روزے کی روح

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

عموماًہمارے معاشرے میں روزے کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام ہے۔یہ بات بھی درست ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ روزہ جسمانی بھی ہوتا ہے روحانی بھی ہوتا ہے۔جسمانی وروحانی روزے کا تعلق مختلف امور سے ہے اگر ان میں سستی کی جائے توروزے کااجرضائع ہونے کا خطرہ ہے۔جسمانی روزے میں جسم کے تمام اعضاء کا روزہ ہوتا ہے۔حالت روزہ میں ان کی حفاظت کرنا بھی ہم پرلازم ہے۔حواس خمسہ میں آنکھ،کان،زبان،ہاتھ کا بھی روزہ ہوتا ہے،پاؤں کا بھی روزہ ہوتا ہے۔آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ اس سے برے مناظر نہ دیکھیں جائیں کہ جن سے روزے کا اجرضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جن میں آج کل کے نام نہاد چرب زبان ٹی وی اینکرز کے پروگرام شامل ہیں ۔جواپنی چرب زبانی کی وجہ سے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں باالکل درست کررہے ہیں ۔حالانکہ شریعت کی رو سے وہ باالکل غلط ہوتا ہے۔جب ان پر کوئی بات آتی ہے تو وہ خود ہی مدعی اورخود ہی جج بن کرشریعت کی روسے درست و غلط ہونے کا فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں۔ایسے لوگوں نے دین اسلام کو بدنام کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔بیرونی قوتوں کے اشاروں پر چل کر اسلام کا لبادہ اوڑھے یہ نام نہاد اینکرزشریعت کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔حتیٰ کہ اپنے پروگرامز کودرست قراردینے کے لیے ان کا موازنہ باجماعت نماز،حج،عمرہ، طواف سے کرتے نظرآتے ہیں اوران کی آڑ میں اپنا الو سیدھاکرتے نظرآتے ہیں۔ دیکھا جائے توان کی رمضان ٹرانسمیشنزمیں بے حیائی اورفحاشی عروج پر پہنچ چکی ہے۔نام رمضان ٹرانسمیشن کا لیتے ہیں اورکام فحاشی وعریانی کے کررہے ہوتے ہیں۔ان کے سامنے بیٹھی عوام کی مثال عرب کے اس مقولے کو’’العوام کاالانعام‘‘پوراکرتی نظرآتی ہے کہ انسانوں کی شکل میں حیوان بیٹھے ہیں اوراس کی چرب زبانی پروہ واہ،واہ اوربلے،بلے کرتے رہتے ہیں۔رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر گانا بجانا بھی عروج پر پہنچ چکا ہے۔ان ساری چیزوں کا تعلق آنکھ سے ہے۔اس لیے ناصرف رمضان بلکہ عام دنوں میں بھی اپنی آنکھوں کو اس طرح کی فحاشی وعریانی سے بچانا ہم پر لازم ہے۔اسی طرح کانوں کا بھی روزہ ہوتا ہے۔اپنے کانوں کو بری باتیں ،ساز باز،گانا،بجاناسے محفوظ رکھا جائے۔کانوں سے انسان بری بات سنتا ہے اورپھردل میں وہ پروان چڑھتی ہے اس کے بعد وہ دماغ میں منصوبہ بندی ہوتی ہے پھرباقی اعضاء کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔اس لیے کانوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔اسی طرح زبان بھی ہے۔ انسانی جسم میں اگرچہ چھوٹاساوجود رکھتی ہے مگراس کی درستگی ایمان کی درستگی ہے۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ’’بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک دل درست نہ ہوجائے اوردل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک زبان درست نہ ہوجائے۔‘‘(مسنداحمد)یعنی کہ زبان کی حفاظت سے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے اورجب ایمان محفوظ ہوجاتا ہے تو انسان کامیاب وکامران ہوجاتا ہے۔اسی طرح زبان کی حفاظت سے نجات ممکن ہے۔جیساکہ حدیث مبارکہ میں کہ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ :’’نجات کس چیز میں ہے ؟‘‘آپ نے جواباًفرمایا کہ :’’اپنی زبان کو قابو میں رکھ اوراپنے گھر کو لازم پکڑ اوراپنی غلطیوں پرآنسو بہا‘‘(سنن ترمذی) توزبان کی حفاظت ہم لازم ہے اگر ہم اس میں سستی کریں گے تو ہمارے روزے کا اجرضائع ہو جائے گا۔رمضان میں کام اور مشغولیات کا بوجھ کم ہوتا ہے۔جس کے نتیجے میں کافی ساراوقت انسان کے پاس موجود ہوتا ہے۔مگراسے ضائع کردیا جاتا ہے۔کچھ لوگ موبائل، انٹرنیٹ پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے نظرآتے ہیں تو کچھ فضول قسم کی گیمز میں اپنے اوقات کوضائع کرتے نظرآتے ہیں۔اس لیے اس سے بچنا بھی ہم پر لازم ہے۔وقت کی کثرت کی بناپر کچھ لوگ فضول قسم کی گپ شپ کی مجالس سجا لیتے ہیں۔جن میں وہ فضول قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔اس طرح فضول باتوں کی کثرت نقصان دہ ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ آیا ہے کہ:’’تم ذکراﷲ کے علاوہ کثرت سے کلام مت کرو کیونکہ ذکراﷲ کے بغیرکلام کی کثرت سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔اوراﷲ تعالیٰ سے وہی لوگ دورہوتے ہیں جن کے دل سخت ہوتے ہیں۔‘‘(سنن ترمذی)تواس سے علم ہوا کہ زبان کاکثرت سے فضول استعمال انسان کے دل کوسخت کردیتا ہے۔ اس لیے اپنی زبان کوعمدہ باتوں میں استعمال کریں اورفضول گفتگوسے پرہیز کریں۔بعض اوقات انسان ایسے کلام میں مگن ہوجاتا ہے جسے وہ توکوئی اہمیت نہیں دے رہا ہوتا مگر حقیقت میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔جس کی وضاحت حدیث میں کچھ اس طرح ہے کہ:’’بعض اوقات انسان زبان سے اﷲ کی رضامندی کا کوئی ایسا کلمہ نکالتا ہے کہ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی مگر اس کی وجہ سے اﷲ اس کے درجات کو بلندکردیتا ہے اوربعض اوقات اپنی زبان سے اﷲ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ نکالتا ہے کہ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی مگرا س کی وجہ سے یہ جہنم کی گہرائی میں داخل ہوجاتا ہے۔‘‘(صحیح البخاری:6478)زبان سے نکلنے والا ہر کلمہ لکھ لیا جاتا ہے۔روزِ قیامت اس بارے میں اﷲ رب العالمین جزاء وسزادے گا۔اسی طرح ہاتھوں کا بھی روزہ ہوتا ہے۔اپنے ہاتھوں کو برائی سے روکنا ،برے کاموں میں استعمال نہ کرنا، ان سے کسی مسلمان بھائی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا،ان سے خلاف شریعت اعمال کا مرتکب نہ ہونا سب شامل ہے۔مسلمان کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ :’’مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘(متفق علیہ)اگرہمارے ہاتھوں اورزبان سے دورانِ روزہ یا عام دنوں میں مسلمان بھائیوں کو ایذاء پہنچتے ہیں توپھر ہمیں اپنے اسلام کی فکر کرنی چاہیے۔انسان دورانِ روزہ ہاتھ کے ذریعے خلاف شریعت امور کا مرتکب ہوتواس سے بھی روزے کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔بعض اوقات انسان اپنے ہاتھوں سے حرام کاروبار،مال،رشوت لینے دینے کا رتکاب کرتا رہتا ہے توا س سے بھی روزے کا اجر ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے اپنے ہاتھوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔اسی طرح اپنے پاؤں کو برائی کی طرف لے کرجانے سے بھی انسان کا اجرضائع ہونے کا خطرہ ہے۔پاؤں کی برائی سے مرادبرے کام کی طرف چل کرجاناوغیرہ شامل ہے۔یہ چندایک روزے کی مختصرجسمانی برائیاں تھیں جن کی وجہ سے روزہ کا اجرضائع ہو جاتا ہے۔

