جفت سازوں کی چالاکی ....سیاسی چپلیاں

بھلا ہو کچھ مخصوص سیاستدانوں کا جنہوں نے نہ صرف اس صوبے کے نوجوان طبقے کو ٹھمکے ، ڈانس اور بدتمیزیاں سکھا دی ہیں وہیں پر جوتوں کی قیمتیں بھی ان کی وجہ سے بڑھ گئی ہیں-تین سال قبل جو جوتے پندرہ سو روپے میں مل جایا کرتے تھے اب ان کی قیمت پانچ سے دس ہزار تک پہنچ گئی ہے-کیونکہ پشاور کے ایک جفت ساز نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے عام سی پشاوری چپل کو ایک سیاستدان کے نام سے کیا منسوب کیا کہ دکان کے ساتھ ساتھ چپل کے ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچے، اس صورتحال سے سیاستدان کو صرف اتنا فائدہ ہوا کہ اسے مفت کے چپل ملنے لگے لیکن دکاندار کا فائدہ حساب کتاب سے اوپر ہے، اور نقصان اٹھایا تو صرف اور صرف غریب عوام نے جس کے لئے سال میں یہ ایک بار کی عیاشی بھی خواب بن کر رہ گئی۔مذکورہ دکاندار نے سب سے پہلے تو مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے ان جوتوں کو خوب مشہور کروایا، وہ بھی مفت میں ، بعض صحافیوں نے تو اس پر آرٹیکل بھی لکھ ڈالے-یہ الگ بات کہ مخصوص صحافیوں کو مفت میں چپلوں کی جوڑی مل گئی-لیکن اس کا زور ان جفت سازوں نے عوام سے نکالنا شروع کردیا اور کئی دہائیوں سے ایک ہزار سے پندرہ سو روپے میں فروخت ہونیوالے جوتوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی- مصنوعی طور پر قیمت بڑھانے کیلئے مشہور کروانے کے بعد موچی صاحب نے وہ جوتے تو تحفے میں سیاستدان کو دیدئیے اور سیاستدان نے بھی قبول کرلئے لیکن ان کی دیکھا دیکھی اب ہر کوئی ایک مخصوص برانڈ کے جوتے خریدنے کیلئے کوشاں ہیں- بعض ایسے دیوانے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے صرف اس لئے جوتے خرید رہے ہیں کہ اسے ان کے پسند کے سیاستدان پہنتے ہیں
عیدالفطر پر جوتوں اور نئی چپل کی خریداری ایک روایت بھی ہے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ سال میں ایک مرتبہ نئے کپڑوں کیساتھ نئی چپل بھی خریدی جائے لیکن کچھ عرصے سے یہ چپل بھی اب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہے اور اس میں سب سے بڑا قصور سیاستدانوں کا ہے- یقیناًیہ عام لوگوں کیلئے باعث حیرانگی ہوگا کہ اس میں سیاستدانوں کا کیا قصور ہے -خیبر پختونخوا میں چارسدہ کا علاقہ چپل /جوتوں کے حوالے سے بہت زیادہ مشہور ہے جہاں ایک مارکیٹ صرف چپلوں کی بنانے اور اس کے خریداری کے لئے مخصوص ہے- اور کچھ عرصہ تک اسی مارکیٹ سے لوگ اپنے لئے چپل کی خریداری کرتے تھے بعض سیاستدان بھی اسی مارکیٹ کے جفت سازوں سے اپنے لئے جوتے بنایا کرتے تھے- اس وقت یہ مقولہ سننے کو ملتا تھا کہ بھائی جوتے جتنے بھی قیمتی ہوں ، پیروں میں ہی پہننے ہیں اس لئے جوتوں کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی پانچ سو سے لیکر پندرہ سو روپے تک بہترین جوتے مل جایا کرتے تھے اورعام لوگ بھی سال میں ایک مرتبہ خریداری کرکے اسے اگلے عید تک استعمال کرتے تھے- لیکن بھلا ہو کچھ مخصوص سیاستدانوں کا جنہوں نے نہ صرف اس صوبے کے نوجوان طبقے کو ٹھمکے ، ڈانس اور بدتمیزیاں سکھا دی ہیں وہیں پر جوتوں کی قیمتیں بھی ان کی وجہ سے بڑھ گئی ہیں-تین سال قبل جو جوتے پندرہ سو روپے میں مل جایا کرتے تھے اب ان کی قیمت پانچ سے دس ہزار تک پہنچ گئی ہے-کیونکہ پشاور کے ایک جفت ساز نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے عام سی پشاوری چپل کو ایک سیاستدان کے نام سے کیا منسوب کیا کہ دکان کے ساتھ ساتھ چپل کے ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچے، اس صورتحال سے سیاستدان کو صرف اتنا فائدہ ہوا کہ اسے مفت کے چپل ملنے لگے لیکن دکاندار کا فائدہ حساب کتاب سے اوپر ہے، اور نقصان اٹھایا تو صرف اور صرف غریب عوام نے جس کے لئے سال میں یہ ایک بار کی عیاشی بھی خواب بن کر رہ گئی۔مذکورہ دکاندار نے سب سے پہلے تو مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے ان جوتوں کو خوب مشہور کروایا، وہ بھی مفت میں ، بعض صحافیوں نے تو اس پر آرٹیکل بھی لکھ ڈالے-یہ الگ بات کہ مخصوص صحافیوں کو مفت میں چپلوں کی جوڑی مل گئی-لیکن اس کا زور ان جفت سازوں نے عوام سے نکالنا شروع کردیا اور کئی دہائیوں سے ایک ہزار سے پندرہ سو روپے میں فروخت ہونیوالے جوتوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی- مصنوعی طور پر قیمت بڑھانے کیلئے مشہور کروانے کے بعد موچی صاحب نے وہ جوتے تو تحفے میں سیاستدان کو دیدئیے اور سیاستدان نے بھی قبول کرلئے لیکن ان کی دیکھا دیکھی اب ہر کوئی ایک مخصوص برانڈ کے جوتے خریدنے کیلئے کوشاں ہیں- بعض ایسے دیوانے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے صرف اس لئے جوتے خرید رہے ہیں کہ اسے ان کے پسند کے سیاستدان پہنتے ہیں-

