اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
وفاق المدارس کا نظام امتحان(مفصل)
طلبہ میں پوشیدہ و مستور صلاحیتوں کا اندازہ امتحان ہی سے لگایا جاسکتا ہے۔
امتحان دور جدید میں تعلیم و تعلم کا ایک رکن رکین ہے، اور تعلیمی سلسلے کا
نچوڑ ہے۔ طلبہ میں جو مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں ان کو مستند اور اجاگر کرنے
کی سبیل امتحان ہی ہے۔
امتحان کا سلسلہ درس نظامی میں بطور ایک اہم عنصر کے شامل ہے۔ پاک وہند کے
تقریباً تمام مدارس میں باقاعدہ امتحانات کا رواج ہے۔ کہیں یہ امتحانات سہ
ماہی ہوتے ہیں اور کہیں ششماہی۔
چونکہ ’’وفاق المدارس العربیۃ پاکستان‘‘ انہیں مدارس کا تسلسل ہے ، اس لیے
وفاق نے بھی اپنے ملحقہ مدارس وجامعات کو سہ ماہی یا ششماہی امتحانات کا
پابند کیا ہے تاکہ یہ قلیل المدتی امتحانات سالانہ امتحان کے لیے بطور
ممدومعاون ثابت ہوں۔
وفاق کا امتحانی نیٹ ورک وسیع و عریض ہونے کے لحاظ سے شاید دنیا کا سب سے
بڑا نیٹ ورک ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں، دارالحکومت، آزاد کشمیر، شمالی علاقہ
جات اور فاٹا میں یہ نیٹ ورک قریباً ایک ہزار مراکز امتحان برائے طلبہ کتب
اور تقریباً دو ہزار مراکز امتحان برائے طلبہ حفظ پر مشتمل ہے۔ جن میں ایک
لاکھ کے قریب طلبہ کتب اور ساٹھ ہزار کے قریب طلبہ حفظ امتحانات میں شرکت
کرتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کی ایک زبردست خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے تمام مراکز
امتحان میں’’ بیک وقت‘‘ ہر ایک مرحلہ تعلیم کے لیے ’’ایک ہی پرچہ‘‘ تیار
ہوتا ہے جو کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ ، اسلام آباد ، مظفرآباد اور گلگت
کے طلبہ یکساں طور پر حل کرتے ہیں اور اسی لیے وفاق میں پوزیشن پر آنے والے
طلبہ ملک کے مختلف اطراف کے ہوتے ہیں۔ اس سے جہاں دور دراز کے علاقوں کے
مدارس و جامعات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہیں ان مدارس و جامعات کو پروان
چڑھنے اور مسابقت میں رہنے کا بہترین موقع بھی فراہم ہوتا ہے۔ جبکہ بڑے
مدارس وجامعات کی قدرومنزلت میں اس سے کہیں کمی نہیں آتی بلکہ اس ہمہ گیر
ارتباط کی وجہ سے انہیں کارکردگی و معیار کے لحاظ سے امتیاز بھی حاصل
ہوجاتا ہے۔ بہرحال وفاق کا نظم امتحان حتی الآن ایک بے نظیر عمل ہے جو عالم
اسلام کے دیگر ممالک کے لیے ایک قدوہ اور آئیڈیل بھی ہوسکتا ہے۔ مناسب ہوگا
اگر دیگر اسلامی ممالک کے علماء اکرام آکر اس کا مشاہدہ فرمائیں۔ اﷲ جل
شانہ اسے نظر بد سے محفوظ رکھے۔
وفاق سے ملحقہ مدارس میں امتحانات کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
