مرحوم والد صاحب کہتے تھے کہ کسی سائل کو
نامراد لوٹانا اچھے مسلمان کا شیوہ نہیں اور اس بات پر وہ خود بھی پوری طرح
عمل کرتے تھے۔ سارے دن میں کئی دفعہ کسی ملازم یا کسی گھر کے بچے نے آکر
کہنا کہ کوئی مانگنے والا آیا ہے، فوراً پرس سے یپسے نکالتے اور اسے دے کر
آنے کا کہتے۔ شدید گرمی میں دوپہر کے وقت کبھی کبھار گھنٹی بج اٹھتی۔ اس
وقت ملازم اور بچے سبھی آرام کر رہے ہوتے، مگر والد صاحب اس بڑھاپے میں بھی
چلچلاتی دھوپ میں خود کودھکیلتے ہوئے کسی طرح دروازے پر پہنچ جاتے۔ فقیر کو
دروازے سے برآمدے تک اندر لے آتے کیونکہ وہ بیس پچیس گز کا فاصلہ دھوپ میں
طے کرنا جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا۔ فقیر کو برآمدے میں بڑے پیار سے بیٹھا
کر اندر جاتے، حسب توفیق کچھ نہ کچھ اندر سے لا کر اُس کی نذر کرتے اور اس
عمل سے ایک خوشی محسوس کرتے۔
کسی ملازم نے آکر نعرہ لگانا کہ ریما آئی ہے، کہتی ہے حا جی صاحب کو میرا
سلام کہہ دواور میرا بتا دو۔ سمجھ جاتے کہ کوئی خواجہ سرا ہے اسے ضرور کچھ
نہ کچھ دے کر بھیجتے۔ ہر روزکبھی بابرہ، کبھی صائمہ اور کبھی میرا آتی تو
میں کہتا یہ کہاں کے فقیر ہیں، انہیں مت دیا کریں، ہنس کر کہتے، فطرت کی
طرف سے انہیں بہت سی باتوں میں محروم رکھا گیا ہے، ان کا ضرور خیال رکھو۔
ذہن میں یہ خیال مت لاؤ کہ تم نے بہت کمایا ہے، یہ سب اﷲ کا دیا ہے اور ان
لوگوں کا بھی اس میں حصہ ہے۔ میں جواب دیتا فطرت کی طرف سے محروم سہی مگر
خلقت کی طرف سے انہیں بہت کچھ ملتا ہے۔ چین میں صدیوں یہ انتہائی اعلیٰ
عہدوں پر رہے۔ شاہی دربار میں وزیر اعظم،وزیر اور مشیر خواجہ سرا ہوتے تھے۔
مسلمانوں میں عباسی دور میں حکومت میں ان کا عمل دخل نظر آتا ہے۔مغلیہ دور
میں بھی یہ بہت با اثر تھے۔
بعض اوقات بہت دلچسپ واقعات پیش آتے، ایک خاتون نے آکر کہا کہ گھر میں راشن
نہیں ہے، میری مدد کریں۔ فوراً محلے کے دکاندار کو فون کیا کہ اسے آٹا،
چینی اور گھی دے دو۔ عورت کو کہا کہ جاؤ بیٹا میں نے کہہ دیا ہے اس سے لے
لو۔ وہ عورت بیٹھی رہی جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔ میں نے کہا بی بی جاؤ۔ کہنے
لگی یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ راشن کی بجائے مجھے نقد دے دیں۔ والد صاحب نے
پوچھا مگر کیوں؟ کہنے لگی اصل میں میرے میاں نے ابھی پیسے نہیں بھیجے اور
میں نے بچے کی فیس دینی ہے، نقد ایک ہزار دے دیں باقی میں خود کر لوں گی۔
پوچھا بچہ کہاں پڑھتا ہے؟ جواب ملا بیکن ہاؤس۔ والد صاحب نے فوراً دکاندار
کو فون کیا کہ خاتون کو راشن نہیں دینا اور اسے فوراً چلے جانے کا کہا کہ
کچھ خدا کا خوف کرو، حق داروں کا حق چھین رہی ہو۔ ایک خاتون راشن لینے آئی
تو گلہ کرنے لگی کہ فقط چار پانچ سو کا راشن لے کر دے رہے ہیں۔ یہ تو کوئی
بات نہ ہوئی۔ میں جس رکشے پر آئی ہوں اور گھر واپس جانا ہے وہ باہر کھڑا ہے۔
اس کا آنے جانے کا کرایہ ہی مجھے تین سو ادا کرنا ہے۔مجھے بڑی عجیب بات لگی
