بیٹیوں کے نام

 معاشر ے میں افراتفری ، عدم برداشت ،انتہاپسندی اور دہشتگردی عروج پر ہو ۔چاروں طرف توہم پرستی اور غربت کا دور دورہ ہو ،پوری دنیا کی نظریں آپ پر لگی ہوں ایسے حالات میں آپ کے ماضی اور مستقبل کے متعلق شکوک شبہات ناگزیر ااور آپکی کارکردگی کا منطقی نتیجہ ہوتے ہیں۔حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے کہ ان حالات میں اپنی کاوشوں اورکمزوریوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور مستقبل کے لیے اپنی راہیں متعین کی جائیں ۔

وطن عزیزمیں تعلیمی پالیسوں کی طویل داستان ہے جو کہ سیاست دانوں اور افسران کی عمدہ خیالی کا واضح ثبوت ہے۔۔تعلیم پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی باری آیٔ تو خلاصہ احوال کچھ یوں ہے۔1947میں پاکستان کے بیشترعلاقوں میں ہر پچے کودس سال کے دورانیہ ((1957میں مفت پانچ سالہ تعلیم مہیا کرنے کا واعدہ کی گیا۔یہ دعوای کیا گیاکہ تمام پاکستا ن 1967میں یونیورسل پرایمری ایجوکیشن حاصل کر لے گا۔ 1959میں مقررہ وقت کی حد کو تبدیل کرتے ہوے مزید 15سال ( (1974کا عرصہUPEکے حصول کے لیے لازمی قرار دیا گیا ۔1970میں نیٔی تعلیمی پالیسی بنای گیٔ تو1980تکUEPکاحصول ممکن تصور کیا گیا۔دو سال بعد تعلیمی کاوشوں کا جا یزہ لیا گیا تو لڑکوں کے لیے 1979اور لڑکیوں کے لیے 1984تکUEPکے حصول کی یقین دحانی کرای گی۔1976میں بلاترتیب 1983اور1987کو ٹارگٹ کے لیے موزں قرار دیا گیا۔روایت کے مطابق 1979میں UPEکوعملی جامہ پہنانے کے لیے1991,اور1993تک مدت کو بڑھا دیا گیا۔6پانچ سالہ منصوبے (1983-88) میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے100فیصد اندراج بالاتریب 1985-86اور1987-88میں حاصل کرنے میں کا میاب ہو جایں گیٔے۔یہ جا ن کر آپ کی حیرت کی انتہا ہو جاے گیٔ کہ 7پانچ سالہ منصوبے (1988-1993)میں اپنی اعلیٰ کارکردگی اعتراف کر تے ہوے بتایا گیا کہ1992-93 میں پاکستان لڑکوں کے کیے 80 فیصداور لڑکیوں کے لیے60فیصد شرح خواندگی حا صل کر لے گا۔مایوسی کی یہ کہانی جا ری ہے اور وطن عزیز تاحال 100فیصد شرح خواندگی حاصل کرنے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہونے سے قاصرہے۔

