حکومت شاید کسی حادثے کی منتظر ہے

میں اندرون شہر گیا ہوا تھا۔ وہ چوبارے، وہ گلیاں، وہ ساتھی، وہ سنگھی جو کبھی زندگی کا حصہ تھے اب بیس (۲۰)،پچیس (۲۵) سال کے بعد ان کا کچھ وجود ہی نہیں رہا۔ میرے نانا کی وہ حویلی جہاں میں نے اپنا بچپن گزارا تھا اب ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ چیزیں اس قدر بدل گئی ہیں کہ اگر بچپن کا لمبا عرصہ وہاں نہ گزارا ہوتا تو پتہ ہی نہیں چل سکتا تھاکہ یہ کونسی گلی ہے اور یہ کونسا محلہ؟ رہائشی مکانوں کی جگہ ہر طرف مارکیٹیں ہی مارکیٹیں نظر آتی ہیں۔ موچی گیٹ کی طرف جاتے ایک جگہ کھلونوں کی مارکیٹ بنی ہوئی تھی۔ مجھے یاد آیا یہاں میرے ایک کلاس فیلو کی چھوٹی سی منیاری کی دکان تھی اور اوپر اُس کا گھر۔ پرانے گھروں کا وجود تقریباً ختم ہو چکا۔ اِکا دُکا کوئی نظر آتا ہے جس کو نشان بنا کروہاں سے گنتی کرتے کرتے آپ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے ایسے ہی اشتیاق ہوا کہ وہ گھر ڈھونڈ وں کہ جس کے نیچے میرے کلاس فیلو کی دکان اور اوپررہائش ہوتی تھی۔ چھوٹی سی دکان اور ساتھ چھوٹی سی سیڑھیاں۔ بمشکل دومرلے جگہ ہوگی۔ میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔ وہاں وہ پرانا مکان نہیں تھا۔ بلکہ میرے اندازے والی اس جگہ پر ایک اونچا سا پلازہ بنا ہوا تھا دُبلا پتلا، اونچا شاندار پلازہ، ٹائلوں سے مزین۔ میں نے دکان پربیٹھے ایک لڑکے سے اپنے د وست کے بارے پوچھا۔ کیا کام ہے اس کا سوال تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس نے ایک طرف اشارہ کیا کہ وہ سیڑھیاں اُتر جائیں نیچے کہیں ٹھنڈی جگہ پر ابا جی آرام کر رہے ہوں گے، تو یہ اس کا بیٹا تھا۔ میں سیڑھیاں اُتر گیا وہاں کوئی نہیں تھا، صرف کارٹن ہی کارٹن تھے ، اردگرد چکر لگایا، ایک جگہ سیڑھی مزید نیچے اُترتی نظر آئی۔ میں ڈرتے ڈرتے ایک منزل اور نیچے اُتر گیا۔

اس جگہ بھی ہر طرف کارٹن ہی کارٹن تھے۔ میں نے سہمے سہمے انداز میں اس جگہ بھی ڈھونڈھا، مگر مجھے میرا دوست نظر نہیں آیا۔ سامنے ایک اور سیڑھیاں نیچے جانے کو میری منتظر تھیں۔ اُن سیڑھیوں کے پاس پہنچتے ہوئے مجھے احساس ہوا جسے وہ پورا پلازہ میرے اوپر آگیا ہے اور مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ میں گھبرا کر اوپر کی طرف بھاگا۔ اوپر پہنچ کر میں نے اس کے بیٹے کو بتایا کہ میں دو منزل تک نیچے ہو آیا ہوں، مجھے میرا دوست نظر نہیں آیا۔ ہنس کر کہنے لگا، ابا جی کو گرمی لگتی ہے، اے سی میں بیٹھنا وہ پسند نہیں کرتے۔ ٹھنڈی ترین جگہ کی تلاش میں یقینا روز کی طرح تیسری منزل پر ہوں گے، ابھی بلا لیتا ہوں۔یہ کہہ کر اُس نے فون اٹھایا، یہ انٹرکام تھا۔ والد کو میرا بتایا۔ پانچ منٹ بعد میرا وہ دوست میرے پاس تھا۔