کہ بندہ مانگ کر گھر کا خرچ چلائے اور رکشے کے کرائے کا تین سو ادا
کرے۔ایسے حالات میں انسان کو کچھ احساس کرنا چاہیے۔
والد صاحب کو ہمیں خدا حافظ کہے تقریباً سات ، آٹھ سال ہو گئے، مگر ہر چوک
میں کھڑے ان کی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ میں ایک ملازم پیشہ آدمی ہوں، محدود
آمدن اور وقت کے ساتھ ساتھ آمدن کم، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور مہنگائی
کے ساتھ ساتھ معاشرے میں غربت اور فقیروں کی تعداد حد سے بڑھتی جا رہی ہے۔
اس وقت میں چوک میں گاڑی میں بیٹھا اشارے پر رُکا ہوا ہوں اور کچھ نہ
پوچھیں کہ بس ایک میں ہوں اور ہجوم فقیراں۔ گاڑی رُکی تو سب سے پہلے ایک دس
گیارہ سال کا بچہ آیا، اس کے ہاتھ میں ایک رومال تھا، اس نے اس رومال سے
گاڑی کی سکرین کے تھوڑے سے حصے پر رومال اس طرح پھیرا، گویا گاڑی سے پیار
کا اظہار کر رہا ہو، پھر میری طرف مسکرا کر دیکھنے لگا۔ میں نے اشارہ کیا
کہ جاؤ بیٹا۔ بیچارہ چپ چاپ دوسری گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ایک دم سکرین پر
کسی نے پانی پھینکا، دیکھا ایک نوجوان لڑکے کے ہاتھ میں ایک بوتل اور ایک
وائپر تھا۔ پانی پھینک کر وہ وائپر سکرین پر لگانے لگا۔ میں نے کہا بیٹا
میں ابھی گاڑی واش کروا کر لایا ہوں، تم صفائی کے نام پر اُسے گندہ کر رہے
ہو۔ بولا، کوئی بات نہیں جی، بس دس بیس روپے دے دیں چلا جاتا ہوں۔ بڑی مشکل
سے اسے ٹرخایا۔ وہ ہلا، تو ریما آگئی۔ اس نے آنکھوں سے مجھے کچھ پیغام دینے
کی کوشش کی جسے میں نہیں سمجھ پایا۔ اس سے معذرت کی۔ ریما کے جانے کے فوراً
بعد ایک عجیب سا ملنگ آگیا، اس نے گاڑی کے سائیڈ والے شیشے کو سختی سے پکڑ
لیا۔ مجھے لگا شیشہ اکھاڑنے کے موڈ میں ہے۔ منہ اور ایک انگلی آسمان کی طرف،
گردن دائیں بائیں جھٹک رہا تھا اور کہہ رہا تھا ’سو روپے لینا، سو روپے
لینا‘ اسے کچھ سمجھانا یا کہنا مشکل تھا کیونکہ انداز سے مشین لگتا تھا۔
تھوڑی سی گنجائش تھی۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا لی۔
ایک اور خواجہ سرا تشریف لے آئے۔ ساتھ بیٹھی ہوئی میری بیگم کی تعریف کرنے
لگے اور مجھی کہا کہ بیگم کے نام پر سو، دو سو روپے دے دو، بیگم پیاری ہے
تو پیسوں سے پیار نہ کرو، کچھ نہ کچھ نکالو۔ اس نے جسم کو گھمایا، لجایا
اور کئی انداز بدلے مگر میں بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ بیچارہ مایوس لوٹ گیا۔
ایک خاتون خالی جگہ دیکھ کر پہنچ گئی کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خود
بیوہ ہے، کوئی آسرہ نہیں، رہنے کو ٹھکانہ نہیں، میری بیگم کو گھر میں صفائی
کے لئے ایک عورت کی تلاش ہے۔ فوراً بولی کام کرو گی تو میرے ساتھ آجاؤ،
رہنے کو جگہ بھی دوں گی،تمہارے بچوں کو پڑھاؤں گی بھی اور معقول تنخواہ بھی
دوں گی۔ ضرورت مند ہو تو آجاؤ۔ خاتون ناراض ہو کر کہنے لگی بی بی غریبوں سے
مذاق نہیں کرتے، کچھ دینا ہے تو دو، باتیں نہ بناؤ۔اس کے اس خوفناک انداز
سے میں اور میری بیگم کچھ سہم گئے۔ پھر دو تین خواتین لگاتار باری باری