روزے کی روحانی برائیوں میں دل کواہم کردارحاصل ہے۔انسان کادل ہروقت گردش میں رہتا ہے اوراس میں مختلف وسوسات کی پیدائش وترویج جاری رہتی ہے۔دل کی اصلاح بھی ہم پر لازم ہے۔کیونکہ یہی دل جسم میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہاں سے فیصلے صادر ہوتے ہیں اوراحکامات کی تعمیل ہوتی ہے۔اگردل درست رہے توسارے کا ساراجسم درست رہتا ہے اوراگر دل میں خرابی برپا ہوجائے توسارے جسم میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔اس دل کی ہروقت اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے اوراس میں آنے والے ہروسوسے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ نیکی کے خیالات پر عمل پیراہونا چاہیے اوربرائی کے وسوسات پر عمل نہیں ہونا چاہیے۔اس کی اصلاح کی ہر وقت دعا بھی کرتے رہنا چاہیے ۔اس کے لیے یہ دعا نبی کریم ﷺ کثرت سے مانگا کرتے تھے:’’یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ‘‘(سنن ترمذی2290:) اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔دل میں آنے والے برے خیالات ووسوسات کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔اس سے ہمارے اعمال بھی درست ہوتے چلے جائیں گے اورہمارے روزے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔
 
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 23230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.