حرم نبوی ﷺ کے قریب حملہ کرنے والا آخرکون؟
(Dr M.A Rasheed Junaid, India)
عالمِ اسلام میں۰۰۰داعش کی دہشت ۰۰۰
اب دشمنان اسلام کی نظر داعش کے نام پر یورپ کے مسلمانوں پر
|
|
اﷲ اکبر ! کتنا بدنصیب شخص ہوگا جس نے حرم
نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم کے قریب خودکش حملہ کرکے اپنی دنیا تباہ و برباد
اور آخرت خراب کرلی ۔اسے جس طریقہ سے بھی ترغیب دینے یا مجبور کرنے والے
بھی اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کرلیئے اور اس واقعہ کی جتنی بھی
مذمت کی جائے کم ہے۔یہ واقعہ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم صدمہ سے کم نہیں
کیونکہ یہ حملہ حرم نبوی شریف صلی اﷲ علیہ و سلم کے قریب ہی نہیں بلکہ
پیارے حبیب رحمۃ للعالمین ، راحت العاشقین، سراج السالکین، محبوب رب
العالمین ﷺکی آرام گاہ کے قریب کیا گیا جس میں چار سیکیوریٹی ارکان کی
شہادت ہوئی۔ اس حملہ کے بعد بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو ہوشیار ہوجانے
کی ضرورت ہے اور جس کسی نے بھی خودکش بمبار بن کر حملہ کیا اور جنہوں نے
بھی حملہ کروایا ہے وہ کسی صورت مسلمان ہونہیں سکتے۔ اس دلوں کو دہلادینے
والے حملہ کے بعد مسلم حکمراں دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو بے نقاب کرنے
کیلئے متحد ہوجائیں اور اس حملہ کے ذمہ دارخاطیوں کو کسی صورت کیفرکردار تک
پہنچانے کیلئے متحدہ جدوجہد اور حکمت عملی کے ساتھ کوشش کریں ۔ ذرائع ابلاغ
کے مطابق خودکش بمبار ،حرم نبوی ﷺ میں داخلہ چاہتا تھا ،اﷲ رب العزت کا بے
انتہاء فضل و کرم ہے احسان عظیم ہیکہ وہ پیارے آقاء ﷺ کے اس حرم کی حفاظت
فرماکر وہاں پر حاضری دینے والے امتیوں کو گزند تک پہنچانا گوارہ نہ کیا
اور اس شیطان صفت خودکش بمبار کو سیکیوریٹی عملہ کے ذریعہ رکوادیا۔
سیکیوریٹی عملہ کے چار افراد جام شہادت حاصل کرلئے اﷲ تعالیٰ انکی مغفرت
فرمائے اور انکے افرادخاندان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
رمضان المبارک میں دشمنانِ اسلام یا نام نہادی جہادی تنظیمیں داعش، طالبان،
القاعدہ وغیرہ نے ترکی، عراق،شام، افغانستان،پاکستان ،صومالیہ وغیرہ میں
دہشت گردانہ کارروائیوں، فائرنگ ، بم دھماکوں، خودکش حملوں کے ذریعہ بے
قصور، معصوم روزے دار مسلمانوں کونشانہ بناکر قتل و غارت گیری کا بازار گرم
کررکھے تھے۔ 28؍ جون کو ترکی کے شہر استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ میں تین
خودکش بمباروں کے حملوں میں 43افراد ہلاک اور 200کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ تین
خودکش بمباروں نے پہلے ہوائی اڈے پر موجود مسافروں پر خودکار رائفلوں سے
فائرنگ کی اورپھر اپنے آپ کو دھماکوں سے اڑالیا تھا۔ان حملوں کی ذمہ داری
داعش نے قبول کی ہے۔استنبول کے ایئر پورٹ پر ہونے والے اس حملے میں سعودی
شہری بھی شامل ہیں ،سعودی سفیر عادل مرداد کے مطابق جاں بحق سعودیوں میں 4
خواتین بھی شامل ہیں ان میں 4 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا گیا
ہے۔ترکی میں داعش گذشتہ چند ماہ کے دوران خودکش حملے ، بم دھماکے کرتے ہوئے
مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے۔ داعش کے خاتمہ کے لئے ترکی دوسرے ممالک کے
ساتھ کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے داعش سے
زیادہ خطرناک شامی صدر بشارالاسد کو بتاتے ہوئے انہیں داعش سے بڑا دہشت گرد
قرار دیتے ہیں۔ داعش کی جانب اتاترک ایئرپورٹ پر داعش کے حملے کے باوجود
ترکی صدر کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے۔ شام سرحد کے قریب کلیس ٹاؤن میں
اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے رجب طیب اردغان نے بتایا کہ شامی صدر
تقریباً 6لاکھ شامی شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے اور شام میں جنگ کی
اصل جڑ وہی ہے۔ اردغان شامی کرد ملیشیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انقرہ
نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے کیونکہ وہ ترکی کے کردباغیوں کے ساتھ
اور داعش سے الحاق رکھتی ہے۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردغان جو اس سے
قبل ترکی کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ان کے دورِ اقتدار میں ترکی معاشی
اعتبار سے ترقی کیا اور انہوں نے سیاحت کو بھی فروغ دیتے ہوئے دنیا سے آنے
والے سیاحوں کیلئے مؤثر انتظامات کئے تاکہ سیاحوں کی آمد سے ترکی ترقی کی
راہ گامزن رہے لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران داعش اور دیگر شدت پسندوں کی
جانب سے حملوں کے نتیجہ میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ کم ہوگیا ہے جس کی وجہ
سے ترکی کی معیشت پر اثر پڑا ہے ۔
یمنی شہر مکلہ میں متعدد خود کش بم دھماکوں کے نتیجے میں42افراد ہلاک ہو
گئے ۔ یمن میں ہونے والے ان دھماکوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قول کرلی۔واسط
صوبہ کے گورنر احمد سیعد نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے
کہاکہ مکلہ شہر کے چار حصوں میں پانچ خود کش حملے ہوئے ہیں جن میں سے تین
میں سیکیورٹی چیک پوائنٹس کو غروب آفتاب سے قبل اس وقت نشانہ بنایا گیاہے
جب سکیورٹی اہلکار افطاری کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سکیورٹی حکام نے کہاہے
کہ پہلے حملے میں موٹر سائیکل سوار خود کش حملے میں اس وقت اپنے آپ کو
دھماکے سے اڑایاجب اس نے فوجیوں سے اپنے ساتھ افطاری کرنے کی اجازت مانگی۔
دوسرے دو بمباروں نے اس وقت اپنے آپ کو دھماکے سے اڑایا جب وہ فوجیوں کے
قریب پہنچ گئے۔دریں اثناء دو خود کش بمبار وں نے آرمی کیمپ کے دروازے میں
داخل ہو تے ہوئے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ان حملو ں میں40 فوجی ہلاک اور
37 زخمی ہوگئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں قریب سے گزرنے والی خواتین اور بچے
بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش نے ان
حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کے آٹھ خود کش
بمباروں نے اپنے حملوں میں یمنی سکیورٹی فورسز کے 50اہلکاروں کو ہلاک کیاہے۔
افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے مطابق 29؍ جون کو افغانستان کے مشرق
ننگرہارمیں داعش اور افغان فورسز کے مابین جاری لڑائی کے نتیجے میں
500خاندان بے گھر ہوئے جبکہ جھڑپوں میں حکومتی فورسز نے 160 شدت پسندوں کو
ہلاک کرنے کا دعویٰ کیاہے ۔اس دوران لڑائی میں7 افغان فوجی اور5 شہریوں کی
ہلاکت ہوئی ہے۔شدپ پسند دہشت گردوں نے عام شہریوں کو ماہِ صیام کے دوران
بھی بے گھر کرنے کیلئے 90مکانات کو نذرآتش کردیا،ذرائع ابلاغ کے مطابق
مشرقی صوبے ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطا اﷲ خوگیانی نے میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں کی صحیح تعدادکا علم
نہیں ہوا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ان جھڑپوں کا آغاز گزشتہ جمعہ کے روز اس
وقت ہوا تھا، جب عراق اور شام میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم داعش سے منسلک
افغان شدت پسندوں نے ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔جیسا کہ اوپر بتایا
جاچکا ہے کہ عطاﷲ خوگیانی نے ان جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 160شدت
پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔اس حملے کے دوران شہریوں اور زخمی ہونے
والے فوجیوں کی تعداد کم از کم 30 بتائی گئی۔ دوسری جانب ننگرہار صوبے کے
گورنر سلیم خان قندوزی نے داعش پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا
الزام بھی عائد کیا اورکہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کسی کی عزت نہیں
کرتی۔ وہ عورتوں اور بچوں تک کو قتل کرنے سے باز نہیں آتی۔ وہ مدرسوں،
اسکولوں اور مساجد تک کو تباہ کر رہی ہے۔صوبائی پولیس سربراہ زورآور زاہد