امتحان حفظ قرآن بمع ذکرواذکار ،یہ روضۃ (نرسری) کے مساوی امتحان ہوتا ہے
جو تقریباً پنج سالہ تعلیم وتربیت پر مشتمل ہوتا ہے۔
امتحان متوسطہ (مساوی مڈل) یہ حفظ قرآن و مبادیات کے بعد تین سالہ کورس کا
امتحان ہوتا ہے۔
امتحان ثانویہ عامہ (مساوی میٹرک) یہ دو سالہ کورس کا امتحان ہے۔
امتحان ثانویہ خاصہ (مساوی ایف۔ اے) اس کی مدت تعلیم بھی دوسالہ ہے۔
امتحان عالیہ (مساوی بی۔ اے) اس کی مدت تعلیم بھی دو سالہ ہے۔
امتحان عالمیہ (مساوی۔ایم ۔اے) اس کا کورس بھی دوبرس پر مشتمل ہے۔
امتحان دراسات دینیہ سال اول۔
امتحان دراسات دینیہ سال دوم۔
امتحان دراسات دینیہ سال سوم۔
مذکورہ مراحلِ تعلیم میں سال دوم کے اسباق کا امتحان اختتام مرحلہ پر لیا
جاتا ہے اور اس سے قبل کے تمام، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ امتحانات کا
انتظام ملحقہ مدارس اپنے طور پر کرتے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ذمے ملحقہ مدارس وجامعات کے امتحانات کے
علاوہ کئی امور ہوتے ہیں، مثلاً نصاب کی تیاری و انتخاب، مدارس کا دفاع،
اسناد وفاق کا سرکاری اسناد سے معادلہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان سب سے بڑا ،
اہم اور پُرمشقت کام امتحانات کاانعقاد ہے۔ کام کے لحاظ سے اگر وفاق کو صرف
اور صرف ’’امتحانی‘‘ بورڈ کہا جائے تو بجا ہے کہ عملہ ٔ وفاق سال بھر
امتحان اور اس کے متعلقہ امور ہی کی انجام دہی میں مشغول ومصروف ہوتا ہے
اور ملحقہ مدارس و جامعات کاوفاق سے اکثروبیشتر رابطہ بھی اسی حوالے سے
ہوتا ہے۔ امتحانی عمل کے بھاری پن کا اندازہ آپ اس سے بآسانی لگا سکتے ہیں
کہ ایک ربیع الاول سے سوالیہ پرچہ جات کے متعلق کام شروع ہوتا ہے اور اگلے
سال تک کہیں جاکر ان پرچوں پر مبنی امتحانات اور اس کے متعلقات سے فارغ
ہوکر دوسرے ربیع الاول میں اسانیدکی ترسیل ہوتی ہے۔ ان دونوں ربیعوں کے
درمیان کا عمل مسلسل اور قدم بقدم جاری وساری رہتا ہے۔
وفاق کا امتحانی عمل:
آمدم برسر مطلب، اگلی سطور میں وفاق کا مرحلہ وار امتحانی عمل طائرانہ نظر
میں پیش خدمت ہے:
امتحانی سال کے پہلے مرحلے میں مختلف جامعات کے سرکردہ مدرسین کو وفاق کی
امتحانی کمیٹی مختلف پرچوں کی تیاری کے متعلق خطوط جاری کرتی ہے، جس میں
نہایت راز دارانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے اور اس میں متعلقہ شخص سے بھی
راز داری کی درخواست ہوتی ہے، یاد رہے کہ ایک ایک پرچہ کی تیاری متعدد
حضرات سے کرائی جاتی ہے۔اور متعلقہ مدرسین اپنے اپنے پرچے تیار کرکے ناظم
اعلیٰ وفاق کے نام ارسال کردیتے ہیں۔ناظم اعلیٰ ان تمام پرچوں کے متعلق
اپنے دیگر رفقاء کمیٹی سے مشورہ کرکے ان میں سے بعض پرچے مکمل، بعض کے کچھ
اجزاء منتخب کرلیتے ہیں اور بعض کو بالکل مسترد کرکے کمیٹی از خود ازسرنوا
