماری ماری پھرتی بھی اب تھک گئی ہوگی، عید کی پری اپنے سر پرمسرتوں کی ٹوکری لئے ان کے گھروں میں بھی آئے گی تویہ سب ضرورسوچیں گے کہ یہ کون ہے جوہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے آگئی ہے؟

کشمیر،چیچنیا،فلسطین اورعراق ہرجگہ دل دہلادینے والاایک ہی منظرہے لیکن کشمیراورافغانستان کی یاداس لئے سینے میں نیزے کی انی کی طرح پیوست ہو گئی ہے کہ خودمیرے ملک کے چند ظالم اورفاسق افراد کے ہاتھ ان شہیدوں کے لہوسے رنگین ہیں ۔میرادکھ یہ ہے کہ گوانتاناموبے کے پنجروں میں بند قیدیوں کی اکثریت میری سرزمین پرشکارکئے گئے اورجن کے بدلے میں بڑے فخرسے ظالم اورفاسق کمانڈوجنرل نے بھاری مقدارمیں ڈالروں کووصول کرنے کا تحریری اعتراف بھی کیا۔ میرادکھ یہ ہے کہ میں ان کا اپناہوتے ہوئے،ان سے ایک لازوال رشتہ رکھتے ہوئے اس لشکر کاحصہ بن گیاجس کے ڈیزی کٹربموں نے ان کی بستیوں کوراکھ کردیا۔ان کے وجودکے پرخچے اڑا دیئے۔میرادکھ یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈسنٹر کے ہلاک شدگان کے نام توپورے شجرہ نسب کے ساتھ طلائی پلیٹوں پرکندہ کردیئے گئے اوریہ پلیٹیں اس جگہ تعمیرہونے والی یادگارمیں نصب کردی گئیں لیکن ہمیں توآج تک اتنابھی معلوم نہیں ہوسکاکہ حرماں نصیب دھرتی کے کتنے لوگ قہرِفرعون کی بھینٹ چڑھ گئے اورکتنوں کی زندگیاں جہنم زاروں میں جھونک دی گئیں۔ایک لاکھ سے کہیں زیادہ توکشمیرجنتِ نظیر میں ذبح کردیئے گئے لیکن دہرے معیاروکردارکے حامل امریکااور اس کے حلیف نیٹو کی بات چھوڑئیے جوآج انہی ظالم ہندوبنئے کے گلے میں بانہیں ڈال کرسچ اورانصاف کو للکاررہے ہیں لیکن کبھی ہم نے سوچاکہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی نشانی بیماراور ضعیف سیدعلی گیلانی اوربہن آسیہ اندرابی کے دل پرکیابیت رہی ہوگی جب نواز شریف لاہورکے ہوائی اڈے پربانہیں پھیلائے مودی کوگلے لگاکراپنی ذاتی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں اس کی ضیافت میں مصرووف تھا ۔کبھی سوچاہے کہ کل یوم آخرت کوملاعبدالقادر،مطیع الرحمان نظامی اوران کے دیگرتمام ساتھی۲۷رمضان المبارک کومعرضِ وجودمیں آنے والی معجزاتی ریاست پاکستان کی حرمت پر پھانسی کے پھندوں پرجھول جانے اورقربان ہونے کی داستان سنائیں گے تویہ ہمارے حکمران پاناماآف شور کمپنیوں ،سرے پیلس،غیرملکی بینکوں میں محفوظ لوٹی ہوئی دھن دولت،کمیشن،کک بیکس، دیگرکرپشن اوربدعنوانی کے بوجھ تلے کس حال میں ہوں گے؟

ہمارے ہاں ایک کہانی برسوں سے چل رہی ہے کہ عیداورشبِ برآت جیسے تہواروں کے مواقع پرمرجانے والے کی ارواح اپنے عزیزوں کے گھروں کی منڈیروں پرآتی ہیں۔ جب وہ اپنے چاہنے والوں کو مغفرت کی دعائیں اورفاتحہ خوانی کرتے دیکھتی ہیں توبڑی آسودگی پاتی ہیں۔''سیف الملوک''کے مصنف، کشمیراورپنجاب کے عظیم صوفی بزرگ شاعر محمدبخش اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔انہوں نے ایک درد انگیز شعر کہا تھا؛
عیداں تے شبراتاں آسن،روحاں جاسن گھرنوں
تیری روح محمد بخشا، تکسی کیہڑے درنوں
(عیدیں اورشبراتیں آئیں گی،روحیں اپنے گھروں کوجائیں گی لیکن اے محمد بخش! تیری روح کون سا دروازہ دیکھے گی؟)

آج بس اتنی سی گزارش ہے کہ رمضان المبارک کے اس مہینے اورعید پر جب اپنے بچھڑجانے والوں کیلئے دستِ دعااٹھائیں توان پاکبازشہیدوں کوبھی یادرکھیں جن کی مقدس روحیں اپنے گھروں کونہیں آسکتیں کہ ان کے گھروں کے مکین باقی رہے نہ چھتیں اورنہ منڈیریں۔اس عیدکے دن جب اپنوں کی سلامتی اوردرازیٔ عمرکی دعامانگیں توانہیں نہ بھولیں جواجنبی جزیروں اوربے نام گھاٹیوں میں اذیتیں جھیل رہے ہیں اور جن کیلئے بلند آواز سے دعا مانگنا بھی اب جرم ٹھہرا ہے۔

رہے نام میرے رب کاجومظلوموں کی دعاؤں کوقبول کرنے والااوربہترین اجر دینے والاہے۔
 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.