حیات مولوی

مذہبی شخصیات کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔انہیں بھی حقوق دینا چاہیے۔
موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جدید نظریات کا دور بھی ہے۔ہر فرد اپنے جداگانہ نظریات کا حامل نظر آتاہے۔آزادی اظہار رائے ہر شخص کا حق سمجھا جانے لگاہے۔میڈیا آزاد ہے کا نعرہ زبان زدعام ہے۔لیکن آج جس موضوع کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ لوگوں کی نگاہیں اور فرسودہ نظریات ہیں۔ہر شخص اپنا نظریہ اور نظریں دوسرے فرد پر مسلط کرنےکی کوشش میں ہے۔اسی فانی دنیا کی ایک یادگار موجودہ دور کاایک مظلوم طبقہ مولوی ہےجس کی حیات کے چند گوشوں پر روشنی ڈالنے کی جراءت کی جارہی ہے۔

سب سے پہلےتومولوی صاحب دوستی کے حق سے محروم ہوتےہیں اور مولوی لوگوں کا اس صنف زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ان کاکام بس نماز پڑھنا یا پڑھانا ہوتاہے۔نومولود کے کان میں اذان دینا اور بڑے ہونے پر نکاح کرنا اور دنیا سے رخصتی پر نماز جنازہ اداکرنا اس کے اہم فرائض منصبی سے تعلق رکھتا ہے۔اگر مولوی صاحب کسی اور شعبے میں قدم رکھیں تو لوگوں میں قیات صغریٰ قائم ہوجاتی ہے ۔میڈیا کی آنکھیں چار ،باتوں کی بھرمار اور نگاہوں کی یلغار شروع ہوجاتی ہےجیسے کسی ملک نے تیسری جنگ عظیم کا اعلان کردیا ہو۔مولوی صاحب کا دوستی سے کیا کام ہوسکتاہے ۔دوستی کرنااس کیلئے زہر قاتل ہے ۔اس کے علاوہ ہرکوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم علی الاعلان دوستی کرسکتا ہے خواہ وہ دوستی بوائے فرینڈ(Boy friend) کے نام سے ہویا گرل فرینڈ(Girl friend) کے نام سے۔میڈیا اس کیلئے خاموش ہے ،نگاہیں ان کیلئے اندھی ہیں۔آنکھیں کھلیں گی تو صرف مولوی کیلئے اور میڈیا منہ پھاڑے گا تو صرف مولوی کیلئے۔الغرض مولوی صاحب کو دوستی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔

اگر کوئی مولوی صاحب غلطی سےکسی تفریحی مقام کا رخ کرلیں تو کہرام مچ جاتا ہے ۔ہر طرف سے آوازے کسے جاتے ہیں۔جس کی گھر میں نہیں سنی جاتی وہ مولوی صاحب پر طرح طرح کےالزامات کی بوچھاڑ کررہا ہوتاہے۔"کسی کو ٹائم دیا ہوگا"،"کوئی دیکھ رکھی ہوگی"،"یہ مولوی ہوتے ہی ایسے ہیں"جیسے غلیظ کلمات مولوی صاحب کی طرف تیروں کی طرح پھینکے جاتے ہیں۔جدید دور کا نظریہ یہ ہے کہ تفریحی مقامات جیسے پارک یا تاریخی مقامات صرف کلین شیو (clean shave)اور دیگر جینٹل مین(Gentle men) افراد کیلئے خاص ہیں۔مولوی صاحب کیا کرنے آتے ہیں۔ان کیلئے صرف مسجد کا مصلیٰ کافی ہے۔ایسے غلط نظریات کے حامل افراد مولوی صاحب کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔کوئی تہوار ان کیلئے سازگار معلوم نہیں ہوتا ۔اپنی فیملی کے ساتھ شاپنگ کرنا ان کیلئے عیب دار تصور کیا جاتاہے۔کیا یہ مولوی صاحب اس دنیا کا حصہ نہیں؟کیا ان کےسینے میں دھڑکنے والا دل نہیں؟کیا ان کی فیملی شاپنگ کرنےکا حق نہیں رکھتی؟ مختلف تہواروں کیلئے ان کو کسی سے اجازت لینی پڑے گی کہ مولانا!تمہیں اس شرط پر بازار یا کسی مارٹ میں جانے کی اجازت ہے اگر پینٹ ٹائٹ کرکے ،ٹائی لٹکا کر بیوی کے اغل بغل آؤورنہ ہمارے مارٹ میں آنے کی جرءات مت کرنا۔کیا یہ جدید دور کے جدید نظریات ہیں جنہیں مولوی صاحب پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مولوی صاحب کسی قسم کا کھانا نہیں کھا سکتے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی محفل میں مختلف افراد کو مدعو کیا جائے اور اختتام پر کھانے کا اہتمام ہو تو مولوی صاحب کیلئے کھانا کھانا معیوب نہیں بلکہ زہر کھانےکے مترادف ہے ۔میٹھا ہو یا مرغن،بریانی ہو یا قورمہ یہ تمام غذائیں ایک جینٹل مین کے دسترخوان کی زینت ہوسکتی ہیں اگرچہ حلال کی ہوں یا حرام کی،سود کی ہوں یا رشوت کی ،چوری کی ہوں یا بھتے کی اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اگر مولوی صاحب اپنے حلال طیب مال سے کوئی چیز کھانےکی جسارت کرتا ہےتو بے شمار نادیدہ افراد کی نگاہیں مولوی صاحب کے کھانے پر گڑجاتی ہیں۔"دیکھو!مولوی صاحب فالودہ کھارہے ہیں۔"،"حلوہ کھانا تو مولویوں کا کام ہے۔"،"مولوی تو ہر وقت کھاتے رہتے ہیں"۔اگر بنظرعمیق گرد ونواح کا جائزہ لیا جائے تو فاسٹ فوڈ ،ریسٹورینٹ،ہوٹل اور باربی کیو کی زینت بننے والے لوگ اکثر سے زائد یہی جینٹل مین اور جدید فرسودہ نظریات کے حامل افراد ہوتے ہیں جنہیں مولوی صاحب کو ان دکانوں میں آنے کی اجازت لینے کا ٹھیکیدار بنایا جارہا ہے۔ان لوگوں کے منہ میں جانے والے لقمے حلال مال سے ہوں یا نہ ہوں مولوی صاحب کے منہ میں جانے والا لقمہ ان کی نذر ہوجاتا ہے۔