سے تیار کرلیتی ہے۔ اس میں یہ طریقہ اس واسطے اختیار کیا گیا ہے تاکہ کوئی
بھی پرچہ تیار کنندہ اپنے پرچے کو حتمی نہ سمجھے، اور یوں اس میں خیانت کی
کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس طرح یہ پرچے حضرت ناظم اعلیٰ اور حضرت صدر
وفاق کی نگرانی میں کمپیوٹر اور پھر طباعت کے مراحل سے گزر کر مختلف مراکز
امتحان کے لیے ایام امتحان کے اعتبار سے چھ تھیلیوں میں بند کردیے جاتے ہیں
اور اس کے بعد ملک بھر میں معتمدین وفاق تک بائی ہینڈ پہنچائے جاتے ہیں۔
معتمد روزانہ ایام امتحان میں امتحان شروع ہونے سے کچھ ہی دیر قبل انھیں
لیکر مراکز امتحان تک پہنچاتا ہے۔ امتحان ہال میں موجود معاون نگران اور
نگران اعلیٰ جمع ہوکر پرچوں کا یہ پیکٹ شرکاء امتحان (طلبہ) کو دکھلا کر ان
کی سیل کھولتے ہیں، پرچہ طلبہ میں تقسیم کردیا جاتا ہے اور یہ سوالیہ پرچہ
جات کا اختتامی مرحلہ ہوتا ہے۔
اُدھرجن دنوں مدرسین کو پرچوں کے متعلق خطوط ارسال ہوتے ہیں انہی دنوں
گزشتہ سال کی اسانید کی ترسیل بھی ہورہی ہوتی ہے۔ ان اسانید کے لفافوں میں
سال آیندہ کے لیے مختلف درجات کے طلبہ کے امتحانی فارموں کے ساتھ امتحان
ہال میں نگرانی کرنے والے حضرات مدرسین کے متعلق بھی ایک سادہ سا فارم
ارسال کردیا جاتا ہے جس میں متعلقہ مدرسہ ؍ جامعہ سے کم سے کم دو نگرانوں
کے نام بمع تعلیمی قابلیت ورہائشی پتہ طلب کیے جاتے ہیں۔ جن مدارس کو یہ
فارم کسی وجہ سے وصول نہیں ہوتا، وہ اپنے لیٹرپیڈ پر اپنے اساتذہ کے نام
برائے نگرانی ارسال فرمادیتے ہیں۔ ان فارموں کی ایک ایک کاپی ناظم مرکزی
دفتروفاق علاقہ وائز مختلف فائلوں میں لگا کر متعلقہ مسؤلین امتحان کو
ارسال کردیتا ہے۔ علاقائی مسؤلین امتحان ان استمارات (فارمز) کو مدنظر رکھ
کر مختلف مراکز امتحان میں ان حضرات کی تقرری کرکے مرکزی دفتر کو مطلع
کردیتے ہیں، جس کی بناء پر مرکزی دفتر مقررہ افراد کو امتحانی ہال میں
نگرانی کے لیے اتھارٹی لیٹر جاری کردیتا ہے۔ وفاق المدارس میں نگران اعلیٰ
کے علاوہ معاونین کا تقرر پچیس طلبہ پر ہوتا ہے گویا کہ سو بچوں کے لیے چار
نگرانوں کا تقرر ہوتا ہے۔نگران اعلیٰ کا کام وفاق اور متعلقہ جامعہ سے
رابطہ، امتحان کے حوالے سے نظم وضبط، طلبہ و معاونین پر نگاہ کے علاوہ
امتحانی مرکز کی پوری مسؤلیت بھی اس کے ذمے ہوتی ہے۔ معاونین کا کام شرکاء
امتحان کی نگرانی ہے کہ کہیں وہ نقل وغیرہ کی کوشش نہ کریں۔یہ حضرات اپنی
روزانہ کارگذاری یومیہ ڈاک کے ذریعے مرکزی دفتر وفاق بھیجتے رہتے ہیں اور
سینٹر سے متعلق تمام امور وفاق سے مہیا کردہ ایک فائل میں درج کرتے رہتے
ہیں جوبعد میں مرکزی دفتر وفاق بھیجی جاتی ہے۔اسی طرح یہ حضرات روزانہ کے
