رزقِ حلال عین عبادت ہے

حضوراکرم ﷺسے کسی صحابیؓ نے دریافت کیاکہ:
’’ یا رسول اﷲ ؐ !یہ دین (اسلام )کیا ہے؟آپ ؐ نے فرمایا’’اگر دینِ اسلام کو دس برابر حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اُن میں سے نو حصّے رزقِ حلال اور باقی ایک حصّہ میں دوسری عبادات آتی ہیں ‘‘۔گویا رزقِ حلال کو دینِ کامل میں بلند پایہ مقام حاصل ہے،ہمارا رزق’’حلال‘‘ ہو گا تو نماز قبول ہو گی،ہمارا رزق’’حلال‘‘ ہو گاتوروزہ، زکوٰۃ ،حج اور دیگر عبادات قبول ہونگی۔مثال کے طور پرآپ نئی،خوبصورت اور مہنگی سے مہنگی پٹرول سے چلنے والی گاڑی خریدیں،اُس پر ڈرائیور بھی ماہر سے ماہر ہومگر اُس گاڑی میں پٹرول کی بجائے ڈیزل ڈال دیں تو کیاوہ چلے گی؟حالانکہ پٹرول کی نسبت ڈیزل مہنگا ہے مگر پھر بھی وہ گاڑی نہیں چلے گی۔جیسے گاڑی تمام تر خوبیوں اور ماہر ڈرائیورکے ہوتے ہوئے صرف اور صرف غذا کے غلط استعمال کی بدولت اپنی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکتی بلکل ویسے ہی انسا ن کی تمام تر عبادات بے سود اور رائیگاں ہیں جب تک کہ وہ بھی اپنی ’’گاڑی‘‘ کی غذا(یعنی کہ اپنا رزق) حلال طریقے سے حاصل نہیں کرتا۔

بچوں کی تربیت میں والدین کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے والدین سکول کی تعلیم سے زیادہ ،دینی تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دیتے تھے ۔ہمیں اخلاق وکردار کی تعمیر، بڑوں، بوڑھوں اور اساتذہ کا ادب واحترام ،چھوٹوں سے شفقت اورتعمیر سیرت کے دیگرہنر سکھاتے تھے ،ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے ،اچھے اور برے کی تمیز بتلاتے تھے ۔ بچوں کی کیا مجال کہ وہ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات کریں ۔شرم و حیا کا یہ عالم ہوتا تھا کہ نو بیاہتا جوڑا کئی کئی دن گھر والوں کے سامنے ایک چارپائی پر نہیں بیٹھتے تھے ۔لوگ ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے اور مل جل کر کام کرتے تھے ۔ شادی بیاہ اور دیگر خوشی ،غمی کے مواقع پر اگر کسی کے گھرزیادہ تعداد میں مہمان آجاتے تو محلے والے ایک ودسرے کو اپنی چارپائیاں اور بستر لینے دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔لوگ ایک دوسرے کے کام آنا ،باعث مسرت و خوشی سمجھتے تھے ۔قومی نوٹوں پر واضح لکھا ہوتا تھا،’’رزق حلال عین عبادت ہے ‘‘ مگرآج وہ بھی نہیں لکھا ہوتا ،شائد اس لئے کہ آج ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہم میں حوص،لالچ ،حسد اور دیگر اخلاقی برائیاں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ ہم حلال ا و رحرام میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں ، ایک دوسرے کو نیچے دباتے ہوئے ،سیڑھی سمجھتے ہوئے حتیٰ کہ کچلتے ہوئے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔

آج !کیوں ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں ؟کیوں ہماری باتوں کی وُہ تاثیر باقی نہیں رہی؟کیوں ہماری اولادیں ہمارا کہنا نہیں مانتی ہیں؟کیوں ہم حضرت محمدﷺ کے اُمتی ہوتے ہوئے بھی ذلیل وخوار ہو رہے ہیں؟کیوں ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں ؟ ہم امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں مگر پھر بھی کیوں سکون نہیں ؟امیر ہو یا غریب ہر کوئی کیوں پریشان ہے ؟روپے پیسے کا آتے ہوتے تو پتہ چلتا ہے مگرجاتے ہوئے کا نہیں۔۔۔۔۔؟ وجہ کیا ہے؟وجہ صرف یہی ہے کہ ہمارے اندر حلال و حرام کی تمیز باقی نہیں رہی ،ہم دولت کی حوص اور لالچ کی زد میں آگئے ہیں،ہم جائز ونا جائز میں فرق کرنے سے بھی قاصر ہیں۔اس کا حل صرف یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنی منزلِ مقصود کو پانا ہے تو ہمیں بھی اپنی’’گاڑی‘‘کی غذا کا خیال رکھنا ہو گا۔ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ’’رزق ِ حلال عین عبادت ہے‘‘۔
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 96679 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.