بڑے تپاک سے ملا۔ عام حالات میں کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا انتہائی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ بچھڑنے کو جی نہیں چاہتا، مگر مجھے اس باریک اور پتلے، انتہائی خطرناک پلازے میں بیٹھے وحشت ہو رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی کچھ ہو جائے گا اور میں کبھی باہر نکل نہیں پاؤں گا۔ میں نے اسے کہا کہ یہ نیا پلازہ کب بنایا؟ جواب ملا نیچے والی تین منزلیں نئی ہیں، اوپر والے ڈھانچے کو جیک لگا کر نیچے والا بنایا تھا، بعد میں اوپر والے کی مرمت اور کچھ تبدیلی کر لی ہے۔ جیک لگا کر اور اوپر وہی پرانی بلڈنگ۔ ہاں ہاں نئی بنائیں تو حکومتی اہلکار تنگ کرتے ہیں، اس لئے یہاں سبھی لوگ اسی طرح اوپر والی منزل کو چھیڑے بغیر نیچے تین چار منزلیں بنا رہے ہیں وقتی طور پر جیک لگا کر اوپر والی منزل کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ نیچے والی تعمیر مکمل ہونے پر اوپر اورنیچے کو ملا دیا جاتا ہے جیک نکال دیئے جاتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی بہت کامیاب ہے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر وحشت ہونے لگی۔ مجھے اپنے اس ہمدم دیرینہ سے خوف آنے لگا۔ چند لمحوں ہی کے بعد میں نے اس سے اجازت لی اور واپس آ گیا۔

شہر انتہائی گنجان آباد ہے۔ اس نئی ٹیکنالوجی سے بنے ہوئے مکانات شاید بارود سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔کسی حادثے کی صورت میں بہت نقصان ہو سکتا ہے۔مگر کوئی اس سنگین مسئلے پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ہر پرانے مکان یا بلڈنگ کوجیک کی مدد سے ایک جگہ ساقط رکھا جاتا ہے ۔ پہلے تین یا چار منزل تہہ خانہ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے جیک نکال کر اوپر والی پرانی بلڈنگ سے ملا لیا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اوپر والی پرانی بلڈنگ کو اس انداز سے تعمیر کیا جاتا ہے کہ محسوس ہو کہ فقط مرمت کا کام ہو رہا ہے۔حکومتی اہلکار اس قدر سادہ بھی نہیں کہ ان کو اس صورتحال کی خبر نہ ہو۔ انہیں ہر چیز کا علم ہو گا اور یقیناً یہ کام ملی بھگت سے جاری و ساری ہے۔ حکومت شاید کسی حادثے کی منتظر ہے کہ کوئی بڑا حادثہ ہو اورپھر اس مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کئے جا ئیں۔ان مارکیٹوں کو شروع ہوئے اب ستر (70) سال ہونے کو ہیں۔ موجودہ دور میں ان سے دس گنا سے بھی بڑی مارکیٹوں کی ضرورت ہے۔ ان مارکیٹوں میں کام کرنے والے تاجر جگہ کی گنجائش نہ ہونے کے سبب اتنا بڑا رسک لیتے ہیں۔ وہ آسانی سے یہ جگہ چھوڑنے کو تیار بھی نہیں ہونگے۔ مگر سوچنا ، نیا منصوبہ بنانا اور اس پر عملدرامد کرنا تو حکومت کا کام ہے شاہ عالم مارکیٹ، برانڈ رتھ روڈ، اکبری منڈی، چیمبر لین روڈ ، شو ماکیٹ، اردو بازار اور ایسی دوسری تھوک مارکیٹیں شہر کے مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث ہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت جہاں نئی نئی رہائشی سکیمیں بنا رہی ہے ان پرانی مارکیٹوں کے متبادل لاہور ہی میں کہیں موٹر وے کے قریب نئی مارکیٹیں بھی فوری طور پر بنائے جو کم سے کم لاہور کی اگلے دس سال کی ضروریات پوری کر سکیں اور اس مارکیٹ میں آنے والی ٹریفک لاہور کی اصل ٹریفک پر بوجھ نہ ہو ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500699 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More