جوہر ٹاؤن میں LDA کا ایک دفتر ہے جہاں شہر
بھر کے لوگ ایل ڈی اے کے حوالے سے اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈنے آتے ہیں۔ یہاں
عوام کی سہولت کے لئے ’ون ونڈو‘ یعنی ایک ہی کھڑکی اور تمام مشکلات دور ،کی
سہولت بھی ہے۔ ایل ڈی اے نے چونکہ سارا شہر ادھیڑ رکھا ہے اس لئے شہر بھر
کے آفت زدہ ، مصیبت زدہ علاقوں کے لوگ اس ونڈو کے محتاج ہیں۔ اس دفتر میں
آج کل اُسی آفت جو قدرتی نہیں شہبازی آفت ہے کہ مارے لوگ وہاں اس کھڑکی پر
موجود ہوتے ہیں۔ شہر میں جو بلڈنگز بنتی ہیں ان کی پارکنگ کی سہولت کو
دیکھنا ایل ڈی اے کے افسران کا کام ہے۔ مگر ماشاء اﷲ یہ افسر اس قدر ہونہار
ہیں کہ ان کی اپنی بلڈنگ اور اس کے اطراف میں پارکنگ کی سہولیات ناکافی ہی
نہیں لوگوں کی آمدو رفت کے حوالے سے نایاب ہیں۔ لوگ مجبور ہیں کہ گاڑیاں
ارد گرد دور دور تک سڑکوں کے دائیں بائیں نسبتاً محفوظ جگہوں پر لگائیں۔
دو تین دن پہلے اتفاقاً میں وہاں سے گزر رہا تھا تو ہماری مستعد ٹریفک
پولیس ،جس کا مشن ٹریفک کا نظام بہتر کرنا نہیں چالان کرنا اور خلق خدا سے
اپنی خدمت کا معاوضہ وصول کرنا ہے ،وہاں موجود تھی، ان کے پاس لفٹر بھی تھا
اور ایک ٹریفک وارڈن اس لفٹر پر بیٹھا اُونگھ رہا تھا۔ ایل ڈی کی حدود سے
ذرہ پرے ایک وارڈن سڑک کے ایک طرف سائیڈ پر کھڑی گاڑیوں سے ہوا نکال رہا
تھا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا اور اسے کہا کہ بیٹا تم ایک ذمہ دار
افسر ہو، مگر یہ جو کام کر رہے ہو یہ دنیا کا گھٹیا ترین کام ہے جس کا تصور
بھی کوئی عقل اور شعور رکھنے والا شخص نہیں کر سکتا۔تم تو عقل مند اور
باشعور ہی نہیں ایک ذمہدار افسر بھی ہو۔کچھ اپنے مرتبے کا ہی خیال کرو۔ اس
نے بڑی بے شرمی سے جواب دیا کہ یہ میری ڈیوٹی ہے اور میرے افسروں کا حکم ہے
کہ جو یہاں گاڑی کھڑی کرے ہوا نکال دو۔ کیا کہوں تہذیب یافتہ حکومت ہوتی تو
اس افسر کی ہوا نکل چکی ہوتی۔ مگر یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پولیس
کو غلط پارکنگ پر چالان کا تو حق ہے، مگر ہوا نکالنے والی بے غیرتی اسے زیب
نہیں دیتی۔ مگر ان تمام افسروں کی تقرری، تربیت اور تعلیم ہی غلط خطوط پر
ہے، ان سے خیر کی توقع فضول ہے۔
ٹریفک وارڈن کی بات چلی تو یاد آیا،دون دن پہلے نذیر سے ملاقات ہوئی، میرے
پرانے محلے کا رہائشی ہے۔ اس کا والد ایک غریب سیاسی کارکن تھا۔ نذیر ایک
نالائق سٹوڈنٹ تھا۔ میٹرک اور ایف اے بمشکل پاس کی۔ اس کا باپ روز اسے
گالیاں دیتا کہآوارہ گردی بند کرو اور جاؤ کہیں نوکری کرو۔ اس کا باپ جو
میرا ہم عمر اور پرانا کلاس فیلو تھا ، میرے ساتھ گھر کے حالات اور اپنی
مجبوریاں بیان کرتا رہتا تھا۔ میں نے بھی نذیر کو سمجھایا، تھوڑا منہ پھٹ
اور صاف گو لڑکا تھا۔ کہنے لگا بتائیں کہاں سے ڈھونڈوں نوکری؟ ایک آدھ
نوکری میرٹ پر ہوتی ہے، جس پر میں پورا نہیں اُترتا، باقی سب کے لئے حوالے
کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے پاس تو نہیں، مگر میرے والد کے پاس ہے۔ ساری عمر
حکمرانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں انہیں کہیں تو کوئی معقول نوکری مل جائے گی،
اس کے باپ کو بھی یہ بات پتہ تھی اور کوشش بھی کر رہا تھا۔
نذیر کے باپ کی کوششیں آخر رنگ لائیں اور نذیر ٹریفک وارڈن کے طور پر ملازم
ہو گیا۔ نالائقی، اکھڑ پن اور بد تمیزی جو اُس کی زندگی کا خاصہ تھا اسی
طرح قائم رہی۔ کئی دفعہ لوگوں کے ساتھ دوران ڈیوٹی مار دھاڑ اور گالی گلوچ
ہوا، مگر مہربان حکمرانوں کا دشت شفقت چونکہ سر پر قائم ہے اس لئے کوئی کچھ
نہیں بگاڑ پایا۔ میں نے نذیر سے پوچھا کہ کسی گزر رہی ہے؟ بہت خوش تھا،
کہنے لگا بہت اچھی گزر رہی ہے۔ موجودہ افسر بھی بہت اچھے ہیں انہیں ہمارا
اور ہمارے حالات کا احساس ہے اس لئے کوئی فصول آرڈر نہیں کیا۔ فضول آرڈر،
کیا مطلب یہ کیسا آرڈر ہوتا ہے ۔ ہنس کرکہنے لگا، عید کے دنوں میں گھر کے
اخراجات آسمان کو چھوتے ہیں ضروریات بڑھ جاتی ہیں۔ پچھلے سالوں میں جو افسر
تھے انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں تھا۔ حکم دے دیتے تھے کہ عید کے دس دن
پہلے سے چالان بند، کسی کو پوچھنا ہی نہیں۔ اب بتائیں، چالان بند تو ہمارا
وقار بند، ہماری عزت بند، ہمارا دبدبہ بند، ہماری آمدن بند۔ ہماری آمدن بند
ہو تو افسروں کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ہماری عید بھی خراب اور یقیناً ہمارے
افسروں کی بھی۔پچھلے کئی سال سے یہی ہو رہا تھا۔
موجودہ افسر بہت نیک دل ہیں۔ انہوں نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ ہم
آزاد ہیں، چالان آزاد ہیں، ہمارا وقار آزاد ہے، ہمارا دبدبہ آزاد ہے، ہماری
آمدنی بھی آزاد بلکہ بہت آزاد، ہمیں تو وقت کی قید بھی نہیں، اب ہم سولہ
سولہ گھنٹے خوشی سے کام کرتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو رش کی وجہ سے مجبوری
بھی ہوتی ہے، مگرا س اوور ٹائم کی وجہ سے ہماری آمدن بہت اچھی ہے اور ہماری
آمدن اچھی ہے تو افسران کی آمدن بھی اچھی ہے۔ انہیں کما کر تو ہم ہی نے
دینا ہے ۔ اس دفعہ سب کی عید اچھی گزرے گی۔ میں نے کہا بیٹا، مگر یہ سب
جائز تو نہیں۔ ہنس کر کہنے لگا، یاد کریں آپ مجھے کہتے تھے کہ پیسے کماؤں،
پیسہ ہی انسان کو معزز بناتا ہے، معاشرے میں عزت دیتا ہے۔آج جب میں ایک
معزز افسر ہوں، باعزت آدمی ہوں تو آپ کو اعتراض کیوں؟رہی جائز اور ناجائز
کی بات۔ تو وہ لوگ جو ذہنی طور پر اس چکر میں پھنسے رہتے ہیں ان کے گھر کی
حالت ویسی ہی رہتی ہے جیسی ٹریفک وارڈن بننے سے پہلے میرے گھر کی تھی۔ میں
نے اس سے بحث نہیں کی اسلئے کہ غیر ضروری بحث تعلقات بگاڑتی اور مستقبل میں
اصلاح کے امکانات معدوم کرتی ہے۔ مگر جو غلط ہے ہر حال میں غلط ہے اسے دل
سے غلط سمجھنا چاہئے گو یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔ |