عیدالفطر
(Muhammad Kaleem Ullah, )
خوشیوں بھرا، محبت بھرا ، انسانی مساوات اور معاشرتی ہم آہنگی کااسلامی تہوار |
|
از :مولانا محمد الیاس گھمن
دنیا کی ہر قوم اپنا ایک تہوار رکھتی ہے۔ان تہواروں میں اپنی خوشی کے ساتھ
ساتھ اپنے جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے۔عیسائیوں کا کرسمس ڈے،
ہندؤوں کی ہولی اور دیوالی اور پارسیوں کے ہاں نوروز اور مہرجان کی عیدیں
ان کے تہوار کی نمائندہ ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے
تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں عید کا دن نفسیات کی پابندی،
عیش و عشرت کے اظہار اور فسق و فجور کے افعال میں گزرتا ہے، لیکن اہل اسلام
کی عید صرف خوشی ہی نہیں بلکہ اﷲ رب العزت کی عبادت، ذکر اور شکرمیں گزرتی
ہے۔ یعنی یومِ عید خوشی و شادمانی کے ساتھ ساتھ عبادت کا دن بھی ہے۔
اہل اسلام کی عید اپنے اندر اطاعتِ خداوندی، اظہار شادمانی، اجتماعیت،
تعاون و رحمدلی کے احساسات، مال و دولت کی حرص سے اجتناب جیسے جذبات رکھتی
ہے۔اس دن جو امور مشروع کیے گئے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے انسان غمی و
مصیبت میں تو خدا کو یاد کرتا ہی ہے لیکن مسلمان اپنی خوشی کے لمحات میں
بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں رہتے۔صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم عید الفطر کے دن نماز عید سے قبل طاق عدد کھجوریں کھا کر عید گاہ
تشریف لے جاتے تھے۔
اس لیے عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھا کر جانا مسنون ہے۔ گویا اس
دن کمالِ اطاعت کا درس دیا جا رہا ہے کہ عید سے پہلے رمضانِ مقدس کے مہینے
میں روزہ دار کا نہ کھانا بھی شریعت کے حکم کی تعمیل تھی اور آج کے دن نماز
سے قبل کچھ کھا کر جانا، یہ بھی سنتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کی
تعمیل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اطاعت شعاری کیا ہو سکتی ہے؟ اس میں ایک
پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کا ہر عمل اﷲ رب العزت کے احکامات اور آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔
صحیح بخاری میں اہل نصاب کو عید گاہ جانے سے قبل صدقۂ فطر کی ادائیگی کی
ترغیب دی گئی ہے۔
گویا یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ عید کی خوشیوں میں اپنے فقراء و مساکین
بھائیوں سے غافل نہ رہو ،بلکہ تعاون اور رحمدلی کے جذبات لے کر انہیں بھی
اپنی خوشیوں میں شامل کرو۔یوں باہمی تعلقات کے جذبات پیدا ہو کر معاشرہ میں
جو امیر و غریب کے درمیان دوری ہے وہ ختم ہو۔ صدقہ فطر کی مشروعیت میں ایک
اہم امر یہ بھی کارفرما ہے کی انسان کو مال کی حرص و ہوس سے بچنا چاہیے اور
یہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ دولت خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے،میری اپنی کاوش
و کوشش کا کمال نہیں۔ جہاں باری تعالیٰ چاہیں گے وہیں خرچ کروں گا۔
عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہننے میں اﷲ تعالی کی نعمت کا اظہار ہوتا ہے۔
جامع الترمذی میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ بندے پر اس
کی نعمت کا اثر نظر آئے۔تو بندہ صاف ستھرا یا نیا لباس پہن کر اس نعمتِ مال
کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ حقیقی عید محض
