بادشاہ سلامت ،کمہار اور میری آپی جی!

اگر معاشرے میں لوگوں کی نفسیات کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے ، تو یہاں لوگ نفسیاتی طور پر دوہرے پن کی سوچ کا شکار نظر آتے ہیں۔مثلاََ یہاں لوگ عموماََ بے ایمان ہیں مگر ایمان دار لوگ چاہتے ہیں ، یہاں لوگ خود بے وفا ہیں مگر وفا دار لوگ چاہتے ہیں ، یہاں لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر دوسروں سے سچ سننے کی امید کرتے ہیں۔یہاں لوگ خدمت کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن دوسروں کی خدمت لینا چاہتے ہیں ، لیکن نادان یہ نہیں سمجھتے کے فطرت کے اصول یکسانیت کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، جو دو گے وہ ہی لو گے ، اس لئے اگر دھوکے باز ہو تو دھوکا کھانے کیلئے بھی تیار رہو، یہ فطرت کا اصول ہے۔میں اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک کہانی سنانا چاہوں گا ، ہمارے جہان پاکستان کے ایگزیگٹو ایڈیٹرچودھری ندیم صاحب اپنے کالموں میں کمال کی کہانیاں لاتے ہیں ، اس بار سوچا کہ ، اس بار ایک کہانی میں بھی دوں، اور پھر مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اور کہانی سامنے آگئی۔کہانی کچھ ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا ، تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو ، کمہار نے جواب دیا کہ جو گدھا لائن توڑتا ہے ، اسے سزا دیتا ہوں ، بس اسی خوف سے یہ سب سیدھا چلتے ہیں۔بادشاہ نے کہا ، کیا میرے ملک میں امن قائم کرسکتے ہو ؟ ۔کمہار نے حامی بھر لی ، شہر آئے تو بادشاہ نے اسے منصف بنا دیا ۔کمہار کے سامنے ایک چور کا مقدمہ لایا گیا ، کمہار نے فیصلہ سنایا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو، جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا کہ جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے، کمہار نے دوبارہ کہا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو ، اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی ، جناب تھوڑا خیال کریں ، یہ اپنا ہی آدمی ہے ، کمہار بولا، چور کے ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دو ، کمہار کے صرف ایک فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہوگیا۔ہمارے ملک کا نظام بھی کچھ ایسا ہی ہے ،اس لئے نہ تو ملک میں امن قائم ہوتا ہے ، نہ ہی انصاف ملتا ہے۔کیونکہ جب بھی انصاف پر مبنی فیصلے کئے جانے کی امید ہوگی ، تو کوئی "کسی "کے کان میں کہہ دیتا ہے کہ ، "اپنا بندہ ہے "۔

