نبی کریم ﷺ نے منبر کے پہلے زینے پر
قدم رکھا تو فرمایا آمین پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ اسی
طرح تیسرے زینے پر قدم رکھا تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا آمین ۔نماز کی ادائیگی
کے بعد صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے
فرمایا جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف
لائے اور کہا اس شخص پر اﷲ کی لعنت ہو جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور
اس نے روزہ نہ رکھا ۔ میں نے کہا آمین ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے
کہاجس نے آپ ﷺ کا ذکر سنا اور آپ ﷺ پر درود پاک نہ پڑھااس پر بھی اﷲ کی
لعنت ہو۔ میں نے کہا آمین ۔تیسر ے زینے پر قدم رکھا تو حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے کہا ایسا شخص جس کو زندگی میں والدین ملیں اور وہ خدمت کرکے ان
کا دل خوش نہ کرسکے اس پر بھی اﷲ کی لعنت ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے پھر
کہا آمین ۔ دین کی باتیں سننا اور ان پر عمل کرنا ہم اپنی توہین تصور کرتے
ہیں ۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں جونہی امام صاحب گفتگو کا آغاز کرتے
ہیں تو آدھے سے زیادہ نمازی اٹھ کر مسجد سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے امام صاحب
نے گفتگو شروع کرکے ان کی توہین کی ہو۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم دنیاوی
تعلیم تو اس قدر حاصل کرلیتے ہیں کہ دوسروں کو بطور استاد پڑھا سکیں لیکن
ہمیں اپنے باپ کا جنازہ پڑھنا اور پڑھانا بھی نہیں آتااور غلط پڑھ کے اسے
قبر میں دفن کر آتے ہیں۔ میں جس مسجد میں نماز اور تراویح اداکرتا ہوں اس
مسجد کے ارد گرد لوگ بطور خاص نماز کے اوقات میں اپنے اپنے دنیاوی کاموں
میں مصروف نظر آتے ہیں انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ ہمیشہ
اس دنیا میں ر ہنے کے لیے آئے ہیں انہیں اپنے رب سے ملاقات کا بھی یاد نہیں
ہے۔کہا یہ جاتاہے کہ ماہ رمضان میں شیطان کو قید کردیاجاتاہے لیکن آج کے
مسلمان شیطان کی کمی کو پورا کرنے میں ہر جگہ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔وہ
کونسا جرم ٗ بددیانتی اور بے حیائی کا کام ہوگا جو اس ماہ رمضان میں ہم
مسلمانوں کے ہاتھوں انجام نہ پایا ہو ۔ ناجائز منافع خوری ٗ مقدس رشتوں کے
ہاتھ انسانیت کا قتل ٗ معصوم بچوں کے ساتھ جنسی جرائم ٗ ایک عالم دین مفتی
عبدالقوی کی ایک بے حیااداکارہ کے ساتھ گل غپوڑے ۔ یہ تمام خرافات اسی
رمضان میں انجام پائی ہیں ٗ جس میں شیطان کو بظاہر قید کردیا گیا تھا ۔ اگر
اﷲ تعالی چاہتا تو صرف کن کہتا اور پورے کائنات کے لوگ نیک اور صالح بن کے
اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے لیکن اﷲ زندگی کی سہولتیں اور آسانیاں دے کر
انسانوں کو آزماتا ہے۔ اس آزمائش سے اگر نبی اور رسول بھی نہیں بچے تو ہم
کسی کھیت کی مولی ہیں ۔ بہرکیف حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گفتگو اور نبی
