جنسی بے راہروی۔انسان اور مرغا

 بعض دفعہ کسی کا لکھا ہوا ایک جملہ میرے قلمی جنبش کا باعث بن جاتا ہے اور نہ چا ہنے کے باوجود باعثِ تحریر بن کر کالم کی صورت بن جاتی ہے۔ آج فیس بک پر ایک پوسٹ لکھا ہوا نظر آیا تو اس مو ضوع پر لکھنے کو قلم اٹھایا، اگر چہ ہ مو ضوع بڑا حساس ہے ، پاکستانی معاشرے میں اس پر بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔مگر دل و دماغ میں آئی ہو ئی بات صفحہ قرطاس پر منتقل نہ کروں تو احساس کی عدالت میں مجرم ٹہرایا جاتا ہوں۔۔ پہلے وہ پوسٹ ملاحظہ کیجئے․․لکھا ہے․․’ ’’ قبر سے لاشیں نکال کر زنا بالمردہ کرنا․․․پانچ سال بچی کے ساتھ پانچ آدمیوں کا زنا بالجبر․․․․․․․مساجد میں قرآن سیکھنے والے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد․․․․․․اپنے جھگڑے عورتیں ونی کر کے حل کرنا․․․․․․․مگر پھر بھی ایک ہی رٹ، یورپ میں جنسی بے راہروی ہے ․․‘‘‘‘

اس تحریر کو پوسٹ کرنے والا غالبا یورپ میں جو جنسی آزادی ہے، وہ اسے جائز سمجھتا ہے۔ جسے میں ہر گز درست نہیں سمجھتا۔ہر کو ئی جانتا ہے کہ خود اس نکتہ نظر کے حامل مغربی معاشروں میں صورتِ حال ابتر ہو چکی ہے مغرب جس شخصی آزادی کا حامی ہے وہ ایک حیوانی ّآزادی ہے جس کے لئے آزادی کی کو ئی حدود و قیود نہیں۔ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ جیسے چاہے زندگی گزارے، ہم جنس پرست ہو، شادی نہ کرے۔ بچے پیدا نہ کرے وغیرہ وغیرہ، سب کچھ جائز ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مغرب کا معاشرہ اسی جنسی آزادی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے۔حرامی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔بچے اپنے والد کے نام سے ناواقف ہیں-

کم عمر بچیاں جنسی ہوس کا شکار ہو کر ما ئیں بن رہی ہیں ۔محرم رشتوں کا تقدس ختم ہو چکا ہے۔عورتیں جنسی استحصال کا شکار ہیں۔۔

مگر ہمیں اپنے معاشرے میں جنسی بے راہروی کی جو صورت اخبارات اور الیکٹرنک میڈیا میں نظر آتی ہے ،وہ بھی بہت زیادہ قابلِ مذمت ہے اور مغرب سے بھی زیادہ قابلِ افسوس ہے۔اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے ہاں ہر کو ئی ایک دوسرے سے مخفی وہ سب کچھ کرنے کی سعی کرتا ہے جس کی اسے ضرورت اور خواہش ہو تی ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایک منافق معاشرہ بنتا چلا جارہا ہے۔

ہم اپنے آپ کو کہنے کو تو بہت بڑے مسلمان ہیں، مسجدیں آباد ہیں، جمعہ کے دن تو مسجدوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہو تی مگر عملا ہم کیا ہیں ؟ ہم نے تو مغربی معاشرے کو بھی شرما دیا ہے۔ وہاں پانچ سال کے بچوں ، بچیوں سے زنا تو نہیں کیا جاتا۔وہاں جنسی تشدد کے بعد کسی کو قتل تو نہیں کیا جاتا۔مگر ہم اسلام جیسے سچے دین کے پیروکار ہو کر بھی وہ کچھ کر ڈالتے ہیں جسے زبان پر لایا بھی نہیں جا سکتا۔ اسلام ایک فطری دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے۔اگر ہم عملی طور پر اپنے معاشرے میں اسلامی طور طریقوں کو اپنا لیں تو جنسی تسکین بھی حاصل ہو سکتی ہے اور معاشرے میں موجود جنسی درندوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔

