سورۃ یٰسین ۸۳آیات پر مشتمل مکی سورۃ
ہے۔سورۃ یٰسین قرآن مجید کا دل ہے اور بے پناہ فوائد کی حامل ہے۔ہر طرح کی
حاجت روائی اس کی تلاوت میں مضمر ہے اور خاص کر اسے پڑھنے سے اﷲ بہت راضی
ہوتا ہے۔جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کیلئے ۱۰ قرآنوں کا ثواب
لکھ دیتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ اﷲ نے سورۃ یٰسین کو زمین وآسمان کے پیدا
کرنے سے ہزارسال پہلے پڑھا ، جب فرشتوں نے سنا تو کہنے لگے ،خوشی ہے اس امت
کیلئے جن پر یہ قرآن اتارا جائے گا اور خوشحالی ہے ان دلوں کیلئے جو اس کو
یاد کریں گے اور خوشحالی ہے ان زبانوں کیلئے جو اسکی تلاوت کریں گے۔
(یٰسین ٭والقرآن الحکیم٭انک لمن المرسلین٭اس کو بیان کرنے کیلئے میں کچھ
حدیثیں آپ کو سناتا ہوں،حضرت ابو ہریرہؓ نے آپﷺ سے پوچھا:آپ نبی کب بنے
تھے؟تو اس کا جواب ہے ۴۰ سال کی عمر میں ،جبکہ کتابی جواب ۴۰سال۶ماہ دس
دن،تو میرے نبی نے کیا جواب دیاکہ ابو ہریرہؓ۴۰ سال،نہیں!میرے نبیﷺنے
فرمایا:ابوہریرہؓ!ابھی آدم کی مٹی اکھٹی نہیں ہوئی تھی کہ میں نبی بن چکا
تھا،اسی طرح جب حضرت آدم ؑاور حضرت حوا کا نکاح جنت میں پڑھا گیا تو اﷲ
تعالیٰ نے فرمایا:بیگم کا مہر ادا کرو ،کہا:یا اﷲ کیا ادا کروں؟اﷲ نے
فرمایا: تیری نسل میں میرا آخری نبی آرہا ہے اس پر ایک بار درود پڑھ دے یہ
مہر ہے،آپﷺ نے فرمایا اﷲ نے میرے دس نام رکھے ان ناموں میں سے ایک نام
یٰسین ہے،اﷲ تعالیٰ نے پیدائش کائنات(یعنی کائنات کو پیداکرنے)سے ۱۰۰۰ سال
پہلے سورۃ یٰسین کی تلاوت فرمائی (بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات ۲۵ عرب
سال پہلے بنائی گئی) سورۃ یٰسین کو قرآن کا دل کیوں کہتے ہیں؟کہ کوئی سورت
رسالت پر گواہی اورقسم سے نہیں شروع ہو رہی سوائے سورۃ یٰسین کے،سورۃ یٰسین
وہ واحد سورۃ ہے جس میں اﷲ اپنے نبی کی قسم اٹھا کر سورت کو شروع کر رہا ہے
کہ یٰسین(اﷲ نے جو دس نام اپنے محبوبﷺ کے رکھے ان میں سے ایک نام ہے)مجھے
قسم ہے قرآن پاک کی کہ آپ میرے رسول ہیں﴿مولانا طارق جمیل﴾)
٭ایک حدیث میں ہے:جو شخص سورۃ یٰسین کو صرف اﷲ کی رضا کیلئے پڑھے اس کے
پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں پس اس سورت کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔
٭ایک روایت میں ہے:جو سورۃ ےٰس کو پڑھتا ہے اسکی مغفرت کی جاتی ہے جو بھوک
کی حالت میں پڑھتا ہے وہ سیر ہو جاتا ہے جو راستہ گم ہو جانے کی وجہ سے
پڑھتا ہے وہ راستہ پالیتا ہے،جو شخص جانور گم ہو جانے کی وجہ سے پڑھتا ہے
وہ پا لیتا ہے اور جو ایسی حالت میں پڑھے کہ کھانا کم ہو جانے کا خوف ہو تو
وہ کھانا کافی ہو جاتا ہے ،جو ایسے شخص کے پاس پڑھے جو نزع میں ہو تواس پر
نزع آسانی ہو جاتی ہے،جو ایسی عورت پر پڑھے جس کے بچے ہونے میں دشواری ہو
رہی ہو اس کیلئے بچہ جننے میں سہولت ہو جاتی ہے ،جب بادشاہ یا دشمن کا خوف
ہو اس کیلئے سورۃ یٰسین پڑھے وہ خوف جاتا رہتا ہے۔(فضائل قرآن شریف از
مولانا محمد زکریاؒ)
٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:قرآن میں
ایک سورت ہے جو اﷲ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے جو اسے پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اس
کو شریف کے لقب سے نوازے گا،ربعیہ اور مضر (عرب کے دو مشہور قبیلے)کی تعداد
سے بھی زیادہ افراد کیلئے اس سورت کے پڑھنے والے کی شفاعت قبول کی جائے
گی،اس عظمت والی سورت کا نام سورۃ یٰسین ہے۔
٭حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:جس نے رات کے وقت سورۃ
یٰسین پڑھی،اس حالت میں صبح کو اٹھے گا کہ وہ بخشا ہوا ہو گا۔(ابن ِکثیر)