بات چلی تھی معاشرے میں لوگوں کی نفسیات پر ،میری آپی مجھ سے عمر میں بہت بڑی ہیں ، رتبہ ، عہدہ اور عزت بھی بہت اﷲ تعالی نے بڑا دیا ہے۔یہی تربیت انھوں نے اپنے بچوں کو بھی دی ہے۔لیکن اتنی سادہ ہیں کہ بتا نہیں سکتا ، میں اکثر ان سے بچوں کی طرح ضد کرجاتا ہوں ، تو وہ اتنی سنجیدہ ہوجاتی ہیں ، کہ میرے مذاق کو سچ سمجھ کر اس عمل درآمد بھی شروع کردیتی ہیں۔جب تک انھیں بتایا جائے کہ آپی ، میں مذاق کر رہا تھا ،وہ کام کرچکی ہوتی ہیں ، دراصل وہ پاکستان میں نہیں رہتی ، اس لئے ان پر جھوٹ کا ملمع نہیں چڑھا۔دھوکا دینا نہیں سیکھا ، کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں رہتی ۔میں ان سے سچ بولنے کی کوشش کرتا ہوں تو بول نہیں پاتا ، کیونکہ پاکستان میں رہتا ہوں ، ہلکی پھلکی بے ایمانی بھی کرجاتا ہوں ، کیونکہ پاکستان میں رہتا ہوں ،لیکن ان کو دھوکا نہیں دے سکتا، یہ نہیں کرسکتا ، کیونکہ پاکستانی ہونے کے ساتھ پختون جو ہوں۔ان سے بہت کم باتیں کرپاتا ہوں ، مجھ سے روزے رکھنے پر مقابلہ کرنے کا کہتی ہیں کہ دیکھو ، ہم اٹھار ہ اٹھارہ گھنٹے روزہ رکھتے ہیں، میں پاکستانی بن کر جواب دیتا ہوں ،کہ ہم تو گرمی میں مر گئے ، آپ تو ٹھنڈی ٹھنڈی جگہ رہتی ہیں ، آپ کو کیا معلوم ، لوڈ شیدنگ کا ، پانی کی عدم فراہمی کا ، ٹرانسپورٹ کا،۔۔اس پر وہ کہتی ہیں کہ کہتے تو ٹھیک ہو۔لیکن آپی کو نہیں معلوم ، کہ ہمارے روزے کتنے جھوٹے ہیں ، ہم لوڈشیڈنگ کی دہائیاں تو دیتے ہیں ، لیکن دل کھول کر بجلی چوری کرتے ہیں، بل نہیں دیتے ، پانی کی کمی پر مظاہرے تو کرتے ہیں ، لیکن جب پانی آتا تھا تو انڈر گراؤنڈ پانی محفوظ رکھنے کے بجائے ، گلیوں کا چھڑکاؤ شروع کردیتے تھے،اُس پانی کو بہانا شروع کردیتے ہیں ، جیسے دو سو کلو میٹر دوری سے لایا جاتا ہے۔ٹرانسپورٹ میں ان گاڑیوں کے پرمٹ جاری کرتے ہیں ، جن کو اسکریپ ہوجانا چاہیے تھا، یا عجائب گھر کی زینت بنا دینا چاہیے تھا ، ہم اڑن کھٹولوں میں سفر کرتے ہیں ، اور آپی ، انڈر گراؤنڈ ٹرینوں میں، ۔اپنا کام نکالنے کیلئے رشوت دیتے ہیں ، اور پیٹھ پیچھے کام کرنے والے کو ایک دو بھاری بھر کھم گالی بھی دیتے ہیں ، لیکن جب اس کے سامنے جاتے ہیں ، تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔

جب میں کمہار کی کہانی پڑھ رہا تھا تو مجھے اپنی آپی بہت یاد آرہی تھیں ، کہ وہ میری نسل ( پختون) کی نہیں ہیں ، لیکن پختونوں سے بھی بڑھ کر اصول پرست ہیں ، بہادر ہیں ، غیور ہیں ، ایماندار ہیں ، مشفق ماں ہیں ، انھیں پشتو نہیں آتی ، لیکن ان کے اردو کا ایک ایک لفظ پتھر کی لکیر ہوتا ہے ، ہنستی ہیں تو، گھنٹیوں کی جل ترنگ سی بج اٹھتی ہے، مسکراتی ہیں تو قوس و قزح کے رنگ بکھیر دیتی ہیں ، ان کے احساس کو دل سے محسوس کرتا ہوں ، ان کی آنکھوں میں ممتا کی چمک ، دادی کا پیار امڈتا ہے ، تو پاکستانی ہونے کی وجہ سے جلن سی ہوجاتی ہے کہ میں ان کے وجود کا ٹکڑا کیوں نہیں بنا۔