افطار پارٹیاں

دنیا کے لگ بھگ تمام مذاہب کے پیروکار روزہ رکھتے ہیں۔ ان کے روزہ کے مختلف اوقات، انداز ،مقاصد ہوتے ہیں۔دین اسلام میں روزہ کی خاص اہمیت ہے۔ روزہ دار کو افطار کرانے کی افادیت کا بیان بھی جا بجا ملتاہے۔ اسلام کے ہر ایک رکن میں، ہر ایک ہدایت میں ، ہر ایک فعل میں اجتماعیت پر زور دیا گیا ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون د
ریا کچھ نہیں

اجتماع کو فرد پر ترجیح ہے۔فرد کی بھی اپنی اہمیت ہے کہ اسی سے افراد بنتے ہیں۔تا ہم دین نے اجتماع پر بھر پور توجہ دی ہے۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج تمام کے تمام کا پیغام اجتماعیت ہے۔ یہ اجتماعیت ایک محلہ شہر سے لے کر ریاست اور عالمگیرسطح تک ہے۔ نماز محلہ کی مسجد، جمعہ شہر کی جامع مسجد، حج دنیا کے مرکز میں ادا کرنے کا یہی واضح پیغا م ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصد عبادات ہی نہیں بلکہ انسانی معاملات ہیں۔انسان مل کر ، اتحاد و اتفاق سے کام کریں۔ ایک دوسرے کی دیکھ بال کریں۔ خوشی غمی میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

عبادات اور معاملات کیا ہیں۔ اس پربہت کچھ مختلف انداز میں لکھا جا چکا ہے۔ عبادات کا بھی بنیادی مقصد معاملات کا بہتر بنانا ہے۔ انسان کا انسان کے کام آنا، اس کے دکھ درد، خوشی غمی میں شریک ہونا، اس کے ساتھ تعاون کرنا، اس کی تیمار داری کرنا، اس کے لئے تحائف کا اہتمام کرنا، اس کو اپنے دسترخوان میں شامل کرنا وغیرہ ان میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ کے حقوق کے ساتھ اﷲ کے بندوں کے حقوق کا بھی زکر ہے۔بندوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔

روزہ کا بھی ایک بڑا مقصد یہی ہے۔ ایک مالدار، خوشحال، کشادہ رزق والا شخص روزہ رکھتا ہے تو اسے بھی ایک بھوکے اور پیاسے کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ اس پر بھی یہ دور گزرتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے مال اور رزق میں غریب اور محتاج کو بھی شامل کرنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ایسا وہی کرتا ہے جسے اﷲ پاک ہدایت دیں اور اسے اس کی توفیق ملے۔ اسے اس پر دلی سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہی سکون قلب ہے جس کی ہر کسی کو تلاش ہوتی ہے۔ وہ افطاری میں بھی ان غریبوں مزدوروں، مسافروں، طلباء وغیرہ کومدعو کرتا ہے۔

آج کی افطار پارٹیاں، ان کے مقاصد اور ان میں شریک لوگوں کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ہر اچھائی میں ملاوٹ کر دی ہے۔ ہمارے دسترخوان پر اب غریب اور یتیم، محتاج، مزدور، مسافرخال خال ہی نظر آتا ہے۔ ہماری زیادہ تر پارٹیوں میں شہر، محلے کے خوشحال، وزراء، سکریٹری، مال دار، امیر ، باثرلوگ شامل ہوتے ہیں۔ آپ نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں۔ ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر دیں۔ اور اب بتائیں آپ نے کن لوگوں کو مدعو کیا یا ایسا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ کے مقاصد کیا ہیں۔ کہیں یہ سیاسی مقاصد، زاتی مقاصد، مفادات اور مراعات کے لئے تو نہیں۔ کیا آپ کی افطاری کا مقصد پورا ہوا ہے۔ اگر آپ کے دسترخوان پر غریب اور مسکین، یتیم ، مزدور، مسافرنہ آسکا۔ کسی مستحق کو آپ نے افطاری نہ کرائی تو بتائیں آپ کا عمل کس کی خوشنودی کے لئے ہے۔ اﷲ آپ کی دعوت، افطاری قبول فرمائے۔ آپ کے رزق میں برکت عطا کرے۔ ہمیں صرف اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرنے پر زرا سی توجہ دینی ہو گی۔