٭رسولﷺ نے فرمایا:کہ میری یہ تمنا ہے کہ یہ سورۃیٰسین میرے ہر امتی کے دل
میں ہو۔(تفسیر ابن ِکثیر)
٭حضرت عطاء بن رباح تابعی سے مروی ہے کہ مجھے یہ حدیث پہنچی کہ جو آدمی دن
کے آغاز میں سورۃ یٰسین پڑھے گا اسکی تمام ضروریات پوری کر دی جائیں
گی(دارمی)
صبح اٹھ کر روزانہ سورۃ یٰسین پڑھے سارا دن ملائکہ آپ کی خود حفاظت کریں گے
اور آپ کا ہر کام آسان ہو جائے گا۔سورۃیٰسین بروز ِقیامت پیاس سے بچائے
گی۔سورۃ یٰسین کو دل کی تکلیف،گھبراہٹ،کمزوری کیلئے فجر یا عشاء کے بعد پڑھ
کر پانی پر دم کر کے مریض کو پلا دیں شفاء یابی نصیب ہو گی،کیونکہ حدیث میں
ہے کہ سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے۔
ترجمہ:
شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے٭یٰسین(حقیقی معنی اﷲ
اور اسکے رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں،اﷲ نے جو دس نام اپنے محبوبﷺ کے رکھے یہ
ان میں سے ایک نام ہے)﴿۱﴾حکمت والے قرآن کریم کی قسم(قسم ہے قرآن پاک کی)﴿۲﴾بیشک
آپ(ﷺ)ضرور رسولوں میں سے ہیں(بیشک آپ میرے رسول ہیں)﴿۳﴾سیدھی راہ(صراط ِمستقیم)پر
قائم ہیں﴿۴﴾(اور یہ قرآن)بڑی عزت والے،بڑے رحم والے رب کا نازل کردہ
ہے﴿۵﴾تاکہ تم ان لوگوں کو (اﷲ کے عذاب سے)ڈراؤجن کے باپ دادا کو(بھی)نہیں
ڈرایا گیا سو وہ(دین سے بالکل)غافل(بے خبر)ہیں﴿۶﴾درحقیقت ان کے اکثر لوگوں
پر ہمارا فرمان(سچ)ثابت ہوچکا ہے پس وہ ایمان نہیں لائیں گے(یقینا انکی
اکثریت پر ہمارا عذاب ثابت ہو گیا تو وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں:ترجمہ :علامہ
جوادی )﴿۷﴾ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک
جکڑے گئے ہیں ،اسلئے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں﴿۸﴾ اور ہم نے انکے آگے سے بھی
ایک دیوار اور ان کے پیچھے سے بھی ایک دیوار بنا دی ہے،پھر ہم نے انکی
آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے پس وہ کچھ نہیں دیکھتے﴿۹﴾اور ان پر برابر ہے
خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا انہیں نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے﴿۱۰﴾آپ تو
صرف اسی شخص سناتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور خدائے رحمن سے بن
دیکھے ڈرتا ہے،پس آپ اسے بخشش اور بڑی عزت والے اجر کی خوشخبری سنا
دیں﴿۱۱﴾بیشک ہم ہی تو مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے
ہیں جو اعمال وہ آگے بھیج چکے ہیں اور ان کے اثرات جو پیچھے رہ گئے ہیں(وہ
بھی ہم ثبت کر رہے ہیں)اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب(لوح ِمحفوظ)میں احاطہ
(درج )کر رکھا ہے﴿۱۲﴾اور آپ ان کیلئے ایک بستی (شام کے شہر انطاکیہ)کے
باشندوں کی مثال (حکایتہ)بیان کریں،جب ان کے پاس کچھ رسول آئے﴿۱۳﴾جبکہ ہم
نے ان کی طرف (پہلے)دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلا دیا تو(پھر)ہم
نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا ،پھر ان تینوں نے کہا: بیشک
ہم(سب)تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں﴿۱۴﴾(بستی والوں نے)کہا:تم تو محض ہماری طرح
بشر ہواور خدائے رحمن نے تم پر کوئی چیز نازل نہیں کی ہے تم بالکل جھوٹ بول
رہے ہو﴿۱۵﴾(رسولوں نے)کہا:ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم یقینا تمہاری طرف بھیجے
گئے ہیں﴿ ۱۶﴾اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں
ہے(اور ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم اﷲ کا پیغام صاف صاف پہنچا دیں)﴿۱۷﴾(بستی
والوں نے)کہا:ہمیں تم سے نحوست پہنچی ہے(کہ تمہارے آنے سے قحط پڑ گیا