آخر مولوی صاحب کا کیا قصور ہے؟کیا یہی قصور ہے کہ اس نے داڑھی اور دیگر سنتوں سے خودکو سجایا ہوا ہے؟کیا یہ قصور ہے کہ یہ مبلغ ہے ؟کیا اس مولوی صاحب کا یہ قصور ہے کہ چندے کیلئے ان لوگوں کے گھروں میں جاتا ہے؟مسجد کی مختلف اشیاء خریدنے اور دیگر ضروریات مسجد کیلئے ان کے دروازوں پر دستک دیتاہے؟معذرت کے ساتھ !آج ہمارا معاشرہ اس مظلوم طبقے سے جینے کا حق چھینتا جارہا ہےان باتوں سے قطع نظر کہ ایک مولوی صاحب کو کیسا ہونا چاہیے؟ان کا کردار،گفتار سب سنت کی آئینہ دار ہونا چاہیے۔سچ کہا ہے کسی نے کہ مولانا لوگ سفید چادر کی مانند ہوتے ہیں جن پر چھوٹا سادھبہ بھی بدنما داغ نظرآتا ہے۔اپنی اس چادر کو بے داغ رکھنے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے یہ انہیں مولوی صاحبان یعنی اس مذہبی افراد کا کام ہے نہ کہ کسی دنیا داراور جینٹل مین کا۔

معذرت کے ساتھ ہمیں علمائے دین سے دور کرنے کی گھناؤنی سازش رچی جارہی ہےجس کا شکار ہمارے اپنے مسلمان بھائی ہورہے ہیں۔احادیث مبارکہ میں علماء کرام کی مجلس میں نشست وبرخاست کو سراہا گیا ہےمگر ہمیں ان دینی پیشواؤں سے دور کرکے مغربی تہذیب کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ڈاکٹر اقبال اسی سازش کو سمجھ کر فرماگئے
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی پہ مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریادبھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحا د بھی ساتھ

حدیث مبارکہ ہے:"جس نے کسی سنی عالم دین کی صحبت اختیار کی اس نےمیری صحبت اختیار کی اور جس نے دنیا میں میری صحبت اختیار کی اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میری مجلس میں بٹھائے گا۔"یہی وہ علمائے کرام ہیں جو ہمیں عشق رسول کاجام پلاتے ہیں،جذبہ جہاد ہمارے دلوں میں موجزن کرتے ہیں مگر ایک سازش کے تحت اپنے ان محسنوں سے دور کیا جارہا ہے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدی ان کے بدن سے نکال دو

آخر میں میں اپنے قارئین کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ ان علماء کرام کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی بجائے ان کی بلائیں لی جائیں اور ان کو خلائی مخلوق کی طرح گھورگھور کر دیکھنے کی بجائے معاشرے میں جینے کا حق دیا جائے ۔انہیں اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ دیگر زندگی کے لوازمات سے بھی بھرپور لطف اندوز ہونے کا موقع دیا جائے۔مولوی صاحب سے میری مراد عالم دین ہےنہ کہ ہر داڑھی رکھنے والا شخص کہ انہیں ان کے جینے کا حق دلانا ہمارا مقصد حیات ہونا چاہیے۔
abul hassan madani
About the Author: abul hassan madani Read More Articles by abul hassan madani: 3 Articles with 2377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.