بائیکاٹ

رمضان کی آمد پر ہر سال میں دو باتیں بھول جاتا ہوں ۔ اگرکبھی بھولتا نہیں تو یار دوست یاد کروادیتے ہیں تو شرم کے مارے عمل نہیں کر پاتا۔آٹھ سال پہلے کا دن گزرے کل کی طرح یاد ہے جب ظفر صاحب میرے پاس آئے کہ آؤ بینک چلیں اپنی چیک بک لے لو ۔میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آج یکم رمضان ہے میں بینک اپنے اکاؤنٹ سے پیسے لمحاتی طور پر نکالنے جا رہا ہوں تم بھی چلو بینکوں کو زکوۃ دینا جائز نہیں ۔یہ سب سود کا نظام ہے اور زکوۃ کے نام پر ہر سال لوٹ مار کرنا بھی نہیں بھولتے۔بات ان کی بھی ٹھیک تھی مگر میرا دل پھر بھی ان کے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوا کہ جو تھوڑا بہت بینک میں موجود ہے اگر بینک والے زکوہ کا نام لے کر پیسے کاٹنا چاہ بھی رہے ہیں تو میرا فرض ہے کہ میں ان پر اعتبار کروں زکوۃ دوں آگے ان کی نیت کہ وہ کیا کریں ۔سود کا نظام چلانے والے بینک اگر نیکی کا کام کرنے کی حامی بھر رہے ہیں تو ان پر اعتبار کرنا چاہیئے۔یقین تو نہیں مگر گمان اچھا رکھنا چاہیئے۔ان صاحب کی طرح اور بھی بہت سے لوگ یکم رمضان کو بینک جا کر رقم نکلواتے اور جمعہ کرواتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ وہ یہ کارخیر کس طرح انجام دیتے ہیں ۔دوسرا ہر سال رمضان کی آمد پر نام کے مسلمانوں کے ہاتھوں آنے والے مہنگائی کے سیلاب کو بھی بھول جاتا ہوں ۔رمضان سے پہلے فالسے بیس روپے پاؤ تھے پھر پچاس روپے پاؤ ہو گئے۔سیب اور آڑو سو روپے کلو سے چھلانگ مار کر تین سو روپے کلو ہو گئے۔سوچا تھا کہ پہلی افطاری پر فروٹ چارٹ بنائیں گے پھر بازاروں میں رقص کرتی مہنگائی سوکھے ہونٹوں سے بھاری ریٹ بتاتے ہوئے روزہ دار فروٹ فروشوں نے مجھے اپنا پلان ری وائیز کرنے پر مجبور کر دیا۔ساتھ ہی ایک نیا آئیڈیا میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس دفعہ صبر کے درس کو پورا ماہ رمضان اپنایا جائے۔سو کھڑے کھڑے میں نے فروٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔کچھ دکانداروں سے جب انٹرویو لئے تو وہ بڑھے ہوئے ریٹس کا سب الزام منڈی والوں پر ڈالتے نظر آئے۔ان کا لہجہ ان کے جھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا۔سمجھدار لوگ ماہ رمضان سے پہلے ہی فروٹ اسٹاک کر لیتے ہیں تاکہ مسلمان بھایؤں کی لوٹ مار سے محفوظ رہ سکیں ۔یہ مہنگائی کا سیلاب حکومت تاجروں اور دکانداروں کے اندر بھری ہوس کی وجہ سے آتا ہے۔چونکہ سب اپنے آپ کو دودھ کے دھلے اور معصوم سمجھتے ہیں لہذا ایک دوسرے پر الزام ڈالتے مہینہ گزار دیتے ہیں۔عید کے قریب کپڑوں کی خرید عروج پر ہوتی ہے لہذا اس کا بھی بھولے مسلمان خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دو دن پہلے افطاری سے چند منٹ پہلے ایک دوست کا واٹس ایپ پر میسج آیا متن کچھ یوں تھا "عام اور افطاری کے لئے خاص پھلوں کے ریٹس میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔برائے مہربانی تین دن کے لئے پھل اور کھجوریں خریدنا بند کر دیں ۔یہ چھوٹی سی کوشش بہت اچھے نتائج لے کر آئے گی۔تمام دوستوں کو یہ پیغام بھیجیں اور ایک زنجیر بنائیں ۔یقین کریں تین دن پھل نہ کھانے سے کوئی مر نہیں جائے گا۔اسے عوامی کوشش بنانے میں مدد کریں۔شکریہ"پیغام بھیجنے والے نے تو تین دن کے بائیکاٹ کی التجاء کی ہے میرا خیال ہے کہ تیس دن کا بائیکاٹ سب چوروں منافع خوروں اور نام کے مسلمانوں کے کس بل نکال دے گا ۔جن صاحب کی طرف سے یہ میسج آیا خاصے متمول ہیں فروٹ کھانا ان کی ہابی ہے دوپہر میں لنچ اکژفروٹ منگوا کر نہ صرف خود کرتے ہیں بلکہ یار دوستوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔ان کی طرف سے فروٹ کے بائیکاٹ کا اعلان جھٹکا تھا ۔