عید کی خریداری میں معتدل بنیں،فضول خرچی،سیروتفریح اور قرض سے پرہیز کریں
(Ata Ur Rehman Noori, India)
عید کا دن اﷲ کی عبادت کرنے اور شکر بجا لانے کاہے نئے کپڑے پہننا ضروری تونہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزعلیہ الرحمہ
جس دن میں اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لیے تو وہی دن’’ یوم عید‘‘ ہوگا۔سیدناغوث اعظم جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ
|
|
رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقیقی
روح قومِ مسلم میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر
اسلامی تہذیب وتمدن بھی امتدادِ زمانہ کا شکارہو رہی ہے۔مغربی تصورات نے
ہماری سوچ وفکر، احساس ومروت،اخلاص و اخلاق جیسے عظیم اوصافِ حمیدہ سے عاری
کر دیاہے۔اسی وجہ سے عید کا اسلامی تصور ہم میں فنا ہو کر رہ گیاہے۔عمدہ سے
عمدہ نئے ملبوسات زیب تن کرنا، خرید و فروخت میں اسراف کرنا،بے جا مقامات
پرسیرو تفریح کرنااور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے قرض لیناوغیرہ․․․․․․․بس
انہی سب چیزوں کو ہم نے عید سمجھ رکھا ہے۔جبکہ عید کا دن تو حسن سلوک کی
تعلیم،غریبوں و مسکینوں سے ہمدردی،یتیموں ومفلسوں کی کفالت کا جذبہ عطا
کرتا ہے۔اسی لئے تو مذہبِ اسلام نے عید کے دن نمازِعیدالفطر سے پہلے صدقہ
فطر کا نظام قائم فرمایا۔صدقہ فطر ایک بہترین ذریعہ ہے غریبوں،مسکینوں اور
یتیموں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا۔مگر افسوس!ہم عید کے اسلامی تصور
سے غافل ہوگئے،مگر ذہن نشین رہے!عید کی حقیقی خوشیاں اسی وقت حاصل ہوگی جب
ہم غمگسارِ امت مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی تعلیمات اوران طریقے کے مطابق عید
منائیں گے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہے امید ہے کہ مسلمان اسلامی
تصور کو سمجھیں، اپنائیں اور خدا و رسول کی رضاوخوشنودی حاصل کریں۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ عید کے دن زاروقطار رورہے
تھے۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا کہ یا امیر المومنین!آج تو عید کادن ہے پھر
آپ کا رونا کیسا؟آپ نے فرمایا : ’’ھذایوم العیدوھذایوم الوعید‘‘ائے لوگو!یہ
عید کا دن ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔آج جس کے نمازوروزہ مقبول ہوگئے بلا
شبہ اس کے لئے آج عیدکا دن ہے لیکن جس کی نماز اورروزہ مردود کرکے اس کے
منہ پر مار دیا گیا ہو اس کے لئے تو آج وعید کا دن ہے ۔میں تواس خوف سے
رورہاہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں مقبول ہواہوں یا رد کر دیا گیا ہوں‘‘۔
حجۃ الاسلام امام محمد الغزلی قدس سرہ العزیز، تزکیہ نفس اور معاشرت پراپنی
ایک عظیم اصلاحی شاہکارکتاب’’ مکاشفتہ القلوب ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں
کہ’’حضرت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنتے
دیکھا تو رو پڑے۔ اب تک جس سفید پیشانی سے نور کی کرن پھوٹ رہی تھی اب وہاں
لالہ کی طرح دہکتے عارض پر موسم خزاں کی اداسی چھاگئی۔بیٹے نے کہا ابا جان!
آپ کس لیے روتے ہو؟ آپ نے فرمایا: ائے میرے گلشن حیات کے مہکتے ہوئے غنچے!
مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پھٹی پرانی قمیص میں دیکھے
گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا اور قلب کی پھولوں سی شاداب پنکھڑی مرجھا جائے
گی۔ مسحور کر لینے والی ایک ادائے دلبرانے کے ساتھ لخت جگر نے جواباً عرض
کیا: دل تو اس کا ٹوٹے جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکاہو اور مجھے امید ہے کہ
آپ کی رضا مندی کے طفیل میرا مولا مجھ سے راضی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ رو پڑے،بیٹے کو گلے لگایا اور اس کے لئے دعا کی۔(مکاشفۃ القلوب صفحہ
نمبر ۶۵۱)
رحمت الٰہی کے گلشن دل ربائی کے شگفتہ پھول،بڑے بڑے لالہ رخوں، مہ جبینوں
اور گل رویوں کا نگار خانہ جمال یعنی تسلیم ورضا کی وادی بے اماں، چمنستان
قدس کی نازک کلی، شہنشاہ کو نین، صاحب قاب قوسین مصطفےٰ جان رحمت ﷺ اپنی
امت کو رضائے الہٰی معلوم کرنے کا بڑا بہترین فارمولا عطا کرگئے۔ آپ ﷺنے
فرمایا: اﷲ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی میں ہے اور اﷲ کی ناراضگی ماں
باپ کی ناراضگی میں ہے۔(برکات شریعت،حصہ اول صفحہ نمبر ۲۲۴)گویا کہ عید نام
ہے رب کی رضا حاصل کرنے کااور رب کی رضا مندی مبنی ہے والدین کی رضا مندی
پر ۔
دست گیر کونین، شیخ الثقلین، خواجہ کائنات ،سلطان الاقطاب، مخدوم الوریٰ،
غوث اعظم امام جیلانی محبوب سبحانی سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ اپنی
ایک رباعی میں ارشاد فرماتے ہے
خلق گوید کہ فردار روز عیدا ست
خوشی در روح ہر مومن پد ید است
دراں روزے کہ با ایمان بمیرم
مرادر ملک خود آں روز عید است
یعنی لوگ کہہ رہے ہیں کل عید ہے ،کل عید ہے اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس
دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عیدکا دن
ہوگا۔
عید سے ایک دن قبل امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزعلیہ الرحمہ اپنی
صاحبزادیوں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ جو کپڑے تم نے پہن رکھے ہیں انھیں دھوکر
کل پہن لینا۔بچیوں نے نئے لباس کی ضد کی تو آپ نے فرمایا:’’میری
شہزادیوں!عید کا دن اﷲ کی عبادت کرنے اور شکر بجا لانے کاہے نئے کپڑے پہننا
ضروری تونہیں۔‘‘مگر بچیوں کے اسرارپرآپ نے خازن کو طلب کرکے فرمایا:مجھے
میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو تاکہ میں اپنی لڑکیوں کے نئے لباس
مہیاکر سکوں۔خازن نے عرض کی۔حضور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مہینے تک
زندہ رہیں گے؟آپ نے فرمایا’’جزاک اﷲ!تونے بے شک عمدہ اور صحیح بات کہی‘‘اور
وقت کے امیر المومنین کے خاندان نے پرانے لباس میں نمازِعید ادا کرکے اﷲ کا
شکریہ ادا کیا۔اور دنیا کو بتا دیا کہ عید صرف نئے لباس پہننے کا نام نہیں
بلکہ مقصودِعید تو شکر ِالٰہی ہے۔اس روایت سے ان لوگوں کوسبق حاصل
کرناچاہیے جو اپنی اور گھروالوں کی خواہشیں پوری کرنے کے لیے قرض لیتے
ہیں۔جب وقت کے امیر المومنین پُرانے لباس میں عید مناسکتے ہیں تو ہم کیوں
نہیں؟
عید کے دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ بیش قیمت پیرہن ملبوس
کئے ہوئے عیدگاہ کی جانب روانہ تھے،اثناءِ راہ آپ کی نظرایک نابینا پرپڑی
جورہِ گذر کے قریب اُداس وغمگین کھڑا تھا،جذبہ ایثار وقربانی سے سر شار
خواجہ صاحب نے اپنے نئے کپڑے اس نابینا کو دے کر اپنے نانانبی اکرم ﷺ کی
سنت پر عمل کیا(واضح رہے ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے عید کے دن حسنین کریمین
کے نئے کپڑے یتیموں کو عطا کئے تھے۔ ) اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔اس روایت سے
امیروں کو درس حاصل کرنا چاہیے کہ صرف اپناخیال نہ کریں بلکہ معاشرے میں
موجود غریبوں کی ضرورتوں کوبھی پوراکرو،اسی میں عید کی سچی خوشی ہے۔
اﷲ اکبر!کیسا روح پرور منظر ہوگا؟ کیسا نور برس رہا ہوگا ان قدسی صفت اسلاف
کرام پر جن کا مقصود عید کے دن بھی رضائے الٰہی تھا۔وہ عید کے دن بھی سنتوں
کے عامل نظر آتے۔مگر افسوس!آج ہم ماہ رمضان میں عبادت وریاضت کی جانب توجہ
کرنے کی بجائے عید کی خوشیوں کو دوبالاکرنے میں مگن رہتے ہیں۔نہ ہمیں
غریبوں کاخیال ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کا۔ہم خوش ہے اپنی من چاہی
زندگی میں۔خداراخدارا!شریعت اسلامیہ کی روشنی میں اپنے کردارواعمال
کوسنواریں،عید پر بے جاسیروتفریح کرنے کی بجائے ان پیسوں سے ضرورت مندوں کی
مددکریں اور کوشش کریں کہ ماہِ رمضان جیسی عبادت والی زندگی تاحیات گزارنے
کی۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے مولیٰ ہمیں عید کے اسلامی تصور کو سمجھنے اور عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین |
|