تشریف لائیں ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ یا بڑے بڑے کاغذ تھے جن کی عبارت کے
ہر لفظ سے بے چارگی ٹپک رہی تھی۔ مگرپہلی عورت کو نوکری کی پیشکش کے بعد اب
میری بیگم نے کسی دوسری کو پیشکش کی ہمت نہ کی۔ ایک بوڑھا ضعیف آدمی گاڑی
کے دروازے کے ساتھ خاموش آ کھڑا ہوا، لگتا تھا واقعی مستحق ہے۔ پتہ نہیں
کیوں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے دس روپے اسے دے دیے۔ یکدم ایک ہجوم گاڑی
پر چڑھ دوڑا۔ صاحب جی اﷲ کے نام پر، حاجی صاحب !اپنے بچوں کے نام، اپنی
بیگم کے نام پر۔ ایک بے ہنگم شور بپا ہو گیا۔واہ واہ میں بغیر حج کے حاجی
ہو گیا۔ میں کسی کو کچھ دینے کے موڈ میں نہیں تھا، اشارہ سبز ہو چکا تھا،
میں گاڑی چلانے لگا تو گاڑی کے چلنے سے پہلے میری بیگم چلانے لگی گاڑی مت
چلانا، ایک معذور میری طرف گاڑی کاد روازہ کھٹکھٹا رہا ہے اس کی ریڑھی جس
پر وہ بیٹھا ہے کا کچھ حصہ گاڑی کے نیچے ہے۔ گاڑی چلی تو اس کو نقصان پہنچ
سکتا ہے اور اسے نقصان پہنچا تو اس چوک کی فقیر یونین حرکت میں آجائے گی
اور ہمارا نقصان زیادہ ہو جائے گا کیونکہ کئی خدائی مددگار دائیں بائیں سے
آکر شور مچانا شروع کر دیں گے کہ غریب سے زیادتی ہو گئی۔ انہیں ہماری مالی
حالت کم اور گاڑی زیادہ نظر آئے گی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔
پیچھے والی گاڑیاں ہارن پر ہارن کر رہی تھیں اور وہ فقیر ریڑھی پیچھے ہٹانے
کو تیار نہیں تھا۔ میں نے پرس نکالا اور دس روپے پیش کئے، مگر اس نے سو سے
کم لینے سے انکار کر دیا،اس کا انداز یوں تھا گویا ہم نے اس کی مرضی کے
مطابق پیسے نہ دیئے تو ابھی پستول نکال کر ہم سے سب کچھ چھین لے گا۔ اب کیا
کیا جائے۔ٹریفک رکی دیکھ کر دور سے ایک ٹریفک سارجنٹ بھاگا ہوا آرہا تھا
اور اونچی زبان میں کچھ کہہ رہا تھا۔ اسے آتے دیکھ کر معذور نے تیزی سے
ریڑھی ہٹائی اوربھاگنے لگا میں نے فوراً گاڑی آگے بڑھا لی۔
سوچتا ہوں والد صاحب اپنے وقت کے حوالے سے ٹھیک کہتے تھے مگر انہیں شاید
علم نہیں تھا کہ چند سالوں میں اس ملک کے لوگوں کا مزاج بگڑ جائے گا۔ آج اس
ملک کی اسّی فیصد آبادی یا تو ڈاکو ہیں ،چاہے سیاست دانوں کی صورت میں ہوں،
بیوروکریٹ کی شکل میں ہوں، سرکاری ملازم کی کوئی شکل ہو، سرمایہ دار ہوں،
وزیر ہوں، پراپرٹی ڈیلر ہوں ،یاپھر فقیرہیں۔ کیونکہ جو ڈاکہ نہیں مار سکتے
وہ فقیر کا روپ دھار کرمانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ڈاکہ ڈالنے والوں میں بھی
کچھ اسحاق ڈار کی طرح مہذب انداز میں فقیروں کے انداز اپنا لیتے ہیں اور
کچھ اس معذور کی طرح فقیروں کے روپ میں ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ میں اپنے والد
محترم سے معذرت خواہ ہوں کہ میں ان ڈاکوؤں اور فقیروں کو سائل ہی نہیں
سمجھتا، ان کی مدد کیا کروں۔ ویسے بھی اب اپنی آمدنی کے حوالے سے ہر چوک
میں موجود اتنے فقیروں سے نپٹنا میرے کیا جائز اور حلال ذریعہ آمدنی والے
کسی بھی شخص کے لئے ممکن نہیں رہا۔ |