عبدالستار ایدھی ۔۔۔ایک چاند غروب ہو گیا

عیدھی صاحب کی وفات کی خبر سن کر دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔بے شک ہر ذی روح، جاندار کو موت آنی ہے۔ یہ اٹل ہے۔کسی پر رحم نہیں کھاتی۔انسان کو زندگی کی صورت میں ایک مہلت ملی ہے۔ مہلت ختم ، زندگی تمام۔موت زندگی میں توسیع نہیں کرتی۔یہ وقت کی سختی سے پابندی کرتی ہے۔جناب عیدھی کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپ اٹھا ہے۔آج پتہ چلا دل خون کے آنسو کیسیروتا ہے۔ایک بے لوث ، محب وطن، مخلص ، فرشتہ صفت انسان سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔وہ ہمیشہ دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ جودنیا کا عظیم ترین کام ہے۔ خدمت کایہ موقع کسی کو نصیب سے ہی ملتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ عبدالستار عیدھی جیسے اپنے کسی برگزیدہ اور پیارے بندے کو خدمت خلق کے لئے چن لیتے ہیں۔ یہ سعادت ہر کسی کو نہیں مل سکتی۔آج اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جودولت اور شہرت کے بجائے صرف خدمتپر یقین رکھتا ہوا۔ جو اپنی خدمات خلوص کی بنیاد پر پیش کرتا ہو۔ جو اپنے اختیارات ، مرتبہ کا استعمال انسانیت کے لئے کرے۔ جو اپنے دفتر کی تمام سہولیات خود پر استعمال کرنے میں دلچسپی نہ لے۔یہ صفات عیدھی صاحب میں ہی پائی جاتی تھیں۔

عبدالستار ایدھی سے چندملاقاتوں کی سعادت نصیب ہوئی ۔ جب 2005کا زلزلہ آیا تو عبدالستار ایدھی ہی نہیں بلکہ ان کے بیٹے فیصل ایدھی کو مظفر آباد میں مزدوروں کی طرح کام کرتے دیکھا۔ ایدھی صاحب نے نثار کیمپ چہلہ میں اپنا کیمپ لگایا تھا۔ وہاں وہ دن رات زلزلہ متاثرین کی خدمت میں مصروف رہے۔ لاتعداد بیماروں کو ہسپتال پہنچانے اور ان کا علاج ومعالجہ کرانے والے یہ عظیم انسان عبدالستار ایدھی آج خود ہسپتال میں رہنے کے بعد چل بسے۔ آپ کے دونوں گردے فیل ہو چکیتھے۔ زندگی ڈائیلاسز پر گزر رہی تھی۔ جب معروف سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی کی زبانی یہ خبر سنی تو دل سے جناب ایدھی کے لئے دعائے صحت آہ کی صورت میں نکلی۔ان کی دعائے صحت کے لئے گزشتہ ماہ چند الفاظ لکھے۔عبد الستار ایدھی آجہم میں نہیں۔ انھوں نے علالت میں بھی پاکستان کا نام فخر سے بلند کر دیا۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان سے بڑھ کر کوئی سچا اور بڑا محبت وطن پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ ان کا علاج بیرون ملک دنیا کے نامور ہسپتالوں میں کرانے کی پیشکشیں ہوئیں۔موجودہ حکمرانوں، آصف علی زرداری نے بھی یہ پیشکش کی۔ مگر عیدھی نے پاکستانیت کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے یہ سب پیشکشیں قبول نہ کیں۔ عیدھی نے کہا کہ وہ اپنا علاج اپنے ملک میں کرائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے صاف کہہ دیا ہ وہ اپنا علاج کسی سرکاری ہسپتال میں ہی کرائیں گے۔ انھوں نے پاکستان کو پوری دنیا پر ترجیح دی۔ اپنے سرکاری ہسپتالوں کوہی عزت دی۔ اپنے ڈاکٹروں پر اعتماد کیا۔جب ہمارے لوگ زکام نزلہ پر بھی علاج کرانے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اپنے ملک کے وقار اور عزت کا انہیں کیا خیال ہو گا۔ وہ نہیں سمجھتے جس ملک نے انہیں سب کچھ دیا ، اسے وہ یوں بے توقیر کیوں کر رہے ہیں۔ وہ ان کی ترجیحات میں شامل کیوں نہیں۔ وہ اپنی کمائی یہاں خرچ کرنے کے بجائے باہر کیوں لے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنا علاج باہر سے کراتے ہیں۔ لیکن انہیں اﷲ کا زرا بھر خوف نہیں کہ وہ یہاں کے ہسپتالوں ، یہاں علاج و معالجہ کی سہولیات بہم پہنچانے پر توجہ نہیں دیتے۔ یہاں کی ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کیوں نہیں کرتے۔انہیں اپنے ملک ، اپنے ہسپتالوں، اپنے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں۔ وہ اگر توجہ دیتے تو یہاں بھی جدید ٹیکنالوجی فراہم ہو جاتی۔ یہاں کے غریب اور نادار لوگ یہاں اہم بنیادی سہولیات کو ترستے ہیں۔ جناب عبدالستار ایدھی نے اپنے ملک کو سب پر ترجیح دی اور ثابت کیا کہ وہ ایک نایاب انسان ہیں۔ ہمارا اثاثہ ہیں۔نوبل انعام یا کوئی بھی میڈل ان کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

