28رمضان المبارک شام کی نمازادا کر
کے جیسے ہی گھر کی جانب واپسی ہوئی تو گھر پہنچتے ہی معمول کے مطابق حالات
حاضرہ سے آگاہی کے لئے سوشل میڈیا جیسے ہی آن کیا تن بدن میں دکھ اور کرب
کی لہر دوڑ گئی۔ سعودی عرب کے شہر قطیف اور مدینہ منورہ میں ہونے والے بم
دھماکوں کی مختلف چہ میگوئیاں گردش کر رہی تھی ۔قطیف میں ہونے والا حملہ
آور مسجد العمران میں داخل ہو رہا تھا کہ سیکورٹی عملہ کے روکنے پر خود کو
اڑا لیا جبکہ افطاری کے کچھ لمحوں بعد شہر مصطفی ﷺ مدینہ منورہ میں بھی خود
کش حملہ آور مسجد نبوی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ سیکورٹی
اہلکاروں کی جانب سے روکے جانے پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مزاحمت کرنے
والے دو سیکورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ فارسی کے مشہور شاعر
مولانا عبدالرحمان جامی نے صدیوں پہلے روضہ رسول ﷺ ُپر جان قربان کرنے کی
خواہش کا اظہار بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا ․․․جامی کہتا ہے (اے باد نسیم
جب تیرا گزر شہر بطحا سے ہو ․․․․․․میرے حالات سرکار کی خدمت میں بیان کرنا)
(میری جان یہ اشتیاق رکھتی ہے کہ جا کر ․․․․․․روضہ خیر البشر پر فدا ہو
جائے)یوں محسوس ہوتا ہے کہ جامی کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لمحات آن
پہنچے ہے ۔سعودی عرب اور بالخصوص مسجد نبوی کے قریب ہونے والی دہشت گردی سے
مسلمانوں کے کرب و بدن میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔حکومت پاکستان نے مذمت
تک نہیں کی۔اقوام متحدہ نے چہرے پر خاموشی سجا لی ۔سعودی عرب ایک اسلامی
ملک ہے۔ سعودیہ سے ہمارا رشتہ ایمان کا ہے ۔حرمین شریفین تمام مسلمانوں کی
محبتوں کا مرکز ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ منورہ میں بدامنی پھیلانے
والے مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ہمیں مشکل کی اس گھڑی میں سعودی
بھائیوں کا ساتھ دینا ہوگا۔درخواست ہے اقوام متحدہ سے کہ اس مسلئے کی
سنگینی کو سمجھ کر فی الفور نوٹس لے اور حکومت پاکستان اظہار ہمدردی کے
ساتھ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائے۔
پہلی عید کی دلفریب شام جب چھوٹے بچے والدین کے ہمراہ عید کی خوشیوں کو
دوبالا کرنے کے لئے سیاحتی مقامات و پارکوں کا رخ کر رہے تھے ۔روڈ پر چہل
پہل تھی ۔منچلے اپنی مستیوں میں مگن تھے۔ہر طرف ایک خوشی کی فضاء
تھی۔سیکورٹی فورسز چاک و چوبند اپنے فرائض احسن انداز سے سرانجام دے رہی
تھی۔جب ہم عزیز و اقارب کے ہمراہ عید کی خوشیاں سمیٹنے رشتہ داروں کے گھر
جانے کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔واپسی کی تیاریاں ہو رہی تھی کہ ٹارگٹ کلنگ
کے واقعہ نے شہر میں خوف کی فضاء قائم کر دی۔مصروف ترین شاہراہ وینسم کالج
کے قریب شام کی نماز کے بعد اہل تشیع مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے قانون
دان کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔نہیں تھا معلوم کہ اس
امن کی فضاء نے کن، کن کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔اور ہمیشہ کی طرح لبرل ،سیکولر
سوچ رکھنے والوں نے اس کا الزام ہر اس شخص پر تھونپا جس کا چہرہ سنت نبویﷺ
سے مزین ہو ،سفید کپڑے پہننا پسند کرتا ہو․․․ فقط اتنا کہ جسے عرف عام میں
ملا کہتے ہے۔اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔سرور کائناتﷺ محسن
