جموںجموں وکشمیر ریاست میںنہ صرف سرکاری زبان (اردو)
حکومتی وانتظامی عدم توجہی کا شکار ہے بلکہ ریاست کے مختلف علاقوں میں بولی
جانے والی’مادری زبانوں‘ کو بھی یکسر نظر انداز کیاگیاہے۔ مادری زبان کو
سکول سطح پر پڑھانے کیلئے مرکزی وریاستی سطح کی متعدد کمیٹیوں، کمیشنوں،
اداروں کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کی طرف سے بھی کئی مرتبہ ہدایات جاری ہوئی
ہیں لیکن عملی طور کچھ بھی نہیں ہورہا۔اپریل 2005کو ریاستی محکمہ سکول
تعلیم نے ایک آرڈرزیرنمبر220 جاری کیاتھاجس کے تحت پرائمری سطح تک سکولوں
میں مادری زبانیں پڑھانے کی ہدایات دی گئی تھیں، اس کے تحت پہاڑی، ڈوگری،
کشمیری، گوجری، لداخی ،پنجابی وغیرہ مادری زبانوں کو سکولوں میں پڑھاناجانا
مقصود تھا لیکن 11برس کا عرصہ گذر جانے کے بعد آج تک اس حکم نامہ پر
عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔باوثوق ذرائع نے اڑان کو بتایاکہ اب تک محکمہ سکول
تعلیم کی طرف سے جاری مذکورہ حکم نامہ کے تحت صرف کشمیری اور ڈوگری زبانوں
کو پرائمری سطح پر پڑھانے کا عمل کچھ حد تک شروع ہواہے البتہ دیگر زبانوں
کو نظر انداز کیاگیاہے۔ جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن نے مادری
زبانوںکے نامور دانشوروں، ادیب، مصنفوں اور ماہرین تعلیم کی کمیٹیاں تشکیل
دیں جن کے تحت نصابی کتابیں بھی تیار ہوئیں لیکن یہ آج تک سکولوں میں نہیں
پہنچ پائیں۔ ’پہاڑی ‘کو بطور مادری زبان پرائمری سطح تک سکولوں میں پڑھانے
کی غرض سے دو کمیٹیاں بنائی گئیں جن میں کمیٹی کلچرل اکیڈمی نے بنائی اور
دوسری بورڈ آف سکول ایجوکیشن نے قائم کی۔ پہاڑی میں کتابیں تیار کرنے کے
لئے سال 2008میں جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن (JKBOSE)کی طرف سے
بنائی گئی کمیٹی میںپہاڑی طبقہ کے دانشوروں اور ماہرین تعلیم کو شامل
کیاگیا۔ڈاکٹر فاروق انورمرزا جوکہ اس وقت ریاستی اکیڈمی برائے فن وتمدن اور
لسانیات میں شعبہ پہاڑی کے مدیر اعلیٰ ہیں، اس کمیٹی کے کنوئنر تھے جس میں
دوسروں کے علاوہ خرشید بسمل، راجہ نذیر بونیاری، ڈاکٹر جہانگیر دانش، نثار
راہی، سید اقبال ملنگامی اور فداراجوروی وغیرہ شامل تھے۔ کمیٹی نے سال
2008سے سال 2011تک انتھک محنت ولگن،عرق ریزی اور جانفشانی کے بعد کلاس
اول(فسٹ)سے لیکر پانچویں تک پہاڑی زبان میں نصابی کتابیں تیار کیں۔ کتابوں
کا مواد تیار کرنے کے بعد ان کی طباعت واشاعت بھی ہوئی، اس عمل پر لاکھوں
روپے خرچ کئے گئے مگر یہ کتابیں آج تک سکولوں میں نہیں پہنچ پائیں۔ ذرائع
کے مطابق کلچرل اکیڈمی کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے چیئرمین پی این پش
تھے، اس کمیٹی کا مقصد وادی کشمیر میں بولی جانے والی پہاڑی(کاغانی)اور خطہ
پیر پنچال وصوبہ جموں کے دیگر علاقوں میں بولی جانے والی پہاڑی کے مابین ہم
آہنگی پیدا کر کے ایک یکجا نصاب تیار کرنا تھا، ان دونوں کمیٹیوں نے
جانفشانی سے کام کیا۔ ذرائع نے اڑان کو بتایاکہ پانچویں تک پہاڑی زبان میں