میں تو ان کے میسج کی آمد سے دو دن پہلے ہی سیلف بائیکاٹ کا فیصلہ کر چکا تھا۔دل نے بہت دھوکے دئے کہ کنجوس مت بن خدا کا دیا سب کچھ ہے یہ لوگ اگر ایک ماہ کما لیں گے تو کونسا تم یا ملک غریب ہو جائے گا ان کا بھی حق ہے۔میں ذرا سے زیادہ ڈھیٹ اور ضدی قسم کا انسان ہوں سو میں نے دل کی بات سننے سے قطعی انکار کر دیا ۔فالسے تو دوبارہ اپنے ریٹ پر آچکے ہیں اور باقی اشیاء بھی آہستہ آہستہ نیچے آرہی ہیں ۔معلوم یوں ہوتا ہے کہ میری طرح کے اور بھی کئی ضدی لوگ اپنی ضد پر جی جان سے اڑے ہوئے ہیں ۔میرا ایک دوست امریکا میں ہوتا ہے اس کا چھوٹا سا سٹور ہے ۔کرسمس کے موقع پر وہ خاصا مصروف ہوتا ہے۔کیونکہ شاپنگ عروج پر ہوتی ہے شاپنگ کے عروج کی وجہ چیزوں کا معمول سے سستا ہونا ہوتا ہے۔وہ ٹھہرے کافر مردود جہنمی لادین سب برائیوں کے باوجود ان کو اپنے تہواروں کا کس قدر احترام ہے ۔کسی کو لوٹ مار کی اجازت نہیں الٹا آسانیاں پیدا کرتے ہیں ۔تاکہ تمام لوگ برابر اور یکساں طور پر کرسمس کی خوشیاں منا سکیں ۔ادھر ملاحظہ فرمائیں پکے جنتی دن رات حوروں کے ساتھ اٹھکیلیاں مستیاں کرنے کے خواب بنتے خود کو اعلی و ارفع قوم سمجھنے والے ہر اسلامی تہوار پر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے پوری دنیا پر قبضہ کے خواب دیکھنے والے نام مسلمانوں والے اور کام خدا کی پناہ۔ہوتا تو یہ کہ ماہ رمضان میں چیزیں آدھے ریٹس پر فروخت ہوتیں تاکہ غریب لوگ بھی مستفید ہو سکتے کہ فروٹ چاٹ کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ غریب کے وہ بچے جن کی تمام زندگی گندگی کے ڈھیروں پر فروٹ ڈھونڈننے اور گلے سڑے فروٹ چن کر کھاتے گزر جاتی ہے۔ان کو سستے پھل تو کیا خاک ملتے وہ بچے کھچے ریڑھیوں کے نیچے پڑے فروٹ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔جہاں متمول لوگ فروٹ کے بائیکاٹ کے میسج سرکولیٹ کرنے پر مجبور ہوں تین روزہ سیلاب کے اتر جانے کے منتظر ہوں وہاں غریب کی کیا مجال ۔رہی حکومت تو ان کے نام نہاد ہرکارے ٹی یم اے کے اہل کاروں اور افسروں کے سر پر چڑھ کر چند جہازی سائز کے پوسٹر بنوا کر اسٹالز سجاتے ہیں سالہا سال سے دفتروں میں مفت کی روٹیاں توڑنے والے بلدیہ کے ملازمین کو لا کر ان اسٹالز پر عوامی خدمت کرنے کے لئے کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔باقی کا حال جاننے کے لئے کسی اتوار بازار جا کر خود دیکھیں کہ شاہین نما ملازم کیسے چینی تولنے کی کوشش میں ہانپ رہے ہوتے ہیں ۔مان لیا کہ ان اسٹالز پر کچھ ریٹ کم بھی ہوتا ہو گا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی رٹ ان اسٹالز تک محدود ہے ۔ان اسٹالز اور سرکاری خرچ پر چھپے خوشامدی پوسٹرز کے اطراف کیا حکومت کا سکہ چلنا ختم ہو جاتا ہے۔باقی تمام دکاندار اگر لوٹ مار کے لئے آزاد ہیں تو پھر جو کوئی شوشل میڈیا پر گٹروں پر ڈھکن اور لانگ شوز کی تصویریں ہائی لائٹ کر رہا ہے وہ دو سو فیصد ٹھیک ہے۔ہمارے مسائل ان گنت ہیں اور ان کے لئے بے شمار بائیکاٹ ضروری ہو چکے ہیں۔ایک بائیکاٹ اور بھی ہمیں کرنا ہو گااور وہ ہے گلی سڑی بدبودار جمہوریت اور دھاندلی زدہ الیکشنز کا۔فکر نہ کریں ان بائیکاٹس سے سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں ۔کیونکہ سسٹم ہے ہی کہاں جہاں دن دیہاڑے ماہ رمضان میں بازاروں میں عوام کی جیب پر ڈاکہ پڑ رہا ہو ہر کوئی من مانی کر رہا ہو وہاں کے نظام کو سسٹم نہیں جنگل کا قانون کہا جاتا ہے اور باسیوں کو جنگلی جانور اور درندے کہنا درست ہوتا ہے۔
 
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 18120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.