صحافت کا دوہرا معیار۔۔!
(Abu Bakar Baloch, Sharjah)
معاشرے کے چاراہم ستون ہیں جن میں عدلیہ ،
فوج ،ڈاکٹر اور صحافی شامل ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک کمزور ہو جائے تو
معاشرہ نامکمل ہے ۔ہمارے پاس میڈیا کو دو شعبوں میں تقسیم کیاگیا ہے
الیکٹرانک میڈیااور پرنٹ میڈیا،پرنٹ میڈیا کا ایک نام صحافت بھی ہے ۔ صحافت
بظاہرایک چھوٹا حرف ہے لیکن اپنے دائرہ کار میں بہت وسیع ہے ،اسکی تعریف یہ
ہے کہ معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے حادثات و واقعات سے عوام کو باخبر
کرنا۔صحافت انسانیت کی خدمت کیلئے مقدس فریضہ ہے جو پتھروں کے دور سے چلا
آرہا ہے ۔مصر،چین اور عربوں کے دور جہالت میں پتھروں پہ کنندہ جو تحریریں
ملتی ہیں وہ پرانے زمانے کے صحافت کی مثالیں ہیں
دور جدید میں صحافت ایک نئے رخ کی شکل اختیار کر چکی ہے ،خبروں کے حصول
کیلئے عوام کا صحافت پہ اعتماد بحال ہوچکا ہے ،حالات حاضرہ میں صحافت سوشل
میڈیا کی صورت میں بھی کامیابی حاصل کر چکی ہے صحافت کا مقصد شہریوں تک وہ
تمام معلومات بالکل صحیح انداز میں بروقت پہنچانا ہے کہ لوگ قوم،معاشرے اور
حکومت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ صحافت کو حق و صداقت کی بنا
پہ معاشرے کے چوتھے ستون کا نام دیا گیا ہے ۔ہمارے ملک میں صحافت کا شعبہ
اختیار کرنے سے پہلے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری ضرو ری ہے جس میں باقاعدہ ایم
اے تک تعلیم حاصل کی جاتی ہے ، ایک کامیاب صحافی بننے کیلئے تاریخ کی کتب
کے مطالعے کو ترجیح دینا لازمی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ تازہ ترین ملکی ،غیر
ملکی سیاسی صورتحال کی آگاہی ہونی چاہیئے۔ادبی ،سیاسی اور مذہبی کتب کا
مطالعہ آپکی صحافتی کارکردگی میں نمایاں کامیابی کا ضامن ہے اسکے علاوہ
مشہور صحافیوں،سیاستدانوں،ادیبوں ، اعلیٰ سرکاری افسروں ،لیڈروں ، سماجی
کارکنوں اور علماء کرام کی حالات زندگی اورمصروفیت کے بارے علم ہونا چاہئے
۔اگر آپکو ان تمام فنون پہ مہارت حاصل ہے توآپ ایک کامیاب صحافی ہیں ،ایک
اچھا صحافی ہمیشہ عوام کی حرمت کا خیال رکھتا اور حق ،سچ کی آواز اٹھاتا ہے
-
آجکل کے اس دور میں صحافت جیسا عظیم فریضہ پیشے کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔احساس
انسانیت ،نیک نیتی بالکل سرے سے ختم ہو چکی ہے ،صحافت کے بازار میں چوری ،الزام
تراشی اور نا انصافی عام ہے، محض چند ہزارروپے کی لالچ میں اخبار مالکان ہر
دوٹکے کے آدمی کو صحافتی ذمہ داریاں سونپ دیتے ہیں۔ہر چلتاپھرتا دوسرا
انسان صحافی بنا پھرتا ہے ،لوکل اخباروں کی بھرمار ہے ،ایک ایک قصبے میں
ایک اخبار کے کئی نمائندے ہیں ،کچھ ماہ پہلے میرے اپنے شہر چوک اعظم (ضلع
لیہ) میں مقامی اخبار میں ایک بد نام زمانہ نوجوان کا نمائندگی کا اشتہار
لگا ہوا تھا جو کہ مقامی تھانہ میں مطلوب تھا اس پہ اسلامک لاء جیسے کیس
ہیں۔ ایسے صحافی آگے جا کے پولیس ٹاؤٹ ،چٹی دلالی کرنے والے فراڈایئے بنتے
ہیں اور غریب عوام اپنی عزت کی وجہ سے ایسے لوگوں کے ظلم برداشت کرتی ہے ۔اکثرصحافی
حضرات ایسے ہیں جنکا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے صحافت کے نام پہ سادہ لوح
لوگوں سے لوٹ مار کر کے ذاتی اخراجات پوری کرتے ہیں، ہر صحافی نے کسی نہ
کسی سیاستدان یا کرپٹ پولیس آفیسر سے تعلقات قائم کر رکھے ہیں ان کی جھوٹی
سچی بے بنیاد خبریں اور من گھڑت بیانات اخبار میں شائع کرکے منتھلیاں وصول
کرتے ہیں۔
آجکل سوشل میڈیااورپرنٹ میڈیا پہ غیر رجسٹرڈ صحافتی تنظیمیں عروج پہ ہیں ،یہ
مختلف تنظیمیں ہیں ہر تنظیم میں کسی نا کسی معروف صحافی یا ٹی وی اینکر کو
شامل کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو بیوقوف بنانے میں آسانی ہو،دراصل بعض اوقات
ان اینکرز کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ فلاں صحافتی تنظیم میں ان کا نام
شامل کیا گیا ہے ،ممبران سے تنظیمی عہدے کی مد میں فیسیں وصول کی جاتی ہیں
اگر عہدوں کی تقسیم پہ نوک جھوک ہو تو دوسرا صحافی نئے نام سے نئی تنظیم
بنا لیتا ہے ۔ان تنظیموں میں سے صرف ایک،دو تنظیموں کے علاوہ با قی تمام
صحافتی تنظیمیں جعلی اور غیر رجسٹرڈ ہیں۔یہی حال مقامی اخبار مالکان کا ہے
کہ چند ٹکوں کی خاطر نا اہل اخباری نمائندگان کی بھر مار کی ہوئی ہے ، آخر
کون اس معاشرے میں ان حالات کا سدباب کرے گا؟؟؟؟ موجودہ صورتحال میں
باکردار صحافیوں کا کام کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے ۔اگر آپ کسی کامیاب
صحافی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا یہ ایک ایک اخبار کے ساتھ
سالوں سال چمٹے رہتے ہیں اور سچے جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داری بخوبی سر
انجام دیتے ہیں۔ہم سب کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہو گاکہ غیور صحافی
معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں آجکل کے گئے گزرے دور میں بھی صحافی حضرات صحافت
کو پاکیزہ جذبہ سمجھ کے نیک نیتی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ،دراصل
یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے آج معاشرہ قائم ہے ۔اﷲ پاک ہم سب کا حامی و
ناصرہو، آمین |
|