اب تو حال یہ ہے کہ پشاور میں ایک کے مقابلے میں دوسرے جفت ساز نے دوسرے سیاستدان کیلئے الگ جوتے بنا دئیے ہیں- جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے ان جوتوں میں قیمتی جانوروں کا چمڑا استعمال کیا ہے ،ہیں اس لئے ان کی قیمتیں زیادہ ہیں- لیکن اب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ مخصوص جانوروں کا چمڑا انہوں نے کہاں سے خریدا ، کیا غیر قانونی شکار کیا گیا تھا کیا یہ قیمتی چمڑے خریدے /بیچنے والے جفت ساز کتنا ٹیکس دیتے ہیں- روزانہ کے حساب سے سینکڑوں جوتے فروخت کرنے والے ان موچی صاحبان کے گوشوارے کوئی چیک کررہا ہے کہ نہیں لاکھوں روپے مہینے میں جمع کرنے والے ان موچی صاحبان کب سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں-

مزے کی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کے نام پر جوتے فروخت کرنے والے ان موچی صاحبان کی آپس میں رشتہ داری ہے ، ایک جفت ساز ایک سیاستدان کے جوتے بنا رہا ہے تو دوسرا اس کا رشتہ دار موچی اسی کے مخالف سیاستدان کے نام سے جوتے بنا رہا ہے - جسے بعد میں مخصوص افراد کی مدد سے ان افراد کو پہنچایا جائیگا اور پھر اخبارات/ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کی باقاعدہ تشہیر کی جائیگی کہ دیکھ لو ہمارے ہمارے ہاتھ کے بنائے ہوئے جوتے " صاحب"جی بڑے شوق سے پہنتے ہیں- یہ صاحبان بڑے شوق سے کیمروں کے سامنے یہ جوتے پہنتے بھی ہیں (وہ اور بات ہے کہ جب یہ جوتے گھروں میں کھاتے ہیں تو کسی کو نظر نہیں آتے)ان جوتوں کی تشہیر ہونے کے بعد عوام پاگلوں کی طرح مخصوص جوتوں کی خریداری پر امڈ کر آتی ہیں اور پندرہ سو روپے کے جوتے سات سے آٹھ ہزار روپے میں خرید کر بڑے اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں اور بعض تو فیس بک پر تصویریں بھی شیئر کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں سیاستدان کے نام سے بننے والی چپلی پہن لی ہیں-

سیاستدانوں کے جلسوں میں ڈانس کرنے والی یہ قوم گذشتہ کئی سالوں سے سیاستدانوں کے کارنامے سے پریشان ہیں معاشی بدحالی کا شکار، دہشت گردی سے متاثرہ ، بیروزگاری سے نالاں ، عوام پھر بھی سیاستدانوں کی نقل کرنے سے باز نہیں آتے اور نقل بھی ایسی جو ان کا چمڑا تک اتاردیتی ہے لیکن پھر بھی زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والے یہ لوگ مخصوص قسم کے جوتوں کیلئے خوار ہورہے ہیں بعض اوقات تو لوگوں کی بے وقوفی دیکھ کر دل کرتا ہے کہ انہی جوتوں کو ان کے سروں پر استعمال کیا جائے تاکہ ان کی عقل ٹھکانے آجائے (ویسے جتنا موٹا سول ان جوتوں میں استعمال ہو رہا ہے یقینی بات ہے کہ عقل کے ٹھکانے تک آنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا) سیاستدان کا کیا ہے کیونکہ بیشتر کی آف شور کمپنیاں ہیں ، جن کے ٹی او آرز پر تین ماہ سے زائد کا عرصہ لگ گیا لیکن اس پر کوئی متفق نہیں ہورہا کیونکہ پھر سب پھنستے ہیں اس لئے ڈرامے جاری ہیں-اور بے وقوف عوام صرف جوتے کی خریداری پر اپنا چمڑا اتارنے کیلئے کوشاں ہیں
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498157 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More