فون پردوران گفتگو ، ایک بارپاکستانی بن کر کہہ دیتا ہوں کہ ،آپی دیکھو دیکھو بوڑھی ہوگئی ہو، سانس پھول رہی ہے ، تو ہنس کر کہتی ہیں ، ارے سگنل کھلا ہے دس سکینڈ کا وقت ہے ، روڈ کراس کرنا ہے ، اس لئے تیز چل کر جا رہی ہوں ، میں شرمسار ہوجاتا ہوں کہ یہاں تو پیلی لائٹ پر ہی گاڑیاں پیدل چلنے والوں پر چڑھ دوڑتی ہیں ، سرخ لائٹ پر ہم سڑک پار کرنے کی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ہم آدھا، آدھا گھنٹہ لفٹ کا انتظار کرتے ہیں لیکن ایک منزل نہیں چڑھ پاتے ، لیکن آپی ، دوڑ دوڑ کر دوسری تیسری منزل جا پہنچتی ہیں۔ان کا بس چلے تو پیدل ہی پاکستان آجائیں ،لیکن پاکستان آنے کے بعد وہ قید ہوجاتی ہیں ، وہ گھر سے باہر جاتی ہوئے گھبراتی ہیں، انھیں ٹریفک کا رش ، جنگی لاؤ لشکر لگتا ہے۔ انھیں لگتا ہے ہکہ وہ دوسری دنیا کی مخلوق ہیں ، وہ پاکستان کی خلائی دنیا میں آگئی ہیں کاش کہ میں ان کے وجود کا حصہ ہوتا ۔میرے تخیل میں ان کی نصیحتیں گونجتی ہیں۔ان کو اپنے پوتے ، پوتیوں کے لئے پیار نچھاور کرکے دیکھتا ہوں ، تو خود اُس چھوٹی سے ریل گاڑی میں بیٹھ جانے کو دل چاہتا ہے ، اس چھوٹے سے جھولے میں بیٹھنے کو دل کرتا ہے ، جس میں مجھے وہ اپنے پوتے ، پوتیوں کو جھولاتی ہیں۔میں اورمیرے جیسے نہ جانے کتنے ہونگے ، جو دوہرے پن کا شکار ہونگے، گھر سے نکلتے ہوئے ، جیمز بانڈ کی طرح منزل تک اس طرح جاتے ہونگے کہ کسی کو کیا، خود کو بھی علم نہ ہو کہ ، میں کہاں جا رہا ہوں۔ہر آدمی مشکوک لگتا ہے ، موٹر سائیکل پر بیٹھے افراد ٹارگٹ کلرز لگتے ہیں، چادر پہنا ہوا ، خود کش حملہ آور لگتا ہے ، موبائل فون ،ڈکیٹ کو دینے کیلئے رکھا ہے ، فون نمبر زکی ڈائری ای میل کے ان باکس میں محفوظ رکھنی پڑتی ہے۔ کوئی اچانک سامنے آجائے تو لگتا ہے کہ بٹوے سے محروم ہوگیا ، پانچ جیبوں میں الگ الگ پیسے ، کارڈ رکھنا پڑتے ہیں ، کیونکہ راستے میں چیکنگ کے دوران اگر شناختی کارڈ نہیں دکھایا تو مصیبت ہوجاتی ہے۔تعارف کراتے زبان تھک جاتی ہے۔ہائے میرے پاکستان کا کیا حال کردیا ، کن لوگوں نے اسے اس حال پر پہنچا دیا ۔آپی کاش آپ منصف ہوتی اور پاکستانی میں گدھوں کی اکثریت کو سیدھا کردیتی ۔لیکن ایک مسئلہ ہے ۔ یہاں بادشاہ سلامت کمہار کو منصف نہیں بناتا بلکہ راستے میں سامنے آنے پر جیل کرادیتا ہے۔ آپ وہیں ٹھیک ہیں۔دور سہی ، لیکن دل کے قریب ہیں ، یہاں تو ہرارباب اختیار بادشاہ سلامت ہے،اور عوام اس کی غلام ۔لیکن آپ تو میری آپی ہیں۔پیاری آپی !!۔ تم جیو ہزاروں سال ۔ ٓامین !۱
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.