ہے)اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں
ضرور دردناک عذاب پہنچے گا﴿۱۸﴾(رسولوں نے)کہا:تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے،
کیا یہ نحوست ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی،بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے
ہو﴿۱۹﴾اور( اتنے میں) شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا،اس نے
کہا:اے میری قوم!تم رسولوں کی پیروی(اتباع)اختیار کر لو﴿۲۰﴾ایسے لوگوں کی
پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں﴿۲۱﴾آخر
کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف
تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟﴿۲۲﴾کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا
لوں؟حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت
میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں﴿۲۳﴾اگر میں ایسا
کروں(یعنی یہ جانتے ہوئے بھی اگر میں ان کو معبود بناؤں)تو میں صریح گمراہی
میں ہوں گا﴿۲۴﴾بیشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں ،پس تم مجھے(غور
سے)سنو﴿۲۵﴾( اسے کافروں نے شہید کر دیا تو اسے)کہا گیا:جنت میں داخل ہو
جا،اس نے کہا:کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا﴿۲۶﴾کہ میرے رب نے کس چیز کی
بدولت میری مغفرت فرما دی ہے اور مجھے عزت وقربت والوں میں شامل فرما دیا
ہے﴿۲۷﴾اور ہم نے اسکے بعد اسکی قوم پر آسمان سے (ملائکہ کا)کوئی لشکر نہیں
اتارا اور نہ ہی ہم(انکی ہلاکت کیلئے فرشتوں کو)اتارنے والے تھے﴿۲۸﴾(ان کا
عذاب)ایک سخت چنگھاڑ کے سوا اور کچھ نہ تھا ،بس وہ اسی دم(مر کر کوئلے کی
طرح)بجھ گئے﴿۲۹﴾ہائے(ان)بندوں پر افسوس!جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ
مذاق ہی اڑاتے رہے﴿۳۰﴾کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی
قومیں ہلاک کر ڈالیں،کہ اب وہ لوگ ان کی طرف پلٹ کر نہیں آئیں گے(یعنی ایسے
مٹے کہ ان کا کہیں نام ونشان تک باقی نہ رہا ،جوگراپھرنہ اٹھا،دنیا میں آج
کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے،انکی تہذیب وتمدن ہی کا نہیں،انکی نسلوں کا
بھی خاتمہ ہو گیا)﴿۳۱﴾ان سب کو ایک روز(بروز ِقیامت)ہمارے سامنے حاضر کیا
جانا ہے﴿۳۲﴾اور ان کیلئے ایک نشانی بے جان زمین ہے،جسے ہم نے زندہ کیا اور
ہم نے اس سے اناج کے دانے نکالے ،پھر وہ اس میں سے کھاتے ہیں﴿۳۳﴾اور ہم نے
اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات بنائے اور اس میں ہم نے کچھ چشمے بھی
جاری کر دئیے﴿۳۴﴾تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا
پیدا کیا ہوا نہیں ہے پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟﴿۳۵﴾ پاک ہے وہ ذات جس
نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کئے،ان سے بھی جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان کی
اپنی جنس(یعنی نوع انسانی )سے اور(مزید)ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں
جانتے(یعنی جن چیزوں کا انہیں علم نہیں)﴿۳۶﴾اور ایک نشانی ان کیلئے رات بھی
ہے ،ہم اس میں سے( کیسے )دن کو کھینچ لیتے ہیں پس وہ اس وقت اندھیرے میں
پڑے رہ جاتے ہیں﴿۳۷﴾اور سورج،وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے،یہ خدائے
غالب اور دانا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے﴿۳۸﴾اور چاند کی بھی ہم نے(حرکت و
گردش کی) منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ(اس کا اہل ِزمین کو دکھائی
دیناگھٹتے گھٹتے )کجھور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے﴿۳۹﴾نہ سورج کی یہ