کتابیں تیار ہیں لیکن انہیں سکولوں میں سپلائی نہیں کیاگیا، اس ضمن میں
نظامت برائے سکول تعلیم حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کچھ کتابیں متعلقہ
زونل ایجوکیشن افسران کو دی بھی تھیں لیکن وہ آگے سکولوں میں تقسیم نہ کی
گئیں اور نہ ہی پہاڑی کتابیں کی کہیں سے ڈیمانڈ موصول ہوئی ہے۔ سکول تعلیم
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں تربیت یافتہ اساتذہ نہیں جوکہ کوئی مشکل
نہیں ہے، محض چند ہفتوں کی تربیت سے پہاڑی زبان بولنے والے طبقہ سے تعلق
رکھنے والے اساتذہ کو پہاڑی پڑھانے کے قابل بنایاجاسکتا ہے ، محکمہ کی طرف
سے یہ عذر ظاہر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد
’پہاڑی زبان ‘کو پڑھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی اور تیار کردہ
کتابیں بورڈ، چیف ایجوکیشن افسر اور زونل ایجوکیشن دفاتر میں گرد آلودہ
حالت میں پڑی ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ پہاڑی زبان بولنے والے طبقہ کے ماہرین
تعلیم، دانشوروں، سیاسی وسماجی شخصیات کو اس طرف توجہ دینی ہوگی ، انہیں
پرائمری سطح پر پہاڑی زبان کے درس وتدریسی عمل کو یقینی بنانے کے لئے
کوششیں کرنی چاہئے کیونکہ اس زبان کی ترویج وترقی کے لئے سکولی سطح پر اس
کو متعارف کرنا لازمی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک لمبی جدوجہد کے بعد ریاستی
سرکار نے جموں وکشمیر کے اندر مادری زبانوں جس میں کشمیری، ڈوگری، گوجری،
لداخی کے ساتھ ساتھ پہاڑی کو بھی شامل کیاگیاتھا، کو سکولی سطح پر پڑھانے
کے لئے حکم نامہ جاری ہوا تھا جس عمل پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے لیکن سکولی
سطح پر یہ کتابیں نہ پہنچ پائیں۔نامور تبصرہ نگاراور ادیب نثار راہی نے اس
حوالہ سے کہاکہ وزیر تعلیم نعیم اختر کو چاہئے کہ سال 2005کو انہیں کے
محکمہ کی طرف سے مادری زبان کے سکولی سطح پر درس وتدریس عمل کیلئے جاری حکم
نامہ پر عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھایں۔ اس بارے جب خرشید
بسمل سے رابطہ قائم کیاگیا تو انہوں نے کہاکہ محکمہ کی طرف سے کچھ حد تک
کام ہوا تاکہ سکولوں میں پہاڑی زبان پڑھائی جاسکے لیکن یہ کوشش اس وقت ہی
کامیاب ہوگی جب طبقہ کے دانشور، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی اپنا مثبت
رول ادا کرئے گی۔ پہاڑی زبان وادب کی اہمیت وافادیت بارے بیداری لانے کی
ضرورت ہے جس کے لئے اہل زبان کو اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ پہاڑی زبان
و ادب کے فروغ کے لئے کام کر رہی تنظیموں، طبقہ سے وابستہ سیاسی رہنماؤں ،
دانشوروں کو اس بارے عملی طور کچھ کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ 2000-2002کے
دوران نیشنل کانفرنس قیادت والی سرکار کے وزیر تعلیم محمد شفیع اوڑی نے اس
حوالہ سے کافی پہل کی تھی اس کے تحت12ویں کلاس تک پہاڑی زبان میں کتابیں
تیار کرانا تھا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل سیاست کی نظر ہوکر
ٹھنڈے بستے میں چلاگیا۔
|