اے کاش․․․یہ کاش ایسا کمبخت لفظ ہے
کہ اچھے اچھوں کو ناکوں چنے چبوا جاتا ہے۔ زندگی کی تمام نعمتیں ہونے کے
بعد بھی انسان اس ’’کاش‘‘ سے پیچھے نہیں چھڑا پایا۔ ہم سمجھتے ہیں جو فقیر
ہوئے وہ اس ـکاش سے دور نکل گئے اور زندگی روشنی نے ان سے منہ موڑ لیا۔ بات
تو وہی ہوگئی کہ فقیر آخر خو د زندگی کی رونقوں سے منہ موڑ گیا، یا زندگی
نے اِسے خود سے دور کردیا۔بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے۔ گوتم بدھ نے جب اپنی
ریاست چھوڑ کے جنگلوں کا رخ کیا تو تب بھی اے کاش کی سوچ کا پنپتا پودا
انہیں سکون نہیں لینے دیتا تھا۔ دنیا کی تمام تعیشات کے باوجود وہ ایسے
سکون کی تلاش میں تھے کہ جسے وہ بے پناہ عیش و عشرت میں بھی حاصل نہ کرپاتے
تھے۔ خواہشات کا گھوڑا بے لگام ہوجائے تو بادشاہ بھی خود کوبے بس سمجھنے
لگتا ہے۔
میرے والد صاحب ایک نہایت خوش مزاج انسان تھے۔ والدہ اسکول میں پرنسپل تھیں
اور بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ کپڑوں کی سلائی میں بھی مہارت رکھتی
تھیں۔ والد گورنمنٹ کلرک تھے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں ہوتے تھے۔ اوپر کی
کمائی کا تصور بھی نہیں تھا ورنہ والد جس سیٹ پر تھے وہاں ہم ارب پتی نہ
سہی تو کروڑ پتی تو ضرور ہوتے اور زندگی میں جو خود سے کم سے کم لکھ پتی
بننے کے لیے کوشش دن رات کرتے رہے ہیں وہ نہ کرنی پڑتیں۔ بہرحال اس بات پر
بھی یہی کہوں گی کہ اے کاش والد صاحب ․․․․․ خیر اﷲ انہیں غریق رحمت فرمائے
آمین۔ وہ نہایت ہی خوش مزاج انسان تھے، جہاں بیٹھتے لوگ بس اُن کی باتوں
اور خوب صورت صورت مسکراہٹ کے گرویدہ ہوجاتے۔ ہم کبھی کبھی اپنے گھر آنے
والے مہمانوں سے شدید عاجز آجاتے تھے کہ آخر ہمارا گھر ہی ملا ہے۔ ہر شام
سموسے اور جلیبیوں کی محفل سجانے کے لیے، لیکن والدصاحب کی عادت ہی ایسی
تھی کہ لوگ ان سے دور ہو ہی نہیں پاتے تھے۔ محدود تنخواہ تھی، لیکن بہت خوش
حالی تھی۔ والدہ نے ہمیشہ والد کا ساتھ دیا اور والد کی زندگی کی آخری سانس
تک والدہ ایک دوست ایک ہم سفر کی طرح ان کا ساتھ نبھاتی رہیں۔ والد کو ہم
سے بچھڑے ہوئے ا بتقریباً بائیس سال بیت گئے، لیکن والدہ کی عادت آج بھی
ویسی ہی ہے۔ ہمارے گھر میں مہمان کبھی کھانا کھائے بنا نہیں جا تے اور
مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حالات بدل گئے والدہ کی تربیت اور
محنت سے سارے بھائی اعلی عہدوں پر فائز ہوگئے۔ کم وسائل کے باوجود پہلے بھی
خوش حالی تھی اور اب بھی ہے، لیکن ماشاء اﷲ وسائل بہت ہیں۔
اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی اور سب سے چھوٹی اولاد ہونے کی وجہ سے مجھے والد
کی خاص محبت ملی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ عید کے موقع پر والدہ محلے بھر کی
سلائیاں کرنے کے بعد میرے لباس کی سلائی کرتی تھیں، لیکن والد چاند رات کو
میرا ریڈی میڈ سوٹ لازمی لاتے اور باہر سے خوب سارے کھانے پینے کا سامان
رات کے تین بچے تھیلیوں میں آرہا ہوتا۔ والدہ فضول خرچی پر برہم ہوتیں،
لیکن والد ایسے خوش اخلاق انسان تھے کہ مجال ہے جو ماتھے پر شکن آجائے۔ آج
سوچتی ہوں تو سب ایک خواب کی مانند لگتا ہے۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد عید کے ان دنوں میں دیکھنے والی گہماگہمی
ہے۔ کاش کا لفظ پہلے بھی تھا، آئندہ بھی رہے گا،لیکن جوحال اب ہے پہلے نہیں
تھا۔ غریب طبقہ غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر طبقہ امیر تر۔ متوسط طبقہ
تو بس خوف کا شکار ہے کہ کل کیا ہوگا۔ آج جو ہے اسے ہی دکھاوے کے لیے پیش
