کشمیر برصغیر تو کیا شاید کرہ ارض پر اپنے
حسنِ بے پناہ کی نظیر نہیں رکھتا۔ لیکن ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے سے بار بار
اس فردوس برروئے زمین کے حسنِ جہان تاب کو داغدار کیا گیا اور اب بھی کیا
جارہا ہے۔ لیکن ہوا ہمیشہ یہ کہ ایک کی شہادت نے دوسرے کے شوق شہادت کو
مہمیز لگائی اور یہ شہادتیں آزادی کی لو کو شعلہ بناتی گئیں۔
ایسا ہی ایک ایمان افروز واقعہ اس وقت پیش آیا جب ڈوگرہ راج میں مسلمانوں
کے خلاف مظالم اپنے عروج پر تھے اِن مظالم کے خلاف ایک جلسے میں عبدالقدیر
نامی نوجوان کو مہاراجہ کے خلاف بولنے پر گرفتار کیا گیا اور اِس کے مقدمے
کی سماعت سنٹرل جیل سرینگر میں ہونی قرار پائی جسے سننے کے لیے ہزاروں لوگ
جمع ہوئے نماز کا وقت آیا تو ایک نوجوان نے اذان دینی شروع کی ہی تھی کہ
ڈوگرہ سپاہیوں نے اسے گولی مار دی اْس کی جگہ لینے کو ایک اور نوجوان آگے
آیا لیکن اسے بھی شہید کر دیا گیا اور پھر ایک ایک کر کے بائیس نوجوان شہید
کر دیئے گئے شوق شہادت میں فرق نہ آیا کہ یہ مسلمان بندے جانتے تھے کہ چاہے
کچھ ہو جائے انہیں ہے حکمِ اذاں لا اِلہ الا اللہ۔ یہ واقعہ13 جولائی 1931
کا ہے لیکن اس کی ایمان افروزی میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی اور ہر سال 13
جولائی کو ان اسلام اور آزادی کے پروانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جسے قیام پاکستان کے وقت یقیناً پاکستان
کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن متعصب راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان
کیا اس سے پہلے انگریز بھی اپنی بدنیتی دکھا چکا تھا اور گورداسپور کو
بھارت کو دے کر ایک ایسے فتنے کی بنیاد رکھ دی تھی جس کی شرانگیزی ابھی تک
بر صغیر کے امن کی درپے ہے۔ کشمیریوں پر بھارت کی طرف سے ابھی بھی وہی
انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ کشمیر کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ
ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہجرت کر کے پاکستان اور آزاد کشمیر آچکی ہے لیکن
بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اکثریت کم نہیں ہوئی۔ حالانکہ حقیقت
یہ ہے کہ بھارت انتہائی وسیع پیمانے پر کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے
صرف 2008 میں اٹھارہ دیہات میں سے ایک ہزار سے زیادہ کشمیریوں کی نا معلوم
قبریں دریافت ہوئی یہ تو ایک واقعہ ہے ورنہ کشمیری آئے دن اِن ہی حالات سے
گزرتے ہیں اور بھارت سرکار طرح طرح کے ظالمانہ قوانین اس وادی میں نافذ
کرتی رہتی ہے اور 1989کے بعد جب سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کا نیا دور شروع
ہوا ہے تو بھارت کا خونی پن مزید عود کر آیا اور اس نے اپنے فوج کو مزید
ظالمانہ اختیارات دیے اور اِنڈین آرمی چیف کے بقول یہ قوانین اِن کی فوج کی
حفاظت کے لیے انتہائی ضروری ہیں یعنی خود اَن کا چیف بھی اِس بات کا اعتراف
کر رہا ہے کہ وہ صرف اپنی فوج کی حفاظت کا ذمہ دار ہے چاہے اِس کے لیے اسے
کشمیریوں کا قتل عام کرنا پڑے جو وہ بڑی ایمانداری کے ساتھ کر رہے ہیں۔