کا کہنا تھا کہ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہل کار اور فوجی اس علاقے میں
داعش سے نبردآزما ہیں اور علاقائی حکام نے کابل سے مزید فوجی دستے طلب کر
لیے ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب 30؍ جون کو خودکش حملوں میں 40 افراد
ہلاک ہوئے۔ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر افغان نیشنل پولیس کے کیڈٹ ہیں
جبکہ کچھ عام شہری بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے
مطابق یہ حملہ ضلع پغمان میں ایک تقریب سے واپس آنے والے پولیس کیڈٹوں کی
بسوں کو دو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بناکر کیا۔پغمان کے گورنر حاجی محمد
موسیٰ نے کابل میں ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق
حملے میں 40 کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بہت سے لوگ زخمی ہیں۔واضح
رہے کہ ایک ہفتہ قبل کابل میں نیپال سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی اہلکاروں
کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے سفارتی علاقہ کے مشہور ریسٹورنٹ پر 2؍
جولائی کی رات مسلح افراد نے حملہ کرکے 20غیر ملکیوں بشمول دو پولیس افسران
کو ہلاک کردیااور 30افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کو بنگلہ دیش کا اب تک کا سب
سے بدترین یرغمانی بحران قرار دیا جارہا ہے ۔ 12گھنٹوں تک حملہ آوروں نے
کیفے کا محاصرہ جاری رکھا جس کے بعد فوج کے کمانڈروں نے6حملہ آوروں کو ہلاک
کرکے 13مغویوں کو رہا کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان حموں کی ذمہ داری
داعش نے لی ہے لیکن وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا موقف ہے کہ ان
حملوں کے پیچھے مقامی جنگجو تنظیم ملوث ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد
الزماں خان نے 3؍ جون کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ حملہ آوروں کا تعلق ایک
کالعدم تنظیم سے تھا ایک خبر رساں ادارہ کے مطابق حملہ آور جماعت المجاہدین
بنگلہ دیش کے اراکین تھے۔ اس تنظیم پر بنگلہ دیشی حکومت نے ایک دہائی سے
پابندی عائد کررکھی ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردوں ن جمعہ کی شب 18غیر ملکیوں
کو تیز دھار ہتھیاروں سے بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔بنگلہ دیشی حکومت
ملک میں داعش یا القاعدہ کے وجود سے سے انکا کرتی رہی ہے ۔ وزیر داخلہ کے
مطابق تمام دہشت گرداعلیٰ تعلیم یافتہ اورخوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے
والے بتائے جارہے ہیں۔اگر وزیر داخلہ کی بات مان لی جائے کہ وہ اعلیٰ تعلیم
یافتہ اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ان کی شدت پسند ظالمانہ
کارروائی خطرناک صورتحال اختیار کرسکتی ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا
دہشت گردی جوڑ کئی شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہفتہ کی شام افطار کی تیاری اور خریداری میں
مصروف روزہ دارو ں پر ڈسٹرکٹ کرادہ میں ایک ریسٹوران اور مصروف ترین بازار
میں حملہ کیا گیا۔ جبکہ دوسرا دھماکہ کچھ دیر بعد دارالحکومت کے شمال میں
واقع شیعہ اکثریتی علاقے میں کیا گیا ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداد
125بتائی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان دھماکوں میں خاندان کے خاندان
ہلاک ہوگئے اور لاشیں جلنے کی وجہ سے ناقابلِ شناخت ہوگئیں۔خبررساں ادارے
اے پی کے مطابق مرنے والوں میں بہت سے بچے شامل ہیں۔یوں تو عراق میں ہر روز
فائرنگ، بم دھماکے، خودکش حملے ہوتے رہے ہیں جن میں مرنے والوں کی صحیح
تعداد شائد ہی مل سکے۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے دوسرے روز صبح جائے
وقوعہ کا دورہ کیا تو انہیں مشتعل ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔یہ دھماکے ایک
ایسے وقت کئے گئے جبکہ گذشتہ دنوں عراقی افواج کی جانب سے فلوجہ شہر کو