کردو۔ کبھی گھر میں مہمان آتے تھے تو دل کُھل جاتے تھے کہ چلو کچھ دیر کی
بیٹھک ہوگی۔یہاں وہاں کی باتیں ہوں گی چائے کا دور چلے گا اور گھر کے بچوں
کو رکھ رکھاؤ کے ڈھنگ سیکھنے کو ملیں گے، لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ
عیدیں ایسی رہیں نہ رمضان۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، جس نے عام آدمی کی
زندگی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کے بوجھ نے ایک عام آدمی سے
سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی ہے۔ وہ کلچر، جسے ہمارے لوگ مذہب کہتے اور
معذرت کے ساتھ بڑی ہی ڈھٹائی سے کہتے ہیں، کہیں نظر نہیں آتا۔ ہماری
معاشرتی اقدار ختم ہوگئی ہیں اور یہ کہنا بھی زیادتی ہوگی کہ ختم ہوگئی ہیں۔
یوں کہیے کہ ختم کردی گئی ہیں۔
ایک فیملی کو میں نے بازار میں بچوں کے لیے کپڑے خریدتے دیکھا۔ خاتون،صاحب
خانہ اور تین خوب صورت بچے۔ وہ ایک سوٹ کی قیمت پوچھتے پھر خاموش ہوجاتے،
پھر دوسرے کی پوچھتے پھر خاموش ہوتے۔ میں دور سے ان لوگوں کو یوں دیکھتی
رہی کہ انہیں احساس نہ ہو کہ میں انہیں دیکھ رہی ہوں۔ پھر میاں بیوی نے آپس
میں مشورہ کیا اور دیر تک دکان پر دونوں خاموش کھڑے رہے۔ آتے جاتے لوگ اپنی
اپنی خریداری میں مگن تھے اور بچے اپنی شرارتوں میں، لیکن ان دونوں کی
آنکھوں کی ویرانی دل کا حال کہے دیتی تھی۔ ظاہر ہے جتنے کے کپڑے تھے اتنے
پیسے ان دونوں کے پاس نہیں ہوں گے، لیکن بچوں کو عید کی خوشی بھی تو دینی
تھی، کیا کرتے۔ بہرحال وہ خاموشی سے آدھے گھنٹے بعد وہاں سے رخصت ہوگئے۔
ہاں جاتے ہوئے دونوں کی آنکھیں لال ضرور ہوگئی تھیں۔ وہ رو نہیں رہے تھے،
لیکن شاید اندر کی گھٹن انہیں چیخنے پر مجبور کر رہی تھی اور عزت کا تقاضا
تھا کہ لب خاموش رہیں۔
مجھے آج بھی اس جوڑے کی حالت یاد آتی ہے تو روح کانپ جاتی ہے کہ کتنی ہی
خوشیاں اﷲ نے مجھے دی ہیں، لیکن شاید یہ کاش میرا بھی پیچھا نہ چھوڑے جیسے
آج بہت سوں کے ساتھ بیماری کی طرح چپک گیا ہے۔ اور اس پر حکومت کی بے رحمی۔
یہاں اب دو چیزیں ہیں جو کسی حد تک ہمارے معاشرے میں متوازن رویہ پیدا کرنے
میں مدد کر سکتی ہیں پہلی تو یہ کہ ہم انفرادی طور پر دکھاوے اور مادی
اشیاء کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ سے دستبردار ہونے کی کوشش کریں۔
یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس سے نہ صرف ہمیں فائدہ ہوگا، بل کہ
ہماری آنے والی نسلوں کو وہی معاشرتی اقدار پھر سے میسر آجائیں گی جو
تقریباً ناپید ہوچکے ہیں اور یاد رکھیے یہ میرے اور آپ کے کرنے سے ہی ہوگا۔
دوسرا حل حکومت کا افراط زر کو قابو میں لانا نہایت ضروری ہے۔ مہنگائی کے
جن کو قابو میں نہ کیا گیا تو یہ ہم سب کو نگل لے گا، ہماری سوچ کو کھا
جائے گا، ہم سے صلاحیتیں چھین لے گا۔ دوسرے حل پر عمل درآمد ہونا ناممکن
لگتا ہے، بس امید ہی کی جاسکتی ہے کہ حکومت چلانے والے کچھ بہتری کی طرف
آنے کی کوشش کریں۔ مسئلے سلجھانے سے سلجھتے ہیں اور جن مسائل میں ہم ہیں
انہیں ہم ہی حل کر سکتے ہیں اور یقین جانیے یہ بہت سارے لوگوں کے لیے آپ کی
طرف سے صدقہ جاریہ ہوگا۔ کرنا فقط اتنا ہے کہ اس ’’اے کاش‘‘ کو کچھ عرصے کے
لیے خود سے پرے کردیجیے اور دکھاوے کی پالیسی پر ضرب کا نشان لگا دیجیے
جہاں اپنے لیے دس ہزار کی شاپنگ کرنا فرض سمجھتے ہیں وہاں کسی کے لیے ہزار
روپے نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔یہ رقم خیرات نہیں تحفے کی صورت میں دیجیے۔
لوگوں کو گھر بلائیے، ان سے گھر جا کرملیے، خیر کے دروازے سب کے لیے کھول
دیجیے۔ |