کشمیر ایک عام سا مسئلہ نہیں کہ بھارت عالمی برادری کے سامنے اسے دہشت
گردوں کی کاروائی بنا کر پیش کرے جو کہ وہ کر رہا ہے۔ دہشت گردی کی اصطلاح
تو پچھلے کچھ سالوں میں عام ہوئی لیکن کشمیری تو یہ جنگ اس وقت سے لڑ رہے
ہیں جب ہندو خود بھی انگریز سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے لیکن اس سب کچھ کو
وہ آزادی کی تحریک کا نام دیتے تھے جبکہ انہیں انگریزوں سے اتنی زیادہ
تکلیف بھی نہ تھی جتنی کشمیری بھارت کے ہاتھوں اٹھا رہے ہیں۔ روزانہ کی
بنیاد پر کشمیریوں کو مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اشد ضرورتیں بھی کرفیو
کی نظر ہو جاتیں ہیں لیکن بھارت سرکار کو نہ تو سلگتے بلکتے کشمیری بچوں کی
پرواہ ہے نہ ہسپتال کے ضرورت مند بیماروں کی۔ اس کو صرف ایک خبط ہے کہ
کشمیر کو اپنے غاصبانہ قبضہ کے میں رکھے بلکہ مرتے ہوئے کشمیری تو اِس کا
کام آسان بنا دیتے ہیں کہ کشمیری مسلمانوں کی تعداد میں کمی واقعہ ہو۔ سات
جولائی کا ہی واقعہ لیجئیے جب اس نے سولہ سالہ طالبعلم اور اس کے جنازے میں
شریک نوجوان کو شہید کر دیا۔ سولہ سال وہ عمر ہے جسے بچوں میں شمار کیا
جاتا ہے اور اقوم متحدہ اپنی امن فوج کو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ متاثرہ
ملکوں میں سولہ سال تک کے بچوں پر ہتھیار اٹھانے سے گریز کریں۔ لیکن مغرب
اور خاص کر امریکہ کے چہیتے بھارت پر یہ قانون کیوں نہیں لاگو ہوتا اور
عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف شرط پوری کرنے کے لیے کبھی کبھار ہی کیوں
کوئی بیان دیتی ہیں؟ عالمی طاقتوں سے بھارت کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا
مطالبہ کیوں نہیں کرتیں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والی قومیں اگر
بھارت کی سیر کو کبھی نکلیں تو وہ بھی جان جائیں گے کہ دہشت گردی کی ہر
کاروائی کا ذمہ دار پاکستان کو گرداننے والا بھارت خود کیا کر رہا ہے۔ اور
کشمیر تو دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پورے
علاقہ کا امن اور ترقی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اگر بھارت اقوام متحدہ کی
قراردادوں پر عمل کرے تو اس مسئلے کا حل مشکل بھی نہیں۔
کشمیری بھی آزادی کا اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ دنیا کا کوئی بھی دوسرا
انسان اور ان کا مطالبہ انتہائی منطقی بھی ہے کہ وہ مسلمان اکثریتی ریاست
ہے اس لیے اسے ہندو کا غلام کا کیا جواز ہے۔ جس طرح دوسرے مذاہب کے
پیروکاروں کو آزادی کا حق ہے جو مغرب نے ایسٹ تیمور میں میں بڑی آسانی سے
تسلیم کیا وہیں سارے اصول مسلمانوں کے لیے کیوں الٹ جاتے ہیں۔ بھارت کو اس
بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ کشمیر اس کا حصہ نہ کل تھا نہ آج۔ اگر
1931میں کشمیری دیوانہ وار شہادت کو گلے لگا رہے تھے تو آج بھی معاملہ
مختلف نہیں جس کا ثبوت 1989 سے لیکر 31دسمبر 2009 تک کی تقریباً ترانوے
ہزار شہادتیں ہیں۔ اور کشمیر بجا طور پر شہیدوں کی سر زمین کہلانے کا حقدار
ہے۔ آزادی کے یہ متوالے نہ تو کل غلامی پر رضامند تھے نہ ہی آج۔ اور یقیناً
انہی شہادتوں کا ثمر جلد ہی کشمیر کی سرزمین پر آزادی کا سورج بن کر طلوع
ہوگا۔ |