پرچوں کو اختتام وقت پر تھیلیوں میں سیل کرکے مرکز امتحان کے حوالے کرتے
ہیں جنھیں وہ ڈاک کے ذریعے مرکزی دفتر وفاق ارسال کرتا ہے۔
یہ تو ہوئی بات نگرانوں کی، رہی بات شرکاء امتحان کی تو جیسا کہ پہلے عرض
کیا جاچکا ہے ان کے لیے مرکز سے ارسال کردہ فارمز کو متعلقہ مدارس و جامعات
ان سے بھروا کر، فیسیں وصول کرکے یکم ربیع الثانی سے ۱۶ جمادی الاولیٰ تک
سنگل فیس کے ساتھ اور ۳۰ جمادی الاولیٰ تک ڈبل فیس بعد میں تگنی اور چوگنی
کے ساتھ مرکزی دفتر وفاق ارسال کردیتے ہیں جہاں ان فارموں کی جانچ پڑتال
ہوتی ہے۔ اگر کسی فارم میں کوئی کمی رہی ہو، تو دفتر وفاق اسے متعلقہ مدرسہ
برائے ممکنہ اصلاح بھیج دیتا ہے اور اگر اصلاح کا امکان نہ ہوتو اسے رد
کردیا جاتا ہے۔
اس مرحلے کے بعد ان فارموں کی تعداد کو ملحوظ رکھ کر مختلف مراکز امتحان کا
تعین ہوتا ہے۔ وفاق کے قانون کے مطابق ۵۰ طلبہ ٔ کتب بنین اور ۲۵طالبات کتب
بنات اگر کسی مدرسے کے شریک امتحان ہوں تو وہ اپنے لیے مستقل سینٹر کا
مطالبہ کرسکتا ہے۔ یوں سینٹروں کے تعین کے بعد شرکاء امتحان طلبہ کے لیے
ورقۃ الموافقہ یعنی رول نمبر سلپ یا ایڈمیٹ کارڈ کا اجراء ہوتا ہے۔ جس میں
ان کا رول نمبر بھی ہوتا ہے۔ شرکاء امتحان رول نمبراپنے اپنے مدارس سے وصول
کرکے مقررہ شیڈول کے مطابق ایام امتحان میں مراکز امتحان کا رخ کرتے ہیں
اور انھیں اس سلپ کو دکھانے پر امتحان ہال میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔
امتحان ہال میں جوابی کاپی اور بوقت ضرورت ضمنی کاپیاں انھیں وفاق کے
مقررکردہ نگران، وفاق کی طرف سے عطاکرتے ہیں۔اکثر وبیشتر مراکز امتحان ملک
کے طول و عرض میں بڑی بڑی مساجد ہی ہوتی ہیں۔ ان مساجد میں جب یہ ضیوف
الرحمن محوِ امتحان ہوتے ہیں تو ان کا یہ نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔نہایت
خاموشی ، اطمینان ، وقار اور سکون کے ساتھ امتحان میں مشغول ان طلبہ کے
متعلق جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے عمیدنے جب ایک مرتبہ ہمارے
یہاں جامعہ فاروقیہ کے امتحانی ہال کا معائنہ فرمایا تو ان کے الفاظ تھے:
’’یہ تو آپ انسانوں کا نہیں،فرشتوں کا امتحان لے رہے ہیں۔‘‘یہاں یہ بات بھی
قابل ذکر ہے کہ نگران اعلیٰ و معاونین کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے
وفاق کی مرکزی قیادت کے علاوہ اراکین عاملہ اور علاقائی مسؤلین ملک کے طول
وعرض میں امتحانی ہالوں کے چھاپہ مار طوفانی دورے فرماتے رہتے ہیں۔
حفظ کے امتحان کے لیے سال گزشتہ کی سندوں کے ارسال کرتے وقت فارم امتحان
بھی ارسال کیے جاتے ہیں۔ جن میں ایک ایک فارم میں ۱۴ طلبہ کے نام، ولدیت،
پتہ، کارڈ نمبر، نتیجہ اور رجسٹریشن نمبر کے مختلف خانے ہوتے ہیں۔ ان
