نسخ فی القرآن پر استشراقی موقف
(Hafiz Irfan Ullah Warsi, Bahawalpur.)
نسخ فی القرآن کی تعریف:
شریعیت اسلامیہ کی رو سے کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر کسی دینی حکم کا آٹھ جانا اور باقی نہ رہنا نسخ ہے۔ نسخ فی القرآن سے مراد قرآنی آیات مبارکہ ہیں جو قرآن ِ پاک سے ختم کردیں گئی ہیں۔
|
|
نسخ فی القرآن کی تعریف:
شریعیت اسلامیہ کی رو سے کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر کسی دینی حکم کا آٹھ
جانا اور باقی نہ رہنا نسخ ہے۔ نسخ فی القرآن سے مراد قرآنی آیات مبارکہ
ہیں جو قرآن ِ پاک سے ختم کردیں گئی ہیں۔
استشراقی کی تعریف:
اس سے مرادغیرمشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں ،تہذیب،فلسفہ،ادب ،ثقافت اور
مذاہب کے مطالعےمیں مشغول ہونے کانام استشراقی ہے۔
نسخ فی القرآن پر استشراقی موقف کا پس منظر:
مشہور مستشرق ایف ،بہل نے دعویٰ کیا ہے کہ عہد رسالت ﷺ کی ابتداء میں قرآن
کریم کی آیات لکھی نہیں جاتی تھیں۔ بلکہ اُن کی حفاظت کا سارا دارومدار
آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے
اصحاب کے حافظہ پر تھا ، چنانچہ یہ عین ممکن ہےکہ ابتدائی زمانہ کی قرآنی
آیات محفوظ رہی ہوں ، اس دعوے کی دلیل میں ایف ،بہل نے قرآن کریم کی دو
آیتیں پیش کی ہیں:
سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾ اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ ؕ اِنَّہٗ
یَعْلَمُ الْجَہۡرَ وَ مَا یَخْفٰی ؕ﴿۷﴾
اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے ۔ مگر جو اللّٰہ چاہے بے شک وہ
جانتا ہے ہر کُھلے اور چُھپے کو۔
(سورۃ اعلیٰ :۶)
مَا نَنۡسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنْہَاۤ اَوْ
مِثْلِہَا ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾
جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے
آئیں گے کیا تجھے خبر نہیں کہ اللّٰہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔(سورۃ البقرۃ: ۱۰۶)
اعتراض کاجواب:
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں جو اعتراض کیا گیا ہے وہ اعتراض رسول اللہ ﷺ
اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حفاظِ پر کیا گیا ہے ۔
مگر اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی تفسیر تھوڑی سی بھی جانتا ہے تو اس کو
معلوم ہو جائے گا کہ ان دونوں آیات مبارکہ میں قرآن کریم کی منسوخ آیات
کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پہلی آیات کا شان نزول:
اس آیات مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن
کریم کی کچھ آیات لے کر نازل ہوتے ، تو آنحضرت ﷺ انہیں بھول جانے کے خوف
سےبار بار پڑھتے تھے۔اس آیت میں آپ ﷺ کو یہ اطمینان دلایا گیا کہ آپ کو
یاد کرنے کی مشقت برداشت کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی
حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ ان آیات کو بھول نہیں سکیں گے۔
لیکن اس پر یہ اشکال ہو سکتا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات تو بعد میں
منسوخ ہونے کے سبب حافظے سے محوہوگئیں، اس کا جواب دینے کے لئے " اِلَّا
مَا شَآءَ اللہُ ؕ "کے الفاظ بڑھادئے۔ جن کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ
کسی آیت کو منسوخ کرے گا تو صرف اُسی وقت وہ آیت آپ ﷺ کے حافظے سے محو
ہو سکے گی اس کے بغیر نہیں ۔
دوسری آیت میں بھی زیادہ سے زیادہ اتنا بیان کیا گیا ہے کہ بعض آیات
منسوخ ہونے کی بناء پر آپ ﷺ کے اور اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم
اجمعین کےحافظوں سے محو ہو جائیں گی۔
لہذا ان دونوں آیات مبارکہ سے زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ
ہے کہ بعض آیات کو جب اللہ تعالیٰ نے منسوخ فرمادیا تو اُن کی کتابت کو
مٹانے کا حکم تو دیا ہی گیا، مگر ساتھ ساتھ انہیں لوگوں کے حافظے سے بھی
محو کردیا گیا ، ورنہ جہاں تک غیر منسوخ آیتوں کا تعلق ہے اُن کےبارے میں
کہا جارہا ہے کہ آپ ﷺ انہیں کبھی نہیں بھول سکیں گے، اس سے بات آخر کیسے
نکل آئی کہ جو آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں ان کے فراموش ہو جانے کا بھی کوئی
امکان ہے؟
اسلام کا ابتدائی دوراور قرآن پاک:
رہا ان آیات مبارکہ کا تعلق کہ ابتدائی دور میں آیات مبارکہ کو لکھا نہیں
جاتا تھا تو یہ بات غلط ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو تی ہے
کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے بھی قرآن پاک کو
لکھا جاتا تھا اور لکھا ہوا قرآن پاک مختلف اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ
علیہم اجمعین کے پاس موجود تھا ۔
|
|