زیبائش و آرائش اور فاخرانہ لباس پہننے کا نام نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچ
جانا ہی حقیقی عید ہے۔ شیخ بہاء الدین العاملی نے الکشکول میں ایک شعر لکھا
ہے:
لَیسَ العِیدْ لِمَن لَبِسَ الفَاخِرۃِ
اِنَّمَا العِیدْ لِمَن اَمِنَ عَذَابَ الآخِرۃِ
کہ عید اس کی نہیں جو فاخرہ لباس پہنے بلکہ جو آخرت کے عذاب سے بچ جائے،
عید تو اس کی ہے۔
عید کے دن عید نماز کی ادائیگی کے لیے عید گاہ کی طرف جانااور تمام
مسلمانوں کا ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا اسلام کی شان و شوکت کا
اظہار ہے، امتِ مسلمہ عملاً یہ ثابت کر رہی ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں امیر
غریب، محتاج و غنی، گورا کالا تمام برابر ہیں۔ کسی کو دوسرے پر مال و عہدہ
کی وجہ سے برتری نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں سب مساوی ہیں۔
نیز اس اجتماع میں آخرت کے دن کی یاد بھی ہوتی ہے۔ جب تمام انسان اﷲ تعالیٰ
کے حضور پیش ہوں گے، جہاں ہر قوم و قبیلہ کے لوگ جمع ہوں گے۔ تو یہ اجتماع
جہاں خوشیوں کی ساعات مہیا کرتا ہے وہاں یادِ آخرت سے بھی غافل نہیں ہونے
دیتا۔
نماز عید کی ادائیگی دراصل روزہ کی ادائیگی پر شکرانہ ہے۔ مسلمانوں نے
رمضان مقدس میں روزہ رکھا، تراویح ونوافل ادا کیے۔ غیبت، چغلی، جھوٹ،
بدکاری اور فحاشی جیسی برائیوں سے بچتے رہے۔ اعمال صالحہ کی برکات سے ان کی
زندگی میں تبدیلی آئی کہ وہ گناہوں کو چھوڑ کرتقوی و پرہیزگاری کی زندگی
بسر کرنے لگے۔اب اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ
نیکیوں کی توفیق دینے والی ذات اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ فرمانِ قرآنی کے تحت اس دن
نیکی کی توفیق پر جتنا شکر ادا کریں گے اتنی ہی توفیق زیادہ ملتی ہے۔
یہاں ایک بات کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے کہ ’’عید کی تیاری‘‘ کے عنوان
سے ہمارے معاشرے میں فضول خرچی اور اسراف کا جو رواج چل نکلا ہے شریعت اس
سے منع کرتی ہے۔ اتنی بات تو ثابت ہے کہ جو عمدہ لباس میسر ہو پہنا جائے
لیکن اگر کسی کی مالی حالت کمزور ہو تو خواہ مخواہ قرض اٹھا کر وقتی زیب و
زینت کا سامان کرنا کسی طرح درست نہیں۔عید سے دس بارہ دن قبل ہی دکھلاوے
اور ریاکاری کی نیت سے زرق برق کے لباس، مرغن کھانوں اور گھروں کی آرائش پر
جوبے جا اور بے مقصد روپیہ پیسہ اڑایا جاتا ہے شریعت کی نظر میں یہ فضول
خرچی ہے۔ قرآن مقدس میں فضول خرچی کرنے والون کو شیطان کا بھائی کہا گیا
ہے۔
نیز رمضان المقدس کا آخری عشرہ جسے ’’جہنم سے آزادی کا عشرہ‘‘ کہا گیا ہے
،کی ساری عبادات و ریاضات ’’عید کی تیاری‘‘ کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جو راتیں
گوشۂ تنہائی میں باری تعالیٰ سے عرض و مناجات میں گزرنی چاہییں وہ بازاروں
میں گھومنے میں گزرتی ہیں۔
رمضان المقدس کی آخری راتیں آخرت کمانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ مسند احمد میں
حدیث مبارک موجود ہے: اﷲ تعالی آخری رات روزہ داروں کی مغفرت فرماتے
ہیں۔انہی راتوں میں لیلۃ القدر بھی ہوتی ہے۔ لہذا ان مبارک ساعات کو فضول
کاموں کی وجہ سے ضائع نہ کیا جائے بلکہ پورے اہتمام اور توجہ کے ساتھ عبادت
میں مشغول رہا جائے اور عید کی حقیقی مسرتوں کو حاصل کرنے کے لیے شریعت
مطہرہ کے بتائے گئے فرامین پر عمل کیا جائے۔
|
|