داعش کے کے قبضے سے چھڑوالیا گیا ۔دولت اسلامیہ عراق کے شمال او رمغربی
حصوں اور دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔اس سے قبل 9؍ جون
کو بغداد میں دو خودکش دھماکوں میں کم از کم 30افراد کی ہلاکت ہوئی ان
حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی اور ہفتہ کے روز ہونے والے ان
دو دھماکوں کی ذمہ داری بھی داعش کی قبول کی ہے۔ داعش کی جانب سے استنبول،
یمن، افغانستان، پاکستان، عراق میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کئے
جانے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ داعش کوئی مسلم جہادی تنظیم نہیں بلکہ
دشمنانِ اسلام کی بہت بڑی سازش ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا اور انہیں
ہلاک کرنا ہے۔ عالمِ اسلام کے حکمراں دشمنانِ اسلام کی اس سازشوں کا شکار
ہونے کے بجائے اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کی قیمتی جانوں
کی حفاظت کے لئے مقدور بھر کوششیں کریں۔
امریکی یوم آزادی کے موقع پر جدہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب حملہ
جدہ میں امریکی قونصل خانے کی عمارت کے قریب ایک مشتبہ خودکش حملہ آور نے
دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعہ میں مشتبہ حملہ آور اور دو پولیس اہلکار زخمی
ہوئے ہیں۔خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حملہ آور کار میں سوار
تھا اور وہ بظاہر امریکی قونصل خانے کے قریب واقع ایک مسجد کی طرف جارہا
تھا۔ قونصل خانے کا اکثر عملہ دوسرے مقامات پر منتقل ہوگیا ہے یہ حملہ
امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر کیا گیا۔ جدہ ہی کے امریکی قونصل حا․نے کو
2004میں بھی حملہ کا نشانہ بنایا گیا تھاجس میں 9افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اب دشمنان اسلام کی نظر داعش کے نام پر یورپ کے مسلمانوں پر
اب لاکھوں مسلمانوں کا عراق، شام، یمن، ترکی، مصر، افغانستان، پاکستان دہشت
گردی کے خاتمہ پر قتل عام کے بعد دشمنانِ اسلام اپنی ناپاک ذہنیت کو بڑھاوا
دیتے ہوئے داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو مسلمانوں سے جوڑتے ہوئے انکے
حملے کا رخ یوروپ کی طرف کررہے ہیں تاکہ یوروپ میں موجود بے قصور مسلمانوں
کو نشانہ بتایا جاسکے۔گذشتہ دنوں جرمن حکومت نے تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ
عراق اور شام میں چونکہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے اس گروپ کو نکال باہر
کیا جا رہا ہے، اس لیے یہ شدت پسند گروپ یورپ میں دہشت گردی کے حملوں میں
اضافہ کر سکتا ہے۔جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈی
میزیئر نے امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کی طرف سے عراق اور شام میں شدت
پسند گروپ داعش کے خلاف کامیابیوں کا خیر مقدم کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ
اس سے یورپ میں حملوں کے خطرے کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں
خطرہ ہے کہ داعش اپنی سرگرمیاں وہاں سے نکال کر یورپ کی طرف منتقل کر دے گی،
خاص طور پر اْس علاقے میں فوجی ناکامیوں کی وجہ سے۔جرمنی کی داخلی
انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس جورج ماسن نے اس دوران بتایا کہ عسکریت
پسندوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر حملوں، خاص طور پر فوجی طرز کے ہتھیاروں کے
حملوں کے خطرات کے سبب جرمنی میں ہائی الرٹ رہا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ یوروپ
میں داعش کے نام پر دشمنانِ اسلام کیا کھیل کھیلتے ہیں اﷲ تعالیٰ مسلمانوں
کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور دشمنانِ اسلام کو نیست و
نابود فرمائے۔آمین
شہید امجد صابری کے فرزند
امجد صابری کے قتل پر پورا پاکستان اب بھی سوگ میں ہے۔ اے آر وائی چیانل پر
مایاخان کے رمضان شو میں امجد صابری شہید کے فرزند مجدد صابری کو پیش کیا
گیا۔ جس سے پورا پاکستان سوگوار ہوگیا۔
|
|