دینی مدرسوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں فرق کیوں ؟

پرویز خٹک نے مدرسہ حقانیہ کو 30 کروڑ کے صوابدیدی فنڈ کیا دیئے کہ امریکہ سمیت زرداری اور ان جیسا ملحد ذہن رکھنے والے افراد کی زبانیں حلق سے باہر نکل آئیں ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ ہم امریکہ کے غلام ہیں اور نہ ہی آصف علی زرداری(جسے چوروں کی نانی کہاجاتاہے ) کے کاسہ لیس ہیں ۔ یہ پہلا کام ہے جو کے پی کے حکومت نے اچھا کیا ہے جس سے دینی مدرسوں میں زیر تعلیم 22 لاکھ طلبہ کا مستقبل روشن ہونے کی امیدپیدا ہوئی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی دینی مدرسوں اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایسے ہی اقدامات اٹھانے چاہیئں ۔یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے مسلکی اور فقہی اختلافات کے باوجود یہی دینی مدرسے پاکستان کی حقیقی اساس کی علمبر دار ہیں ۔ لیکن دینی مدرسوں کے طلبہ اور استاد آج کے دور میں بھی صدیوں پرانے ماحول میں زندہ ہیں ۔ جن کی طرز زندگی ٗ ماحول اور مالی مراعات کو دیگر سرکاری کالجز اور یونیورسٹیوں کے برابر لانا اشد ضروری ہے بلکہ جامع مسجدوں کے خطیب حضرات جن کی تعلیم پی ایچ ڈی کے برابر بنتی ہے انہیں بھی وہیں مراعات دی جائیں جو دیگر علوم میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کو سرکاری سطح پر مل رہی ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن جیسے سیاسی مولوی ایسے بھی ہیں جو اپنی بلیک میلنگ کے ذریعے ہر حکومت سے کروڑوں روپے نذرانہ وصول کرتے ہیں اور کانوں کان کسی کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے ۔لیکن وہ علمائے کرام اور خطیب حضرات جو سیاست سے دور رہ کر صرف اور صرف دین اسلام کی خدمت اور خلق خدا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیے ہوئے ہیں ۔وہ اور ان کے خاندان تنگ اور تاریک حجروں اور غربت کی انتہائی نچلی سطح اور خیرات پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔میں جس جامع مسجد میں نماز پڑھتا ہوں وہاں ایک شخص(قاری محمداقبال) جو بہترین عالم ٗمقرر اور حافظ قرآن بھی ہیں صرف 13 ہزار روپے ماہانہ پر یہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔وہی خطیب ٗ وہی امام ٗ وہی موذن ٗ وہی حافظ قرآن ٗ وہی قاری ٗ وہی نعت خواہ وہی خادم مسجد ہیں۔ پانچ وقت باجماعت نماز کروانے کی وجہ سے ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی تقریبا ختم ہو چکی ہے ۔مرنے جینے ٗ شادی بیاہ اور دیگر معاشرتی امورکی انجام دہی سے وہ یکسر معذور ہوچکے ہیں ۔اس کے باوجود کہ حکومت نے ایک مزدور کی تنخواہ 14 ہزار مقرر کی ہے لیکن ایک عالم ٗ حافظ اور امام مسجد کو ہمارے معاشرے میں مزدور سے بھی کمتر تصور کیاجاتاہے ۔کیا وہ اتنی کم تنخواہ میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پرورش کرسکتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکول میں ایک بچے کی تعلیم 3 ہزار سے کم نہیں ہے ۔ عام مسجد وں خطیب حضرات کی رہائش کے لیے جو حجر ہ فراہم کیا جاتا ہے اس کی بمشکل پیمائش 8x10 ہوتی ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ قاری اور حافظ قرآن بننے کے لیے دو سے پانچ سال لگتے ہیں اس دوران قرآن حفظ کرنے والے طلبہ کو دماغی امراض سے بچانے کے لیے جس بہترین خوراک اور آرام دہ ماحول کی ضرورت ہے وہ دینی مدرسوں میں یکسر ناپید ہے ۔تنگ اور تاریک کمرے ٗ فرشی بستر ٗ غلیظ بیت الخلا ٗ خیرات میں ملنے والا گھٹیا سامان ورثے میں ملتا ہے جس حافظ قرآن بننے والوں کی بینائی اکثر متاثر ہوجاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک قرآن حفظ کرنے والے طالب علم کو دماغ میں شدید درد کااحساس ہوا ڈاکٹر وں نے رپورٹیں دیکھ کربتایا کہ دماغ میں رسولی بن چکی ہے آپریشن پر چار لاکھ روپے کے اخراجات بتائے گئے ۔ لیکن یہ رقم اکٹھی نہ ہوسکی بالاخر وہ قرآن حافظ آپریشن سے پہلے ہی قبر میں جاسویا ۔ یہ تو ایک حافظ قرآن کا قصہ تھا جو پانچ سو صفحات پر مشتمل قرآنی آیات مسلسل پانچ سال پڑھنے کے بعد اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے ۔اگر کوئی شخص عالم دین بننا چاہتا ہے تو اسے علم الصرف ٗعلم النحو ٗعلم منطق ٗ علم فقہہٗ مسلم اصول فقہہ ٗ علم حدیث ٗ علم اصول حدیث ٗعلم تفسیر ٗ علم اصول تفسیر ٗ علم فلسفہ ٗ علم میراث جیسے مشکل ترین علوم پر دسترس حاصل کرنی پڑتی ہے ۔جبکہ مفتی بننے کے لیے آٹھ سال تدریسی فرائض کے علاوہ مختلف فتاوا جات یاد کرنے پڑتے ہیں جن کا تعلیمی معیار پی ایچ ڈی سے ہرگز کم نہیں ہے۔ کسی کے ایصال ثواب کے لیے ایک سپارہ پڑھنا پڑجائے تو ہم وہ نہیں پڑھ سکتے ہیں ان تمام علوم کو پڑھنے میں 9 سال صرف ہوجاتے ہیں ۔اس دوران عالم دین اور مفتی بننے والوں کو کن کن مالی ٗ جسمانی اور خاندانی مشکلات سے نبرد آزماہونا پڑتا ہے اس کا تصورکرکے ہی کلیجہ منہ کو آتاہے۔ ہم حافظ قرآن اور عالم دین کی کتنی عزت افزائی کرتے ہیں یہ جان کر ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو بنی اسرائیل قوم کی طرح آسمان سے من و سلوا اترتا ہوگا۔ ہم امام مسجد کو ہر قسم کی انسانی خواہشات سے مبرا تصور کرتے ہیں۔یہی عالم دینی مدرسوں کے اساتذہ کرام کا ہے جن کی تنخواہ چھ ہزار سے شروع ہو کر بارہ تیرہ ہزار تک ختم ہوجاتی ہے اس کے برعکس سرکاری سکولوں اور کالجز کے اساتذہ کرام کی تنخواہیں پچیس سے پچاس ہزار تک پہنچ جاتی ہیں جنہیں پنشن کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔وفاقی حکومت ہو یا صوبائی دینی مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔اگر جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نعیمہ جیسے بڑے مدرسوں کو اسلامی یونیورسٹی اور چھوٹے دینی مدرسوں کو کالج کا درجہ دے کر وہاں طلبہ کو کمیپوٹر لیب ٗ سپورٹس ٗ اور دیگر جدید علوم پڑھانے اور اساتذہ کرام کو سرکاری کے پروفیسر کے برابرتنخواہ اٗپنشن اور دیگر سہولتیں فراہم کردی جائیں تو ان دینی مدرسوں کے طلبہ اور اساتذہ کو صدیوں پرانے ماحول سے نکال کر موجودہ دور میں لایا جاسکتا ہے جو میری نظر میں بہت بلکہ اشد ضروری ہے ۔کیونکہ قرآن پڑھنا ٗپڑھانا اور سنانا افضل ترین عمل تصور کیا جاتاہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.