فارموں کے بھی ارسال کے اوقات وہی ہیں جو کتب کے لیے ہیں۔ اس کے بعد کسی
طالب کا داخلہ قبول نہیں کیا جاتا۔ دفتر وفاق ان فارموں کی دو دو کاپیاں
بنوا کر علاقائی مسؤلین وفاق کو ارسال کردیتا ہے۔ جہاں مسؤلین اپنے اپنے
علاقوں میں مختلف آزمودہ کار قراء کا انتخاب کرکے یہ فارم ان کے سپرد
کردیتے ہیں اور ان کے لیے بھی امتحانی شیڈول، مراکز امتحان اور ایام امتحان
جو ۲۰ رجب سے ۱۰ شعبان تک کا عرصہ ہے مقرر کردیتے ہیں۔ قراء حضرات امتحان
لے کر مسؤل کو یہ فارم واپس کردیتے ہیں اور مسؤلین ان فارموں کو دفتر وفاق
ارسال کردیتے ہیں جہاں سے متعلقہ مدارس کو نتائج ارسال کردیے جاتے ہیں اور
سندات پر فوری کام شروع ہوجاتا ہے۔ دو تین مہینوں میں سندات تیار ہوکر
متعلقہ مدارس کو ارسال کردی جاتی ہیں۔
کتب کے امتحانات کے اختتام پر پہلے سے مختلف مدارس و جامعات سے منتخب
ومطلوبہ تین سو کے لگ بھگ افرادپرچے چیک کرنے کے لیے ایک دو روز میں دفتر
وفاق پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں مختلف پرچوں پر مامور دفتری عملہ پرچوں پر سے
چپکی ہوئی رول نمبر سلپ اتار کر فرضی رول نمبر لگا کر پرچے ان حضرات کو
بتوسط صدر ؍ناظم اعلیٰ مہیا کرتے رہتے ہیں، جن کی چیکنگ کے بعد دفتری عملہ
رجسٹر میں موجود اصل رول نمبر کے سامنے اس کے نمبر لگاتے رہتے ہیں، یوں یہ
عمل بھی قریباً ہفتہ ڈیڑھ جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔واضح رہے
کہ پرچہ چیک کرنے والے درجہ وار ٹولیوں میں دفتر میں تشریف فرما ہوتے ہیں
جن پر ہر کلاس کے اعتبار سے ایک ایک نگران ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً اپنے
ماتحتوں کے بعض چیک کردہ پرچہ جات دوبارہ چیک کرتا ہے، تاکہ اندازہ ہوکہ
چیک کرنے والے بالکل صحیح نمبر لگا رہے ہیں جبکہ ان نگرانوں پر نگرانی کرنے
کے لیے صدر وفاق بنفس نفیس وہاں موقع پر ایک ہفتہ تک موجود رہتے ہیں (اس سے
آپ وفاق کے معاملات میں نظم وضبط اور امانت و دیانت کا بخوبی اندازہ
لگاسکتے ہیں)، جس کے بعد صدر وفاق یا ناظم اعلیٰ وفاق نتائج کا اعلان کرکے
اخبارات و جرائد خاص کر سہ ماہی ’’الوفاق‘‘ میں شائع کرانے کے بعد مرکزی
دفترمتعلقہ مدارس و جامعات کو یہ نتائج ارسال کیے جاتے ہیں۔ بعدازاں کامیاب
ہونے والے طلبہ کے لیے اسانید کی تیاری کا کام شروع ہوتا ہے جسکے کئی ماہ
بعد مکمل ہونے پراسانید کی ترسیل شروع ہوتی ہے اوریوں ایک امتحانی سال
اختتام پذیر ہوجاتا ہے‘‘۔
بظاہر مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں یہ امتحان اپنی انتہا کو پہنچ جاتا
ہے مگر شاعر (علامہ اقبال) کُل کی کُل زندگی کو امتحان قرار دے کر کہہ رہا
ہے:
قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی |
|