ان کی پیدائش بھارتی گجرات کا بانٹوا گاؤں ہے۔والدین کی تربیت نے آپ کو بچپن سے ہی سماجی کاموں میں برھ چڑھ کر ھصہ لینا شروع کیا۔اعتراف کرتے تھے کہ شرارتوں کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ صرف دو جماعت تک پڑھائی کی۔ 11سال کی عمر میں حاجی عبد اﷲ کی کپڑے کی دکان پر پانچ روپے ماہانہ پر نوکری کی۔اپنے گاؤں میں قائد اعظم سے ملاقات کی۔ 35ہزار روپے پارٹی فنڈ کے لئے جمع تھے۔ وہ قائد کو پیش کئے۔22سال کی عمر میں 6ستمبر1947کو میمن برادری کے چار ہزار افراد کے ساتھ کشتیوں میں بیٹھ کر براستہ بحرہ عرب کراچی کے ساحل پر اترے۔ملیر میں رہنے کے بعد والد صاحب نے جوڑیا بازار کے عقب میں چھاپہ گلی میں کرائے کا گھر لیا۔پھر عمر بھر یہیں رہے کیوں کہ یہاں ہی سے ان کے والد کا جنازہ اٹھا تھا۔ باچا خان کی بیلچہ تحریک سے متاثر تھے۔ اسی وجہ سے ملیشیا پہننا شروع کیا۔70سال سے ایک ہی رنگ کا لباس پہنا۔ ڈاکو آپ کو لوٹنے کے بجائے اپنی رقم ڈھیر کر دیتے تھے۔ انہیں ملنے والے ایوارڈز کی مالیت 32کروڑ روپے ہے۔ ایدھی ٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی خود پر استعمال نہیں کیا۔ جو کپڑے پہن رکھے تھے۔ ان میں ہی تدفین کے بعد ایدھی ویلج میں سپردخاک کر نے کی وصیت تھی۔وہاں پچیس سال پہلے اپنی قبر خو د تیار کی تھی۔

عبد الستار ایدھی نے وصیت کی کہ بعد از مرگ ان کے اعضاء عطیہ کر دیئے جائیں۔ یہ ایک عظم کارنامہ ہے۔ زندگی اور موت کے بعد بھی خدمت کا جذبہ۔ اب ان کے اعضا ء بھی غریب اور ناداروں کے کام آئیں گے۔ان کی زندگی، علالت، وفات سب نے ہمیں خدمت کا درس دیا ہے۔ خدمت کا یہ جذبہ ہو تو محترم ایدھی کی طرح ایک ایمبولنس اور ایک ڈسپنسری سے کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ آج ان کی ملک بھر میں ایمبولنس سروس، لاوارث بچوں کے مراکز، منشیات کے عادی لوگوں کی بحالی کے سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ عبد الستارا یدھیکے لئے سب کچھ دکھی انسانیت کی خدمت رہا۔ ان کی بیگم بلقیس ایدھی، ان کابیٹا فیصل ایدھی، بیٹی کبریٰبھی اس عظیم انسان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان کا مشن دکھی انسانوں کی خدمت ہے۔ اسی کے لئے وہ جینے مرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ایدھی کا ڈائیلاسز پہلے ہفتے میں دو بارپھرتین بار کروایا جا رہا تھا۔عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز ان کے گردے تبدیل کرنے کی مخالفت کرتے رہے۔آخر کار وقت پورا ہو گیا۔ عزرائیل ؑنے آپ کی روح قبض کر لی۔ بلقیس ایدھی کو فخر ہو گا کہ ان کا شوہر عبدالستار ایدھی ہے۔ فیصل بھی ایدھی صاحب کا بیٹا ہونے پر فخر کرتے ہوں گے۔ ایدھی کی خدمات بے شمار ہیں۔ اﷲ انہیں قبول فرمائے ۔ وہ پاکستان کاانمول اثاثہ تھے۔ ایسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ اﷲ پاک ایدھی صاحب کی بشری خطائیں معاف فرمائے، جنت میں اعلیٰ مقام نصیب ہو، ہم پسماندگان کو صبر جمیل ملے، اﷲ ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487502 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More