مجال کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہو سکتی ہے
اور سب(ستارے اور سیارے)اپنے(اپنے)مدار میں حرکت پذیر ہیں ﴿۴۰﴾ اور ان
کیلئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار
کر دیا(بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوح ؑ کی کشتی،نسل انسانی کو اس پر
سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں ظاہری طور پر تو حضرت نوح ؑ کے
چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر درحقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام
انسان اس پر سوار تھے کیونکہ طوفان نوح میں ان کے سوا باقی پوری اولاد ِآدم
کو غرق کر دیا گیا تھا) ﴿۴۱﴾اور پھر ان کیلئے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں
جن پر یہ سوار ہوتے ہیں(اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو
بنی وہ حضرت نوح ؑ والی کشتی تھی)﴿۴۲﴾ہم چاہیں تو ان کو غرق کر دیں،کوئی ان
کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جا سکیں﴿۴۳﴾ سوائے ہماری
رحمت کے اور یہ ایک مقررہ مدت تک کا فائدہ ہے﴿۴۴﴾اور جب ان سے کہا جاتا ہے
کہ ڈرو اس(عذاب)سے جو تمہارے آگے ہے اور اس سے ڈرو جو تمہارے پیچھے ہے کہ
تم پر رحم کیا جائے(تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے)﴿۴۵﴾اور جب کبھی ان کے رب
کی نشانیوں (میں)سے کوئی نشانی ان کے پاس آتی ہے تو اس سے منہ پھیر لیتے
ہیں﴿۴۶﴾اور جب ان سے فرمایا جاتا ہے کہ تم اس میں سے(اﷲ کی راہ میں)خرچ کرو
جو تمہیں اﷲ نے عطا کیا ہے تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں:کیا ہم
اس(غریب)شخص کو کھلائیں جسے اگر اﷲ چاہتا تو خود ہی کھلا دیتا،تم تو کھلی
گمراہی میں ہی(مبتلا)ہو گئے ہو﴿۴۷﴾اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ(قیامت)کب
پورا ہو گااگر تم سچے ہو﴿۴۸﴾وہ لوگ صرف ایک سخت چنگھاڑ کے ہی منتظر ہیں جو
انہیں اچانک پکڑے گی اور وہ آپس میں(دنیوی معاملات میں)جھگڑ رہے ہوں
گے﴿۴۹﴾اور اس وقت یہ وصیت تک نہ کر سکیں گے،نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں
گے﴿۵۰﴾اور(جس وقت دوبارہ)صور پھونکا جائے گا(حضرت اسرافیل ؑ صور پھونکیں
گے)تو وہ فوراًقبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے﴿۵۱﴾( روز ِمحشر
کی ہولناکیاں دیکھ کر)کہیں گے:ہائے ہماری کمبختی!ہمیں کس نے ہماری خواب
گاہوں سے اٹھا دیا،یہ زندہ ہونا وہی تو ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا
تھا اور رسولوں نے سچ فرمایا تھا﴿۵۲﴾ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب
ہمارے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے﴿۵۳﴾آج کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے
گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے عمل تم کرتے رہے تھے﴿۵۴﴾بیشک
اہل ِجنت آج اپنے دل پسند مشاغل (مثلاً زیارتوں،ضیافتوں،سماع اور دیگر
نعمتوں)میں لطف اندوز ہو رہے ہوں گے﴿۵۵﴾وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں
تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے﴿۵۶﴾ان کیلئے اس میں ہر قسم کا میوہ ہو گا
اور ان کیلئے ہر وہ چیز میسر ہو گی جو وہ طلب کریں گے ﴿۵۷﴾ان پر سلام ہو
گا،مہربان رب کا فرمایا ہوا(تم پر سلام ہو،یہ رب رحیم کی طرف سے فرمایا
جائے گا)﴿۵۸﴾اور اے مجرمو!تم آج(نیکوکاروں سے)الگ ہو جاؤ﴿۵۹﴾اے اولاد ِآدم!کیا
میں نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کو نہ پوجنا بیشک ،وہ