پاکستان PSLMسروے 2015کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی60 فیصد ہے۔2015کے دوران ؒلڑکوں کی شرح خواندگی 70فیصد اور ؒلڑکیوں کے لیے یہ شرح49فیصد رہی۔پاکستان کے شہری علاقوں خواتین کی شرح خواندگی69فیصدجبکہ دیہی علاقوں یہ شرح38 فیصدرہی۔پنجاب ،سندھ،کے۔پی۔کے اوربلوچستان میں یہ شرح بلاترتیب35,49,55 اور 25رہی۔مردوں اور عورتوں کی شرح خواندگی میں 21فیصد تفاوت کی معاشی،نفسیاتی،ثقافتی اور مذہبی وجوہات ہیں۔معاشی وجوہات دو طرح کی ہیں براہ راست اوربلاواسطہ۔سکول فیس، سفری اخراجات ،یونیفارم،جیب خرج اور کتابوں کے اخراجات براہ راست معاشی وجوہات ہیں ۔غریب گھرانے کے لوگوں کی ترجیح لڑکیوں کی بجاے لڑکوں کی تعلیم ہوتی ہے۔سکول میں تعلیم حاصل کر نے کی وجہ سے ؒلڑکیاں ان تمام کاموں کے لیے دستیاب نہیں ہوتیں جو روایتی طور پر ان سے منسوب ہیں۔ان کاموں پر آنے والے اخراجات بلاوسطہ معاشی رکاوٹوں کہلاتی ہیں۔روزبروز بڑھتی ہوی نجکاری اور غربت کے مقابلے میں حکومتی توجہ اور اقدامات مایوس کن ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں لوگوں کی کثیر تعداد کا یقین ہے کہ لڑکیاں پرایامال ہوتی ہیں لہذٰہ جتنی جلد ی ہو سکے ان کی شادیاں کر دینی چاہیں۔ خانہ داری اور بچوں کی پرورش کے لیے تعلیم کو غیر ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔سکول جانے کی عمر میں لڑکیوں کو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلوکاموں میں لگا دی جاتا ہے۔معاشی محتاجی کے ساتھ ساتھ عورت کی راے کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔ بعض نہایت اہم صورتوں میں عورتوں کو فیصلہ سازی کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ عورت کے ناکس العقل ہونے پر مسمم یقین رکھنے والوں کی خاصی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں شہر ی علاقوں کی نسبت ؒلڑکیوں کیلیے تعلیمی سہولتوں کا زیادہ فقدان ہے۔ذہن سازی کے مروجہ اصولوں کی رو سے لڑکیوں کیلیے سفر کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔مخلوط تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک اور علیحدہ تعلیمی اداروں کی کمی سے بھی تعلیم نسواں کی مشکالات میں اضافہ ہوا ہے۔

عورتوں کو معاشی حقوق اور مناسب سماجی مرتبہ دلانااگر واقعی حکومت کی تر جیح میں شامل ہو جاے تو پڑھی لکھی پاکستانی قوم کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔تعلیم پر کیے جانے والے اخراحات انتہای کم ہیں پاکستان سے کم آمدن والے ممالک بھی اپنے لوگوں کی تعلیم پر ہم سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔عورتوں کے لیے روزگار کے باعزت مواقع پیدا کیے بغیر لڑکیوں میں تعلیم کے رجحان کی حوصلہ افزای ناممکن ہے۔ضروری ہے کہ لڑکیوں کیلیے تعلیمی سہولیات میں اضافہ کیا جاے۔والدین کے تحفظات دور کرنے کے علاوہ تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا جاے۔ؒلڑکیوں کے بارے میں توہم پرستانہ اور غیر ساینسی رویے کو درست کرنے میں حکومت کو لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔سفر اور عورتوں کے کام کرنے کی جگہ کو محفوظ اور پر وقار بنانے کے حکومتی اقدامات میں تیزی لانی چاہیے۔ ہر بات کے لیے حکومت پر تنقد کرنے سے ہماری اپنی ذمہ داری ہرگز پوری نہیں ہو جاتی۔بحیثت والدین،کیا ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم اپنی بیٹیوں کی بے پناہ محبت کا قرض انہیں بیٹوں کے برابر مقام دے کر اتاریں؟۔ایک بھای کی حیثت سے کیا یہ ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں کہ ہم اپنی بہنوں کے لیے سکولوں ،کالجوں،یونیورسٹیوں اور چوراہوں کو محفوظ اور پر وقار بنایں؟؟کیا پاکستانی ہونے ناطے ایک پڑھا لکھا ،ترقی یافتہ ،معتدل اور متوازن پاکستان کی تعمیر ہمارے فریضہ کا حصہ ہیں؟علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے کیا اس حدیث کی نفی کرنے سے ہمارے مسلمان اور امت محمدیؐ کا حصہ ہونے پر کوی فرق نہیں پڑتا؟۔
Sadiq Hussain
About the Author: Sadiq Hussain Read More Articles by Sadiq Hussain: 2 Articles with 1998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.