اندھیروں میں چراغ

الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے لوگ ہر وقت پاکستان کے اندھیروں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہتے ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔مہنگائی کا شور بھی اکثر سنا جاتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت غربت کے سمندر میں تیر رہی ہے۔دہشتگردی کی وجہ سے امن وامان کی تباہی تو ہمیں بھی سامنے نظر آتی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی تو80ء کی دہائی ہی سے شروع ہوگئی تھی۔گزشتہ چند سالوں میں عوام کا جینامشکل نظرآتا تھا۔گلیاں،بازار،محلے اور تعلیمی ادارے ہروقت خطرے کی زد میں ہوتے تھے۔اب حالات میں بہتری دیکھی جارہی ہے ایک بات کا ذکر اکثر ہوتا رہتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتی اور پرائیویٹ ادارے اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔اسی بات سے آگے بڑھتے پوری ریاست پاکستان کو ہی ناکام ریاست قرار دے دیا جاتا ہے لیکن ہم تمام اداروں کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔یہ بات تو درست ہے کہ پاکستان میں بڑے بڑے ادارے مختلف وجوہات کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں۔
PIA،Pakistan SteelاورPakistan Railwyکی مثالیں اکثر دی جاتی ہیں ایسے ہی اور بھی بے شمار ادارے کچھ بہتر نتائج نہیں دکھا سکے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ابھی تک ہم اپنے لوگوں کو بنیادی تعلیم نہیں دے سکے۔خواندگی کا موجودہ صدی میں اقوام متحدہ کی طرف سے دیا گیا ہدف پورا نہیں کیا جاسکا اور صحت کی صورت حال ابھی چند دن پہلے ہمارے ایک کالم نگار دوست ارشاد بھٹی صاحب نے بہت ہی خوبصورت انداز سے کھینچی ہے لیکن ان تمام برے حالات،دہشت گردی،بدامنی،کرپشن اور حکومتی ناکامیوں کے باوجود کئی ادارے ایسے بھی ہیں جن کی کارکردگی اور نتائج بہت ہی اچھے رہے۔کئی اداروں کی کارکردگی نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ایسے اداروں میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں طرح کے ادارے ہیں۔انہیں ہم اندھیروں میں چراغ ہی کہہ سکتے ہیں۔ایک غیر ملکی تجزیہ کارLevyنے ایسے اداروں کے بارے میں درج ذیل تبصرہ کرکے ان کی کارکردگی کو تسلیم کیا ہے۔"Islands of effectiveness within a broader sea of institutional dyfunction"

آج چند ایسے ہی اداروں کا ذکر کرتے ہیں IBA-Karachiایسا تعلیمی ادارہ ہے جو قیام پاکستان کے شروع میں ہی قائم ہوگیا تھا۔1955سے لیکر آج تک یہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا ہے پہلے یہ ادارہ کراچی یونیورسٹی کے تحت تھا اب یہ مکمل یونیورسٹی بن گیا ہے ۔یہ پاکستان کا پہلا بزنس سکول تھا شروع سے ہی اس کا نصاب اور معیار امریکی یونیورسٹیوں کے برابر رکھا گیا ہے اور اب آجکل معروف اکنانومسٹ ڈاکٹر عشرت حسین اس کے سربراہ ہیں۔ایشیاء میں تو یہ رینکنگ میں کافی اوپر آگیا ہے اب کوشش ہے کہ اسے دنیا کی100اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار کرایا جائے۔