ریکارڈ اور تقابل!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
شیو چرن کو راجستھان کا رہائشی بتایا گیا
ہے، اس کی عمر 84برس ہے اور وہ میٹرک کا امتحان دے رہا ہے۔ یہاں تک کی خبر
ایک عام خبر ہے مگر اس کی دلچسپی آگے ہے، موصوف نے شرط رکھی تھی کہ میٹرک
کروں گا تو شادی کروں گا، وہ عمر کے آخری حصے تک میٹرک کر سکا اور شاید نہ
ہی شادی۔ اس خبر کا مزید دلچسپ اور اہم حصہ یہ ہے کہ شیو چرن آٹھ دہائیاں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا رہا، بلکہ اس نے تقریباً 47مرتبہ میٹرک کا
امتحان دیا، مگر ہر دفعہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس نے ہمت
نہیں ہاری۔ اب اس کا کہنا ہے کہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے میں بھی دشواری
کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور امتحان دینے کے لئے بھی اسے تقریباً ڈیڑھ سو
کلومیٹر کے قریب سفر کرنا پڑتا ہے۔
یہ فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، کہ آیا شیو چرن اپنے منزل پانے میں
کامیاب ہوگا، یا زندگی کی بے وفائی کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ اگر اسے کچھ اور
مہلت مل جائے تو وہ فیل ہونے کی نصف سینچری ضرور مکمل کرسکتا ہے، لیکن یہ
مہلت قسمت کے ہاتھ میں ہے۔ خبر سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ آیا شیو چرن نے جس
شادی کے لئے میٹرک کی شرط عائد کی تھی، یہ خود ساختہ تھی یا کسی نازنینہ کا
مطالبہ تھا۔ اگر یہ فریق ثانی کا مطالبہ تھا تو آیا وہ فریق بھی موصوف کے
پاس ہونے کے انتظار میں بیٹھا ہے، یا اس کے فیل ہونے کی ہیٹرک مکمل ہونے کے
بعد اپنی راہیں جدا کر چکا تھا۔ اگر راہیں جدا ہو چکی تھیں اور محترمہ کسی
اور کے آنگن کی تُلسی بن چکی تھی تو شیو صاحب کو بھی اس شرط کے پیچھے اس
قدر بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ میٹرک کی منزل جس شرط پر حاصل کی
جارہی تھی، وہ منزل ہی اپنا وجود کھو چکی تھی۔ وقت گزرنے کے بعد میٹرک کرنے
سے کون متاثر ہوتا۔ یا پھر یہ ہوتا کہ جب موصوفہ نے دیکھ لیا تھا کہ مجنوں
سے میٹرک نہیں ہوتا، توا س پر ترس کھاتے ہوئے اسے میٹرک سے مستثنا ہی قرار
دے دیتی، تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اور کسی مجنوں سے شادی کرنے کی اپنی۔
جس تعلیمی بورڈ سے شیو چرن امتحان دے رہا ہے، وہ بھی شاید اپنا مستقل ذریعہ
آمدنی ضائع نہیں کرنا چاہتا، ممکن ہے کہ بورڈ نے اس کیس کو خصوصی کیس کے
طور پر اہمیت ہی نہ دی ہو، بس ہر سال ایک آدمی آتا ہے ، داخلہ فیس بھرتا ہے،
امتحان دیتا ہے، ناکامی کی صورت میں اگلے برس پھر امیدوار بن کر آجاتا ہے۔
اگر بورڈ والے غور کرتے تو پانچ سات مرتبہ فیل ہونے پر امیدوار کو بلاتے،
جن مضامین میں موصوف کے پاس ہونے کے امکانات نہیں تھے، ان میں رعایتی نمبر
دیتے اور ایک تقریب کرکے سند اُس کے ہاتھ میں تھماتے۔ پانچ سات کا تو ذکر
ہی کیا، یہاں تو بات پانچ دہائیوں تک پہنچ گئی، مگر کسی نے اس کو اعزازی
سند دینے کا اعلان نہ کیا۔ شاید اب بورڈ والے اس انتظار میں ہوں کہ وہ نصف
سینچری مکمل کرلے تب ہی اسے کسی اعزاز کے ساتھ میٹرک کی سند سے نوازا جائے،
تاہم بورڈ والوں کو مزید ریکارڈ کے چکر میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہیے،
یہ نہ ہو کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ بورڈ نے اگر اپنی آمدنی کے چکر
میں شیو چرن کو رعایتی نمبر دے کر پاس نہیں کیا اور میٹرک کی سند سے نہیں
نوازا، تو بھی وہاں کی صوبائی حکومت، یا تعلیم کی وزارت یا کوئی این جی او
یا کوئی بڑی شخصیت ہی اس کام کا بیڑہ اٹھا لیتی اور اس بیچارے کی میٹرک سے
جان چھوٹ جاتی۔ بزرگ شہریوں کو حکومتیں جہاں بے شمار دیگر سہولتیں فراہم
کرتی ہیں، انہیں بہت سے معاملات میں استثنا حاصل ہوتا ہے، اگر یہاں بھی ہو
جاتا یا اب بھی ہو جائے تو یہ بھی ایک ریکارڈ ہی ہوگا۔ راجستھان میں چوراسی
سالہ میٹرک کے سٹوڈنٹس کو دیکھ کر اپنے چولستان کے مناظر بھی آنکھوں کے
سامنے آجاتے ہیں، راجستھان اور چولستان سرحد کے آر پار ہیں، مگر دونوں کی
صورت حال ایک دوسرے کے برعکس ہے، بھارت نے وہاں نہروں کو ’اپ لِفٹ‘ کر کے
علاقے کو سیراب کرنے کی کوشش کی ہے اور پاکستان کے اس علاقے میں خشک سالی
کے ڈیرے رہتے ہیں۔ وہاں انہوں نے صحرا میں موجود قلعوں میں ثقافتی رنگ
بکھیرے ہیں، یہاں چولستانی قلعے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ وہاں چوراسی سالہ
بابے میٹرک کے پیچھے بھاگتے ہیں ، چولستان میں شرح تعلیم نہ ہونے کے برابر
ہے۔ |
|