انسانیت تھے۔تعلیمات نبویﷺکے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل
ہے ․․․ مجوزہ حکومت کو ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے لئے موئثر کردار ادا کرنا
ہو گا․․․ شہر ڈیرہ کی پہلی عید کئی گھرانوں کے لئے غم کے پیغام لائی
آج عید کا دوسرا دن تھالوگوں نے اپنے فیملیز کے ہمراہ پاکستان کے مشہور
سیاحتوں کی توجہ کے مراکز ایبٹ آباد،مری،ناران کاغان کی جانب عید کی خوشیوں
سے لطف اندوز ہونے کے لئے رخت سفر باندھا۔ان ہی مسافروں میں شہر ڈیرہ کا
ایک بد قسمت خاندان بھی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے شمالی علاقہ
جات کی جانب رواں دواں تھاکہ ایبٹ آباد کے علاقہ ٹھنڈیانی روڈ پر فلائنگ
کوچ تیز رفتاری کے باعث مخالف سمت آنے والی موٹر سائیکل سے جا ٹکرائی جس کے
نتیجے میں ایک ہی خاندان کے سات افراد جاں بحق ہو گئے جاں بحق ہونے والے
خاندان کا تعلق شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ ڈیوالہ سے تھا ۔تین
خواتین،ایک بیٹا،دو ننھے بچوں سمیت سات افراد کے جنازے ایک ساتھ اٹھنے پر
ایک کہرام سا مچ گیا،یہ خبرایک بم بن کر گری،پتھر دل بھی جانبر نہ ہو
سکا،ہر شخص سوگوار۔۔ ہر جانب کی فضاء غم میں ڈوبی تھی․․․․ خبر پورے شہر میں
جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی ․․ لیکن اس وقت MPA,MNA,ضلع ناظم سمیت
شاہراہوں پر انسانیت کے حقوق کا نعرہ لگانے والی نام نہاد این جی اوز کے
رکن ایک لمبی نیند سو چکے تھے․․․ کسی نے بھی اظہارتعزیت تک نہیں کی کیونکہ
ان کا تعلق ایک شریف اور غریب خاندان سے تھا․․․ ابھی اس غم میں ڈوبے ہی تھے
کہ ایک اور خبر حملہ آور ہوئی تین نوجوان سلیمان،نعمان،اختر اپنی غفلت کے
باعث دریاء سندھ کی تیز موجوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس دار
فانی سے کوچ فرما چکے تھے․․․ شہر ڈیرہ کی دوسری عید کئی گھرانوں کے لئے غم
کے پیغام لائی
تیسری عید کی شام انسانیت کے عظیم عاشق ،سراپا خدمت عبد الستار ایدھی کی
رحلت کے ساتھ غروب ہوئی ،عبدالستار ایدھی پانچ جولائی سے انفیکشن کے باعث
ہسپتال میں داخل تھے جمعے کی صبح ڈائلسزکے دوران طبیعت ذیادہ بگڑنے پر
وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا ،رات گئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔عبد
الستار ایدھی اپنے آپ مکیں ایک انسان نہیں ایک تحریک تھا ․کہیں کوئی حادثہ
ہو،کہیں کوئی عمارت گرے،فٹ پاتھوں پر لاشیں ملیں ،اس آہ بقاء کے مقام پر سب
سے پہلے ایدھی کی ایمبولینس حاضری دیتی۔اس بے وسیلہ اور سادہ انسان نے اپنی
استطاعت سے بڑھ کراپنے ناتواں شانوں پر دکھی انسانیت کا بوجھ بغیر کسی رنگ
و نسل،قومیت،زبان،مسلک سے اٹھایا ہوا تھا ۔شہر گلی،گلی امداد کے جذ بات
ابھارکر قوپ کو بیدار کرنا تو کہیں دہشتگردوں کے ہاتھوں،بم دھماکوں کے
متاثرین کے کٹے پھٹے جسمانی اعضاء اکھٹے کرناتو کہیں گولیوں کا نشانہ بننے
والے شہریوں کی خون سے لت پت لاشیں اٹھانااور اپنے ہاتھوں سے غسل کے فرائض
ادا کرتے نظر آئے۔عبدالستار ایدھی نے نہ صرفانسانیت کی فلاح کا بیڑااٹھایا
ہوا،بلکہ اﷲ کی بے زبان مخلوق جانوروں کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی سنبھال
رکھا تھا -
آخر میں تما م قارئین سے گزارش ہے کہ مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے اول و
آخر درود شریف تین بار سورتہ اخلاص پڑھ کر مغفرت کی دعا فرما دے- |