Lums-Lahoreہمارا دوسرا معروف تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔اسے1985ء میں چارٹر ملااور 1993ء میں وہ اپنی شاندار نئی عمارت میں منتقل ہوا۔سید بابر علی نے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے فنڈنگ لیکر اسے پروان چڑھایا۔یہ ادارہ اب بزنس کی تعلیم کے علاوہ دیگر مضامین میں بھی تعلیم دے رہا ہے۔اساتذہ کی اکثریت پی۔ایچ۔ڈی ہے۔اس ادارے نے بھی ایشیاء میں اپنی ساکھ بنالی ہے۔یہاں کے تعلیم یافتہ طالب علم ملک کی معروف کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اندھیروں کے باوجود ہمارے ان دونوں تعلیمی اداروں نے اپنا کام مستعدی سے جاری رکھا اور قوم کا اعتما د حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔انہیں ہم اندھیروں میں چراغ ہی کہیں گے۔ایک اور ادارے Nadraنے بھی بڑی شہرت کمائی ہے۔اٹھارہ ہزار آئی ٹی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ یہ پاکستان کی سب سے بڑی آئی۔ٹی کمپنی بن چکی ہے۔جو پبلک سیکٹر میں کام کرتی ہے۔اس سے پہلے رجسٹریشن کاتمام کامManualطریقے سے ہوتا تھا۔لیکن اب تمام کچھ کمپیوٹرائڈ ہوچکا ہے۔Biometric system شناخت کا عالمی سطح کا نظام اب ہمارے ہاں رائج ہے۔اسی ادارے نے سب سے پہلے Machine readable passportتیار کیا۔پاکستان کے تمام خاندانوں کا اب تفصیلی ریکارڈ تیار ہوچکا ہے۔الیکشن کمیشن اور دیگر پاکستانی ادارے اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔اس کی شہرت پاکستان سے باہر بھی پھیلی اور بہت سے افریقی اور ایشیائی ممالک نےNadra سے فائدہ اٹھایا۔Nadra کی شاخیں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی قائم ہوچکی ہیں۔اسکی کارکردگی اور معیار دن بہ دن بہتر سے بہتر ہورہا ہے۔یہ بھی تاریکیوں میں چراغ ہے۔ہمارا ایک اور سرکاری ادارہ موٹروے پولیس ہے۔اسے1997ء میں قائم کیاگیا ۔نئی بننے والی لاہور۔اسلام آباد موٹروے پر ٹریفک کنٹرول کرنا اسکی ذمہ داری بنا۔2001ء میں پشاور سے کراچی تک موجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر ٹریفک کا کنٹرول بھی اس کے پاس آگیا۔ہماری اس پولیس سروس کے پاس دنیا کے جدید ترین آلات ہیں۔ٹریفک اور حادثات پر نگاہ رکھنا اس کے فرائض ہیں۔پاکستان جہاں کا سابقہ پولیس نظام انتہائی بدنام ہے۔وہاں موٹروے پولیس کی کارکردگی سے پاکستانی انتہائی مطمن ہیں۔غلطی کسی نے بھی کی ہو۔رسید کٹ جاتی ہے۔اور وصولی موقع پر ہی ہوجاتی ہے۔اب تک سننے میں نہیں آیا کہ موٹروے پولیس نے کسی سے زیادتی کی ہو۔فرض شناسی میں یہ ادارہ بھی اپنا مقام بناچکا ہے۔مسافر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ رواں دواں انکی آلات سے لیس گاڑیاں لوگوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہیں۔موبائل ورکشاپ بھی خراب گاڑیوں کی مدد کرتی نظر آتی ہے۔موٹروے پولیس نے بھی اپنا ایک نام بنا لیا ہے۔بہتر سے بہتر خدمت کا نظام جاری ہے۔جب ہم صوبائی پولیس سروسز کے ساتھ موٹروے پولیس کو دیکھتے ہیں۔تویہ بھی اندھیروں میں چراغ ہی نظر آتا ہے۔