کریم ﷺ کی توثیق کے بعد بھی اگر پھر ہم غفلت اور ناکامی کی زندگی کو اپنائے
رکھیں تو ہم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہوگا ۔میں سمجھتا ہوں وہ مسلمان
انتہائی بدقسمت ہیں جنہوں نے رمضان میں صحت اور تندرستی کے باوجود روزے
نہیں رکھے اور اپنا نام اﷲ اور نبی کریم ﷺ کے نافرمانوں میں لکھوا لیا ۔ اس
سے بھی زیادہ بدقسمت وہ شخص ہے جس نے اس مقدس مہینے میں بھی نبی کریم ﷺ پر
درود پاک کثرت سے نہیں پڑھا اور اپنے والدین کی خدمت کرکے انہیں خوش نہیں
کیا ۔میرے مشاہدے میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو تو دل و جان سے
محبت کرتے ہیں اور ان کے ناز و نخرے اٹھاتے ہیں لیکن والدین کے پاس بیٹھنے
اور بات سننے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ کسی بھی اولڈ پیپلز ہوم میں
جاکر ایسے بدنصیب والدین کی زیارت کی جاسکتی ہے جن کی اولادوں نے مختلف
حیلے اور بہانوں کا سہارا لے کر اپنے بزرگوں کو وہاں جمع کروارکھاہے ۔ میں
سمجھتا ہوں عید کی خوشیاں صرف اچھے کپڑے پہننا ٗ اچھے کھانے کھانا اور
پارکوں میں سیر سپاٹے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی عید کی خوشیاں تب ہی انسان
کو حاصل ہوسکتی ہیں جب اس نے روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ والدین کی بھرپور
خدمت بھی کی ہو ۔ کاش ہماری نوجوان نسل بھی یہ سوچے کہ جن پاؤں پر والدین
انگلی پکڑ کر چلنا سیکھاتے ہیں جس زبان سے وہ بچوں کو بولنا سیکھاتے ہیں
کیا ان زبانوں سے ہی والدین کے لیے توہین آمیز کلمات نکل سکتے ہیں کیا ان
کی اس توہین آمیز حرکتوں پر قدرت الہی جوش میں نہیں آئے گی۔ اس وقت ہم پر
جتنی بیماریاں اور آسمانی آفات حملہ آور ہیں۔ یہ سب کچھ خدا کی ناراضگی کا
منہ بولتا ثبوت ہے۔ کاش ہم اپنی حقیقت کو جان کر اپنے رب ٗ اپنے پیارے نبی
کریم ﷺ اور اپنے والدین کی دل سے عزت کرنا سیکھیں کیونکہ خوشیاں عیدالفطر
کی ہو ں یا کوئی اور والدین کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں ۔کسی نے کیا خوب کہا
ہے کہ بچپن میں بچے آپس میں لڑتے تھے کہ ماں میری ہے ماں میری ہے لیکن شادی
کے بعد پھر لڑتے ہیں کہ ماں تیری ہے ماں تیری ہے ۔وہ باپ جس نے اپنی پوری
زندگی تلملاتی ہوئی دھوپ اور برف جماتی سردی میں محنت مزدوری کرکے اپنے
بچوں کو اچھا مستقبل دیا اسی شفیق باپ کے سر سے گھر کی چھت اور پوتے پوتیوں
کا پیار چھین کر کتنا بڑا ظلم کیاجاتاہے ۔ایک زندگی یہ ہے جو ہم بسر کررہے
ہیں ایک زندگی وہ ہے جو موت کے بعد قبر میں شروع ہوگی اور ایک زندگی وہ ہے
جس کا آغاز روزمحشر کے حساب کتاب کے بعد ہوگا کیا ہم نے ان تینوں مقامات پر
سکھ اور چین کے ساتھ رہنے کی تیاری کرلی ہے ۔جواب یقینا نہیں میں ہوگا ۔
موت کا فرشتہ نظر آنے سے پہلے توبہ اور اصلاح احوال کی گنجائش سے فائدے
اٹھانے والے ہی حقیقت میں خوش نصیب ہوں گے اور عید کی حقیقی خوشیاں بھی
انہی کو نصیب ہوں گی جن کے سر پر والدین کا سایہ شفقت موجود ہوگا۔ |