ریلی میں حجاب پوش لڑکیوں کی شرکت
(Falah Uddin Falahi, India)
حجاب کا نام سنتے ہی یوروپ اور امریکہ کی
حکومت اور وہاں کی عدلیہ کے تعصبانہ ذہنیت کا تصور دماغ میں گردش کرنے لگتا
ہے ۔مغربی ممالک میں حجاب ایک ایسا معاملہ ہے جس پر برسوں سے سرد جنگ جاری
ہے ۔کبھی عدالت کے احاطے میں جج کے سامنے کسی حجاب پوش خواتین کو سماعت کے
دوران گولی ماردی جاتی ہے تو کبھی راہ گیر چلتے ہوئے حجاب پوش خواتین کو
نشانہ بناتے ہیں ۔یہ اور اس طرح کی متعدد واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے
ہیں جس کا مشاہدہ ہم اخبارات اور ٹی وی سے کرتے رہتے ہیں ۔اور کبھی سائنسی
تحقیق کے ذریعے حجاب پر سروے کرایا جاتا ہے اور اس کی رپورٹ حجاب کے حق میں
آتی ہے ۔اس طرح حجا آبھی تک مغربی ممالک میں تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا
رہا ہے ۔وہیں ہندستان میں بھی گاہ بگاہ اس پر مختلف طرح سے بیانات سامنے
آئیں ہیں مثلا کبھی آسام کے ایک والدین کی طرف بچی کے اسکول میں حجاب پر
منع کئے جانے کی وجہ سے کورٹ جانے کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو کبھی کسی سیاسی
لیڈر کی بیان بازی کے ذریعے اسے طالبانی اور دہشت گرد کی نشانی بتائی جاتی
ہے لیکن انہیں اس کا جواب خود مل جاتا ہے ۔کبھی کسی ریلی میں حجاب پوش غیر
مسلم خواتین کا پردہ فاش ہوتا ہے تو کبھی گرمی میں لڑکیوں کے چہرے ڈوپٹہ سے
ڈھکنے پر انگریزی اخبارات میں منفی پہلو سے تبصرہ سامنے آتا ہے ۔اب تو
شہرمیں پچاس فیصد لڑکیاں با حجاب نظر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر مسلم گمان ہوتا
ہے لیکن حقیقت میں وہ غیر مسلم ہوتی ہیں اور اپنی حفاظت کیلئے حجاب اوڑھ
لیتی ہیں اور کہتی بھی ہیں کہ اس سے ہم نظر بد سے بچ جاتے ہیں اور بے فکر
ہو کر اپنے منزل کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں ۔اسی درمیان ہندوستان میں ایسیڈ
اٹیک نے حکومت کے ہوش آرادئے جس میں حسین و جمیل لڑکیوں کو ایسیڈ کا نشانہ
بنایا جانے لگا اور ایک طرفہ عشق و عاشقی میں بھی اس طرح کی واردات بہت
تیزی سے ہونے لگے ۔جس سے خوف زدہ ہو کر زیادہ تر لڑکیوں نے حجاب کا سہارا
لیا گرچہ ان کا حجاب ڈوپٹہ کی شکل کا ہوتا ہے جسے وہ اپنے چہرے پر سلیقے سے
باندھ لیتی ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا جسے لوگوں نے تنقید کا نشانہ
بنایا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ریاست کیرالا کے شہر پونانی میں سیاسی جماعت
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے ایک امیدوار کی انتخابی مہم میں شامل لڑکیوں کی
حجاب والی تصویر جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین کی آزادی پر
بحث چھڑ گئی ہے۔واضح رہے کہ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا جماعت اسلامی ہند کی
سیاسی ونگ ہے ۔ریلی کی تصویر میں لڑکیوں کو ایک گروہ کو وائی پی آئی کے
امیدوار ایم ایم شاکر کے حق میں بینر اٹھائے اور نعرے مارتے دیکھا جا سکتا
ہے۔اس پر تنازع اس وقت شروع ہوا جب کچھ مسلمان تنظیموں کی جانب سے اس عمل
کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غیراسلامی قرار دیا گیا۔جلد ہی ان لڑکیوں کے
خلاف آن لان برا بھلا کہنے کی مہم شروع ہوگئی جس کے ردِ عمل میں روشن خیال
مسلمانوں کی جانب سے لڑکیوں کے حق میں آواز بلند کی گئی۔ایم ایم شاکر کا
کہنا ہے کہ وہ لڑکیاں جو اس ریلی کا حصہ تھیں انھیں کئی جانب سے شدید تنقید
کا سامنا ہے اور انھیں مستقبل میں ایسی مہمات سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا
ہے۔نوربینہ راشد ریاست میں خواتین کے کمیشن کی رکن اور انڈین یونین مسلم کے
خواتین کے ونگ ویمنز لیگ کی قومی جنرل سیکریٹری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان
کی تنظیم خواتین کی سیاسی آزادی کو سلب کرنے حق میں نہیں ہے۔وہ کہتی ہیں:
’ان کی ریلی میں شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر باشعور ہیں اور
معاشرے کو ان کی مخالفت کرنے اور گالی دینے کے بجائے انھیں تسلیم کرنا
چاہیے۔‘سماجی کارکن وی پی راجینا نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا ہے کہ یہ
انتہائی بدقسمتی کا مقام ہے کہ علما اور دیگر مسلمان تنظیمیں مسلمانوں کو
چار دیواری کے اندر رہنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’مسلمان
خواتین جنھیں نے انتخابی ریلی میں حصہ لیا اور پردے میں ملبوس لڑکیاں جنھوں
نے اداکار پرتھوی راج کے ساتھ سیلفی لی تھی، ان پر زبانی حملے خواتین مخالف
معاشرے کی علامات ہیں۔ ہمارے ہاں مسلمانوں کی فلاح کے لیے بہت ساری تنظیمیں
ہیں۔ لیکن وہ خواتین کے آزادی کے حق میں کھڑے ہونے سے قاصر ہیں۔ وہ جو
لڑکیوں کو انتخابی ریلی میں شامل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔‘ان
سارے حقائق سے واضح ہے کہ خواتین کو لوگ اب بھی نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ
کیوں ریلی میں شرکت کر رہی ہیں ۔اگر یہی لڑکیاں بغیر حجاب کے ریلی میں شرکت
کرتی تو کوئی نہیں انہیں تنقید کا نشانہ بناتا لیکن حجاب میں دیکھ کر وہ آگ
بگولہ ہو گئے آخر کیوں کیا انہیں سماج میں فیصلے لینے کا حق نہیں ہے کیا
انہیں کسی امیدوار کے حق میں نعرہ لگانے کا حق نہیں ،کیا انہیں سیاسی پارٹی
میں شمولیت کا حق نہیں ؟ہاں ہے دنیا کی تمام مشغلولیات میں وہ حصہ لے سکتی
ہیں بشرطہ وہ با حجاب ہوں ۔اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں ۔یہی
شرط اسلام میں بھی موجودہے کہ خواتین ہر وہ کام کر سکتی ہیں لیکن اس کے لئے
دائرہ اور حدود قائم کر دیا گیا صرف اور صرف ان کی حفاظت کے لئے اس لئے اگر
وہ حدود میں رہ کر کوئی کام کرتی ہیں تو اسے روکنے کا حق کسی کو نہیں ہے ۔جب
خدا نے انہیں کسی کام سے منع نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں ۔لیکن یہ سب
حالات کے مطابق ہونا چاہئے ۔خواتین پر کسی طرح کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے یہ
بات واضح رہنی چاہئے لیکن اگر کچھ حالات ایسے ہوں جس میں انہیں باہر نکلنا
ہی پڑے گا تو وہ حدود میں رہ کر اپنا کام انجام دے سکتی ہیں ۔ |
|