حسن ظن کا تقاضا ہے کہ شہر میں ہونے والی ہر افطاری صرف اﷲ کی رضا کے لئے ہے۔ آپ نے رزق حلال کمایا ، اس میں سے مال خرچ کیا۔ اﷲ پاک قبول فرمائے اور آپ کو اس کا بہتر اجر عطا کرے۔ آپ کے مال میں اضافہ ہو۔ رزق کشادہ ہو۔ ہم نے اپنا جائز ہ لینا ہے۔ اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اپنا احتساب، محاسبہ کرنا ہے۔ اپنے معاملات کو درست کرنا ہے۔ اس کا علاج ہے۔ توبہ استغفار۔ توبۃالنصوۃ۔ توبہ قبول ہوتی ہے۔ جس کے بعد مزید غلطی نہ دوہرانے کا عہد و عزم ہو، اس سے بچا جائے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ توبہ کر لی۔ اب پھر وہی عمل دہرایا یاا س کی خواہش ہوئی۔ کہ پھر توبہ کریں گے۔ ایسی توبہ کے رد کرنے کے دلائل ہیں۔ ایسی توبہ ایک دھوکا ہے۔ کیا ہم اﷲ تعالیٰ کو دھوکا دے سکتے ہیں ۔ کیا ہم ملک الموت کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ کیا حکیم لقمان ایسا کر سکے۔کیا سلطان سکندر نے موت کو دھوکا دے دیا۔ کیا آج تک اس روئے زمین پر کوئی ایک بھی شہنشاہ، حکیم ایسا کر سکا ۔ نہیں کوئی نہیں کر سکا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ تو پھر بھلائی کی طرف لوٹ آنا ہی بہتر ہے۔

ہمارے وزیر، مشیر، بیوروکریٹ، سیاستدان، صنعت کار، کاروباری شخصیات، کمپنی مل مالکان،معززین شہر اور وہ سب جنھیں اﷲ نے مال و دولت سے نوازا،وہ بھی افطاری دے رہے ہیں۔ اﷲ توفیق دے۔ رزق حلال سے کمائی دولت کو خرچ کر رہے ہیں۔ ماشاء اﷲ۔ اگر ہم نے مفادات ، اپنی شہرت ، دکھاوے کے لئے کوئی بھی کام کیا۔ تو ہم نے خود کو ہی دھوکا دیا۔افطاری میں، اپنے مال میں غریبوں، مسکینوں ، مسافروں، مزدوروں کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نیت، ہمارا خلوص اﷲ بہتر جانتا ہے۔ ہماری افطاری میں اخلاص ہو گا۔ تو اس کا فائدہ اﷲ کے بندوں کو پہنچے گا۔ورنہ ایک اہم دینی فریضہ ہم سے ضائع ہو سکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی ، امریکی صدر اوباما بھی افطاری دے رہے ہیں۔اس کے مقاصد بین المذاہب مکالمہ ، سفارتکاری، احترام ہو سکتا ہے۔حکمران،امراء، روسائان میں مدعو ہوتے ہیں۔ بڑے تاجر، صنعتکار بلائے جاتے ہیں۔ ان سے چندہ لیا جاتا ہے ۔ روزہ، افطاری، شب کی تلاش سب پر سیاست، دکھاوا غالب آ جائے تو اﷲ ہی بہتر جانتے ہیں کہ اس کی جزا یا سزا کیا ہو گی۔اﷲ بے نیاز ہے۔ چاہے تو قبول فرمائے،ہمارے گناہ معاف فرمادے۔ ہماری نیت کو خالص کر دے۔اجتماعیت کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔اس معاشرے کے محتاجوں کی محتاجی ختم کرانے میں اپنے پیارے بندوں کو زریعہ بنائے۔ ہم پر روزہ اور روزہ دار کی اہمیت اور افادیت آشکار ہو سکے۔ اﷲ ہماری افطار پارٹی کو بھی قبول فرمائے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555058 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More