اب ہم ایسے اداروں کا ذکر کرتے ہیں جو ایمرجنسی میں بہت ہی اونچے معیار کی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ Rescue1122کی خدمات پہلے صرف لاہور سے 2004ء میں جناب پرویز الہی کے زمانے میں شروع ہوئی تھیں۔اس کے بانی ایک سرجن ڈاکٹر رضوان قیصر تھے۔اب یہ ادارہ پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے۔اسکی گاڑیاں اطلاع ملنے پر صرف10۔منٹ میں جائے حادثہ /وقوعہ پر پہنچ جاتی ہے۔اور متعلقہ لوگوں کو قریبی ہسپتال میں پہنچا دیتی ہے۔اب تک پنجاب بھرمیں4۔لاکھ لوگوں کی خدمت کی جاچکی ہے۔لوگ اگر اپنے کام میں Dedicatedہوں تو نتائج وہی نکلتے ہیں جو ابRescue1122 دے رہا ہے۔اس میں بھرتی کئے جانے والے عملہ کی تربیت پہلے بھی ہوتی ہے۔اور سروس کے ساتھ ساتھ بھی جاری رہتی ہے۔2007ء تک اسی ادارے نے آگ بجھانے والا اپنا نظام بھی بنالیاتھا۔ابھی تک یہ نظام ہر ضلعی سطح تک ہے۔اسے تحصیل کی سطح تک لے جانے کا پروگرام ہے۔اس سروس کی وجہ سے ڈاکٹر جو قریبی ہیلتھ یونٹ سے غیر حاضر ہوتے تھے۔انکی حاضری بھی بہتر ہوتی ہے۔اس زبردست معیاری سروس کو دیکھ کر دوسرے صوبوں کے لوگ بھی اپنے اپنے صوبوں میں اسی طرح کے ادارے شروع کرنے جارہے ہیں۔حادثات یا آگ لگنے کے موقع پرRescue1122 کی گاڑیاں آسمانی مددشمار ہوتی ہیں،آیئے اب صحت کے شعبہ میں شوکت خانم ہسپتال کا ذکر کرتے ہیں۔کینسر جیسے موذی مرض کا پاکستان میں علاج نہ ہونے کے برابر تھا۔عمران خان نے اپنی کرشماتی شخصیت سے1994ء میں یہ عظیم ادارہ لاہورمیں قائم کیا۔زمین حکومت نے فراہم کی اور عوام نے عمران خان پر نوٹوں کی بارش کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمی سطح کا ہسپتال کھڑا ہوگیا۔ہسپتال کے شعبوں کے تمام انچارج U.Kاور U.S.Aکے اداروں کے پڑھے ہوئے ہیں اور انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔کینسر کے زیادہ تر مریضوں کا علاج مفت ہورہا ہے۔اب اس کی ایک شاخ پشاور میں مکمل ہوچکی ہے۔اب کراچی میں ہسپتال قائم ہونے جارہا ہے۔یہاں کینسر کے ساتھ ساتھ عام دوسری بیماریوں کا بھی علاج ہوتاہے۔معیاری ہسپتالوں میں اب شوکت خانم کا نام عالمی سطح پرجانا جاتا ہے۔ہسپتال پرائیویٹ شعبے میں ہے اور پاکستان کی پبلک اسے بے شمار فنڈ فراہم کرتی ہے۔صحت کے شعبہ میں آغا خان ہسپتال کا نام بھی بہت ہی اونچا ہے۔آغا خان میڈیکل یونیورسٹی بھی دنیا میں اپنا نام بنا چکی ہے۔میں اس سے پہلے ایک آرٹیکل میں ایدھی فاونڈیشن کا تفصیلی ذکر کرچکا ہوں۔یہ ادارہ بھی پاکستان سے باہر عالمی سطح پر اپنا Imageبنا چکا ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ کے بارے شروع میں بڑے اعتراضات سننے میں آتے تھے۔بعدمیں عالمی اداروں نے اس کے پورے نظام کو درست کیا۔کرپشن کے امکانات کو ختم کردیا۔اب اس نے اپنا ایک مقام بنا لیا ہے۔غریب خواتین کی کافی حد تک صحیح خدمت ہورہی ہے۔درج بالا تمام اداروں کی کارکردگی اوسط معیار سے بہت ہی اونچی ہے۔پاکستان کے امن وامان کے حالات اگرچہ اچھے نہیں ہیں۔لیکن اداروں کی حیثیت اندھیروں میں چراغ کی سی ہے۔پاکستانی لوگوں میں پائے جانے والےPotentialکا اظہار ان اداروں کی کارکردگی سے ظاہر ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.