تمہارا کھلا دشمن ہے﴿۶۰﴾ اور یہ کہ میری عبادت کرتے رہنا،یہی سیدھا راستہ
ہے﴿۶۱﴾اور بیشک اس نے تم میں سے بہت سی خلقت(بہت سی خلقت سے مراد گروہ ِکثیر)کو
بہکا دیا،تو کیا تمہیں عقل نہ تھی؟﴿۶۲﴾یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا
جاتا رہا تھا ﴿۶۳﴾جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں اب اس کا
ایندھن بنو﴿۶۴﴾آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے
باتیں کریں گے اور انکے پاؤں ان اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے
تھے﴿۶۵﴾اور اگر ہم چاہتے تو انکی آنکھوں کے نشان تک مٹا دیتے پھر وہ راستے
پر دوڑتے تو کہاں دیکھ سکتے؟﴿۶۶﴾اور اگر ہم چاہتے تو ان کے گھر بیٹھے ان کی
صورتیں بدل دیتے پھر نہ وہ آگے جانے کی قدرت رکھتے اور نہ ہی واپس لوٹ
سکتے﴿۶۷﴾اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا
کمزوری کی طرف)پلٹا دیتے ہیں ،کیا(یہ حالات دیکھ کر)انہیں عقل نہیں آتی؟﴿۶۸﴾اور
ہم نے ان کو(یعنی نبی مکرمﷺکو) شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ ان کے
شایان ِشان ہے،یہ (کتاب)تو فقط نصیحت اور روشن قرآن ہے﴿۶۹﴾تاکہ وہ ہر اس
شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو(زندہ سے مراد سوچنے اور سمجھنے والا انسان
ہے)اور کافروں پر حجت قائم ہو جائے(کافروں پر بات پوری ہو جائے)﴿ ۷۰﴾کیا
انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اپنے دست ِقدرت سے بنائی ہوئی (مخلوق)میں سے
ان کیلئے مویشی پیدا کئے تو وہ ان کے مالک ہیں﴿۷۱﴾اور ہم نے ان مویشیوں کو
ان کے تابع کر دیا (ان کے بس میں کر دیا)سو ان میں سے کچھ تو ان کی سواریاں
ہیں اور ان میں سے بعض کو وہ کھاتے ہیں﴿۷۲﴾اور ان میں ان کیلئے اور بھی
فوائد ہیں اور مشروب(دودھ وغیرہ )ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے؟
﴿۷۳﴾اور انہوں نے اﷲ کے سوا بتوں کو معبود بنا لیا ہے اس امید پر کہ انکی
مدد کی جائے گی﴿۷۴﴾وہ بت ان کی مدد کی قدرت نہیں رکھتے اور یہ( کفارومشرکین
)ان بتوں کے لشکر ہوں گے جو اکھٹے( جہنم میں) حاضر کر دئیے جائیں گے﴿۷۵﴾(اے
پیغمبرﷺ)پس ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ خاطر نہ کریں،بیشک ہم جانتے ہیں جو
کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں﴿۷۶﴾کیا انسان دیکھتا نہیں
ہے کہ ہم نے اسے نطفہ(تولیدی قطرہ،پانی کی بوند)سے پیدا کیااور پھر وہ صریح
جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا؟﴿۷۷﴾اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی
پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے کہتا ہے کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ
بوسیدہ ہو چکی ہوں؟﴿۷۸﴾فرما دیجئے:انہیں وہی زندہ فرمائے گا جس نے انہیں
پہلی بار پیدا کیا تھااور وہ ہر مخلوق کو خوب جاننے والا ہے﴿۷۹﴾وہی جس نے
تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی(یعنی ہرے بھرے درختوں میں وہ
آتش گیر مادہ رکھا ہے جس کی بدولت تم لکڑیوں سے آگ جلاتے ہو)اور تم اس سے
اپنے چولہے روشن کرتے ہو﴿۸۰﴾اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا
فرمایا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسی تخلیق دوبارہ کر دے،کیوں نہیں
اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے﴿۸۱﴾وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ
کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی
ہے﴿۸۲﴾پس وہ ذات پاک ہے جس کے دست ِقدرت میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور تم
اسی کی طرف لوٹائے(پلٹائے )جاؤ گے﴿۸۳﴾ |