اسلام سب سے پہلے تو جنسی جذبے کی تسکین کو نکاح کی صورت میں قید کرتا ہے تا کہ فطرت کے بے لگام گھوڑے پر سوار ہو کر معاشرہ اپنا اخلاقی وجود نہ کھو بیٹھے۔ دوم اسلام معاشرے میں ہر اس چیز پر پا بندی لگاتا ہے جو اس جذبے کے لئے مہمیز کا کام دیتا ہے اور یہ جذبہ اپنی تسکین کے لئے حرام ذرائع یا محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا شروع کر دیتا ہے ۔مثلا جنسی مناظر دیکھنے کے مواقع مہیا کرنا یا ہر وہ چیز جو اس بے سمت راہی کو ڈھیل دے۔ اسلا م کسی ایسی تفریح کا قائل نہیں جو شہوت انگیز ہو اور انسان کو جنسی بے راہروی کے راستے پر ڈال دے ․ اسلام معاشرے میں اس جذبے کے کی تسکین کے لئے صرف جائز راستے کھلے چھو ڑتا ہے اور دوسری طرف ہر نا جائز راستے پر بند باندھنے کی کو شش کرتا ہے ۔اس طرح معاشرہ ان بہت سی بد اخلاقییوں ، بے راہرویوں اور قبیح جرائم سے محفوظ رہتا ہے ۔جس کا ذکر فیس بک پر ایک خاتون نے کیا ہے یا ہم اخبارات میں روز اسے ملا حظہ کرتے ہیں۔

ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جو اسلامی جمہوریہ ہے۔جہاں اسلامی اصولوں کی پاسداری نہ صرف تمام شہریوں کا فرض ہے بلکہ ریاستی حکمرانوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کا سدَ باب کرے جو معاشرے میں جنسی بے راہروی کا باعث بن رہے ہیں۔

جس مں سرِ فہرست انٹرنیٹ پر مو جود وہ فحش مواد ہے جو آج کے ہر نو جواں کے ہاتھ میں مو بائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی صورت میں موجود ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ انٹرنیٹ پر موجود ایسے تمام فحش مواد پر پابندی لگا دے یا سر جو ڑ کر بیٹھ جائے اور سوچے کہ ایسے کیا اقدامات ہو سکتے ہیں جسے اپنا کر ملک میں جنسی زیادتی اور دل ہلا دینے والے واقعات کو روکا جا سکے․حکومت نے ایک طرف تو ان کے سامنے جنسی لذت اور شہوت انگیزی کے بازار گرم کر رکھے ہیں جو انہیں اس جذبے کی اندھی تسکین کے لئے آمادہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی معاشرتی، مذہبی اور خاندانی اقدار اس بے راہروی کے آگے روک لگانے کی کو شش کر رہی ہے۔ گویا ایک طرف فطری ابال ہے جسے حرارت دی گئی ہے اور دوسری طرف اخلاقیات کی بے بس تعلیم۔اور بقولِ غالب․․․صورتِ حال یہ ہے کہ․․․
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر․․․․․․کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

یہاں مجھے ’’جون ایلیا ‘‘کی لکھی ہو ئی ایک بات بھی یا د آ رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’ ضرورت اور احتیاج کے معاملے میں مرغا اور انسان ایک ہیں ‘‘ کوئی بیماری دور کرنا ہو تو عام طور پر اس کی جڑ پکڑی جاتی ہے۔وہ بنیادی نقائص دور کئے جاتے ہیں جو مرض کا اصل باعث ہو تے ہیں ۔جسم پر کوئی پھوڑا ہو تو فاسد مادہ خارج کرنے کے لئے اسے چیر ا پپھاڑا جاتا ہے ۔ انسانی جسم اور انسانی معاشرت کے عارضے ہیں ، جہاں تک میں سمجھتا ہو ں ان میں کو ئی فرق نہیں ہے اس کا علاج بھی اسی طرح ہو نا چاہیے جس طرح انسانی جسم کا کیا جاتا ہے۔ اب حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جو انسان کو مرغا بنانے سے روکے۔ اور ملک میں روز پیش آنے والے جنسی بے راہروی کے واقعات کو روکا جا سکے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285275 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More